Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 17
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : تمہیں پہنچائے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی سختی فَلَا : تو نہیں كَاشِفَ : دور کرنے والا لَهٗٓ : اس کا اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : وہ ہپنچائے تمہیں بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور اگر اللہ تجھے اپنے قانون کے مطابق دکھ پہنچائے تو اس کا ٹالنے والا کوئی نہیں ہے مگر اس کی ذات اور اگر وہ تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ ہر بات پر قادر ہے
دکھ اور سکھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہی قادرمطلق ہے : 27: جب تک انسان ہے نفع وضرر بھی لازم ہے پھر انسان کا پیدا کرنے والا وہی نفع و ضرور کا خالق ہے ۔ انسان کو چونکہ ایک حد تک اختیار دیا گیا ہے اس لئے وہ جس کو چاہتا ہے نفع کا مالک قرار دے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نقصان کا لیکن فی نفسہ نفع و ضرر کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا کہ ” نفع “ جس کو چاہے اس کو جا پکڑے اور ” ضرر “ جس کو چاہئے اس کو چھولے۔ نہیں وہ اللہ کے حکم کا ہر لحاظ سے پابند ہے اس لئے وہ اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس نے اس کیلئے جو قانون بنا دیا ہے وہ اس قانون کے مطابق کام کر رہا ہے وہ جس کو دکھ پہنچا دے اس کو کوئی سکھ نہیں پہنچا سکتا اس لئے کہ پہلے اس کو دکھ دور کرنا چاہئے اور وہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا موجود ہی نہیں کہ اس کو دور کر دے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا قرآن کریم میں باربار اعلان فرمایا کہ نفع و ضرور کا مالک صرف اور صرف میں ہی ہوں دوسرا کوئی نہیں۔ اس لئے جس کو ” ضرر ‘ پہنچے اس کو چاہئے کہ وہ مجھ ہی سے اپیل کرے اور میں جب چاہوں اس کے فرد کو اپنے قانون کے مطابق دور کر دوں اور جس کو جائز ” نفع “ پہنچے اس کا حق ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرے یہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آیا ہے کسی غیر کی طرف سے نہیں۔ پھر اس کا اعلان بھی نبی اعظم و آخر ﷺ کی زبان اقدس سے کرایا تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہ جائے اور ہر ایک ٹھوکر کھا کر گرنے سے بچ جائے۔ یاد رکھو ” تکلیف اور راحت ، بیماری اور صحت ، ناکامی اور کامیابی ، ذلت اور عزت سب اللہ تعالیٰ وحدہ کے دست قدرت میں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو فقر ، مرض یا قرض میں مبتلا کر دے تو کسی کے بس میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان مصائب سے اسے نجات دے دے اور اگر اللہ تعالیٰ کسی پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور اسے اپنے انعامات سے نوازے تو کسی کی طاقت نہیں کہ اس سے چھین لے۔ وہی مالک حقیقی ہے۔ وہی قادر مطلق ہے ۔ اس کے اذن کے بغیر کوئی پتہ ، کوئی ذرہ ، کوئی قطرہ اپنی جگہ سے جنبش نہیں کرسکتا۔ مشرک قوموں اور مشرک افراد نے نیکی ، بدی ، بارش ، فتح دولت اور علم وغیرہ کے لئے الگ الگ خد ابنا لئے ان سب کے سب خیالات فاسدہ کی اس آیت نے تردید کردی۔ “ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ کسریٰ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک خچر بطور ہدیہ بھیجی۔ آپ ﷺ نے بالوں کی رسی بنا کر اس کو لگام دی اور اس پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور روانہ ہوئے کچھ دیر چلنے کے بعد میری طرف رخ پھیرا اور فرمایا لڑکے میں نے عرض کی حاضر یا رسول اللہ ! فرمایا اللہ کے احکام کی نگہداشت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کے اومراو نواہی کی نگہداشت کر تو اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ تو عیش و آرام کے وقت اللہ کے پہچان دکھ اور سختی کے وقت اللہ تجھ سے انجان نہ ہوگا۔ کچھ مانگے تو اللہ سے مانگ ، اگر مدد طلب کرے تو اللہ سے طلب کر جو کچھ ہونے والا ہے قلم اس پر چل چکا ہے ۔ فیصلہ خداوندی کے خلاف اگر ساری مخلوق تجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے تو فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور اللہ کی تحریر کے خلاف اگر کوئی تجھے ضرر پہنچانا چاہے گا تو ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو یقین کے ساتھ صابر رہ کر عمل کہ اگر عمل نہ کرسکتا ہو تو صبر کر۔ نا گوار امور پر صبر رکھنے میں بڑی بہتری ہے اور یہ بھی جان کہ صبر کے ساتھ مدد ہوتی ہے اور سختی کے ساتھ کشائش اور دشواری کے ساتھ آسانی۔ (احمد ، ترمذی حسن صحیح)
Top