Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 157
اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّاۤ اَهْدٰى مِنْهُمْ١ۚ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ١ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ صَدَفَ عَنْهَا١ؕ سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْٓءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یَصْدِفُوْنَ
اَوْ تَقُوْلُوْا : یا تم کہو لَوْ اَنَّآ : اگر ہم اُنْزِلَ : اتاری جاتی عَلَيْنَا : ہم پر الْكِتٰبُ : کتاب لَكُنَّآ : البتہ ہم ہوتے اَهْدٰي : زیادہ ہدایت پر مِنْهُمْ : ان سے فَقَدْ جَآءَكُمْ : پس آگئی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ : اس سے جو كَذَّبَ : جھٹلا دے بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ وَصَدَفَ : اور کترائے عَنْهَا : اس سے سَنَجْزِي : ہم جلد سزا دیں گے الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جو يَصْدِفُوْنَ : کتراتے ہیں وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں سُوْٓءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ : وہ کتراتے تھے
یا کہو اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو ہم ان جماعتوں سے زیادہ ہدایت والے ہوتے سو دیکھو تمہارے پاس بھی تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل ہدایت اور رحمت آگئی ، پھر بتلاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون انسان ہے جو اللہ کی نشانیاں جھٹلائے اور ان سے گردن موڑے ؟ جو لوگ ہماری نشانیوں سے گردن موڑتے ہیں ہم انہیں اس کی پاداش میں عنقریب سخت سزا دینے والے ہیں
اب تمہارا یہ عذر بھی نہ رہا کہ ہم پر کتاب نازل ہوتی تو ہم زیادہ ہدایت یافتہ ہوجاتے : 248: یہ آیت بھی گویا پہلی آیت کی تفسیر ہے اس میں مزید وضاحت فرما دی کہ اگر تمہاری طرف کتاب نازل نہ کی جاتی تو تم یہ عذر بھی کرسکتے تھے پہلی کتب اصل حالت پر موجود نہ رہی تھیں اور ہم پر کوئی ہدایت کی کتاب نازل نہ ہوئی اگر نازل ہوتی تو ہم زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ اب تمہارے پاس کتاب یعنی قرآن کریم آگیا اور اس میں وہ ابدی ہدایات بھی آگئیں جو تا قیامت باقی رہیں گی ، اب تم اس طرح کا کوئی عذر پیش نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم کے لئے اس آیت میں ” بینۃ “ ” ھدی “ اور ” رحمۃ “ کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ ” ہدایت اور رحمت “ کے الفاظ پر جو بحث تورات کے ضمن میں آئی وہی قرآن کریم کے نزول کے لئے ہے اور ” بینۃ “ کے معنی روشن دلیل اور حجت قاطع کے ہیں۔ قرآن کریم کے یہ لفظ بار بار استعمال ہوا ہے جس کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ اس دنیا کے ان تمام انسانوں کے عذرات کا خاتمہ کردیا جن کا اوپر حوالہ دیا گیا دوسرا یہ کہ قرآن کریم بجائے خود حجت وبرہان ہے اس کا کتاب الٰہی ہونا کسی خارجی دلیل کا محتاج نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کے چیلنج کا جیسا کہ قرآن کے متعدد مقامات سے واضح ہے اس وقت کے لوگ کوئی جواب نہ دے سکے اور رہتی دنیا تک نہیں دے سکیں گے اور یہ بھی کہ قرآن کریم اپنے ہر دعویٰ اور ہر تعلیم کے دلائل وبراہین اپنے ساتھ لے کر نازل ہوا ہے اور وہ ایسے مضبوط ومستحکم اور ایسے عقلی وفکری اور فطری ہیں کہ ان کے مقابل میں کٹ حجتی تو شاید کوئی کرے لیکن ان کی تردید ممکن نہیں اور کٹ حجتیوں کا انجام اس نے واضح کردیا ہے جس کو ہر بینا آنکھ دیکھ رہی ہے اور تا قیامت دیکھتی رہے گی اور ان کی آخرت کی بربادی بھی اسی طرح یقینی ہے۔ آیات الٰہی سے گردن موڑنے والوں سے زیادہ بدبخت کون ہوسکتا ہے ؟ : 249: جن لوگوں نے آیات الٰہی کی تکذیب کی اور دوسروں کو ان کے سننے اور سمجھنے سے روکا ان سے بڑھ کر محروم القسمت اور بدبخت کون ہو سکتا ہے ؟ جس کی ماں نے اپنے بیٹے کے لئے روغنی روٹی تیار کی اور جین محنت اور دل لگی سے اس کو پکا سکتی تھی پکایا اور روٹی پک کر تیار ہوگئی تو بیٹے نے اس کی طرف دیکھنے سے بھی انکار کردیا کھانے کا نمبر تو بعد میں تھا اور وہ اتنا ضدی نکلا کہ ماں کی اپیل کو بھی مسترد کردیا کیا اس روٹی کا اب آٹا بن کر آٹے میں شامل ہوجائے گا ہرگز نہیں اس کو کوئی انسان بھی کھا سکتا ہے اور اسی طرح چوہے ، کوے اور کتے بھی۔ پھر جن لوگوں کے پاس ایسی کتاب آئے جو ان کے تمام عذرات کا خاتمہ کر دے ، جو ان کے لئے حجت وبرہان ہو ، جو ابر رحمت بن کر برسے ، جو راہنمائی کے لئے روشنی کا مینار اور آخرت میں رحمت الٰہی کی ضامن ہو لیکن وہ بدبخت خود بھی جھٹلائیں اور دوسروں کو بھی اس سے روکیں ان کا انجام کیا ہونا چاہئے ؟ وہی جو اس وقت ہو رہا ہے اور جب تک وہ اپنی حالت کو خود بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے یہی ہوتا رہے گا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ سنت اللہ یہی ہے اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی ، نہ وہ خود بدلتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو بدلنے دیتا ہے کیونکہ وہ سارے طاقتوروں سے زیادہ طاقتور اور سارے با اصولوں سے زیادہ بااصول ہے۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو اپنی حالت کے بدلنے کا خود خیال نہ آیا ہو۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ہماری قوم کے کسی بندے کے دل میں بھی یہ بات ڈال دے تاکہ ہماری دناں اور آخرت سنور جائے۔ اے اللہ ! ایسی بات کو دل میں جمانے والا بھی تو ہی ہے اور ایسا آدمی پیدا کرنے والا بھی تو ہی ہے۔
Top