Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 150
قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمُ الَّذِیْنَ یَشْهَدُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ هٰذَا١ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ هُمْ بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : فرمادیں هَلُمَّ : تم لاؤ شُهَدَآءَكُمُ : اپنے گواہ الَّذِيْنَ : جو يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیں اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَ : حرام کیا ھٰذَا : یہ فَاِنْ : پھر اگر شَهِدُوْا : وہ گواہی دیں فَلَا تَشْهَدْ : تو تم گواہی نہ دینا مَعَهُمْ : ان کے ساتھ وَلَا تَتَّبِعْ : اور نہ پیروی کرنا اَهْوَآءَ : خواہشات الَّذِيْنَ : جو لوگ كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : نہیں ایمان لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَهُمْ : اور وہ بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے برابر يَعْدِلُوْنَ : ٹھہراتے ہیں
ان سے کہو کہ بلاؤ ان کو جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ نے یہ چیز حرام کردی ہے ، پھر اگر ان کے گواہ اس بات پر گواہی بھی دے دیں جب بھی تم ان کے ساتھ ہو کر اس کا اعتراف نہ کرو تم ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائی ہیں اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور دوسری ہستیوں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں
اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو کہ اپنی گواہی پیش کرو کہ اللہ نے یہ چیزیں حرام کردی ہیں : 231: فرمایا اے پیغمبر اسلام ! (a) ان لوگوں سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کرنے کا کوئی گواہ ہے تو اسے میدان میں لے آئو لیکن اگر تمہارے پاس کوئی گواہ ہی نہیں ہے تو پھر ان بےسروپا خرافات سے چمٹے رہنے پر کیوں بےجا ضد کر رہے ہو آخر اس ضد کا فائدہ ؟ واضح رہے کہ معقول گواہی صرف دو بنیادوں پر ہوتی ہے ایک تو ذاتی مشاہدہ اور شخصی علم و واقفیت پر دوسری کسی عقل یا فطری قرینہ پر قرآن کریم نے ان دونوں ہی قسم کی گواہیوں کا مطالبہ کیا ہے کہ اس طرح کی کوئی گواہی بھی موجود ہے تو اس کو پیش کرو ورنہ اس دلیل اور واضح برہان کو قبول کرلو جو قرآن کریم تمہارے سامنے پیش کرتا ہے۔ خواہشات کی پیروی کرنے والے اپنی خواہش ہی کو گواہ بنا لیں تو تم قبول نہ کرنا : 232: خواہشات کی پیروی کرنے والے اپنی خواہشات ہی کو گواہ بنانے لگیں ، کیا مطلب ؟ مطلب یہ ہے کہ وہ گواہی کی شرطوں کے بغیر ہی گواہی دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں جیسا کہ انہوں نے فی الواقعہ کیا کہ ہماری گواہی یہ ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسے کرتے پایا ہے اور جو وہ کرتے آئے تھے وہی کچھ ہم کر رہے ہیں کیا باپ دادا ہمارے غلط تھے ؟ تو یہ ایک اشتعال انگیز بات تو ہے جس سے دوسروں کے جذبات بھڑک سکتے ہیں لیکن اس کی گواہی نہیں کہا جاسکتا بہرحال اگر وہ ایسی حماقت کریں تو آپ ﷺ ان کی اس حماقت کو قطعاً قبول نہ کریں بلکہ اپنی صحیح بات پر جمے رہیں اس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کر کے آپ کی امت کے ہر فرد کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ تم ایسے تیر تکوں کو قبول نہ کرو اور نہ ہی ان کی بےدلیل باتوں پر کان دھرو۔ ہماری آیتوں کو جھٹلانے والوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو : 233: ” اَهْوَآءَ “ کیا ہیں ؟ وہی بےدلیل باتیں جن کے حق میں کوئی عقلی اور نقلی دلیل موجود نہ ہو ظاہر ہے کہ وہ اس کے اختیار کرنے والوں کی خواہش ہی پر مبنی ہو سکتی ہیں اور جن کی رہنما ان کی خواہش ہو ان کا انجام سب کو معلوم ہے۔ اس جگہ ان لوگوں کی تین صفات کا حوالہ دیا گیا ہے ایک یہ کہ وہ اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں دوسری یہ کہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے تیسری یہ کہ وہ اپنے رب کے ہمسرو شریک ٹھہراتے ہیں مقصود اس سارے کلام کا یہ ہے کہ جو لوگ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ اللہ ، آخرت اور آیات الٰہی میں سے کوئی چیز بھی ان کے نزدیک درخور اعتناء نہیں ایسے بےلگام لوگوں کی خواہشیں ان کو کہاں لے جائیں گی اس کا کوئی اندازہ کرسکتا ہے۔ ایسے دو ٹانگوں والے چار ٹانگے نہیں تو اور کیا ہیں ؟ کہ جدھر منہ آیا دوڑنے لگے۔ اس مضمون سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ان کی شہادت اس لئے نہیں طلب کی گئی کہ اگر وہ شہادت دے دیں تو اس کو تسلیم کرلیا جائے خواہ انہوں نے شہادت کچھ ہی دی ہو بلکہ اس شہادت کے طلب کرنے سے مقصود ہی یہ ہے کہ ان کے دانش مند اور دیانت دار طبقہ کو ان کی جاہلانہ رسموں کی بیہودگی پر آگاہ کیا جائے کیونکہ جب ان سے ان اسلام کی صداقت کے لئے شہادت طلب کی جائے گی تو شہادت دینے سے پہلے احساس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے وہ ان امور میں شاید غوروفکر کریں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر ان چیزوں کی بیہودگی آشکارا ہوجائے اور وہ ان سے خود بخود باز آجائیں لیکن اگر انہوں نے شرافت اور دیانت سے رشتہ توڑ ہی لیا ہے اور عام لوگوں کی طرح خواص بھی اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ وہ ایک غلط اور باطل چیز کی جان بوجھ کر شہادت دینے پر تل گئے ہیں اور ایسی شہادت کو وہ شہادت سمجھنے لگے ہیں جس کے لئے نہ عقل سے وہ کام لیتے ہیں اور نہ نقل سے تو پھر ان کی ایسی شہادت آپ کے لئے حجت نہیں بن سکتی ، ایسے لوگوں کو دور ہی سے سلام کردینا بلکہ سات سلام کہنا مناسب ہے۔ ان عقل و فکر سے عاری لوگوں کو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے متعلق بتائو : 234: ملت ابراہیمی اور دین اسرائیل کے دعویداروں کو بتائو کہ تمہارے رب کی عائد کردہ پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو وہ تمہارے ہی مقرر کردہ راہنمائوں اور مذہبی پیشوائوں کی خواہشات ہیں جو انہوں نے اپنے پیٹ بھرنے کے لئے ایجاد کی ہیں بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو مضبوط کرنے کے لئے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع خداوندی کا اصل الاصول رہی ہیں ان میں سے دس پابندیوں کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے اور دوسری باتوں کو ان کے ضمن میں رکھا گیا اور ان دس پابندیوں میں سے پہلی پابندی شرک سے باز رہنے کی بیان کی گئی۔
Top