Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 141
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ٘ وَ لَا تُسْرِفُوْا١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : جس نے اَنْشَاَ : پیدا کیے جَنّٰتٍ : باغات مَّعْرُوْشٰتٍ : چڑھائے ہوئے وَّ : اور غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ : نہ چڑھائے ہوئے وَّالنَّخْلَ : اور کھجور وَالزَّرْعَ : اور کھیتی مُخْتَلِفًا : مختلف اُكُلُهٗ : اس کے پھل وَالزَّيْتُوْنَ : اور زیتون وَالرُّمَّانَ : اور انار مُتَشَابِهًا : مشابہ (ملتے جلتے) وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ : اور غیر مشابہ (جدا جدا) كُلُوْا : کھاؤ مِنْ : سے ثَمَرِهٖٓ : اس کے پھل اِذَآ : جب اَثْمَرَ : وہ پھل لائے وَاٰتُوْا : اور ادا کرو حَقَّهٗ : اس کا حق يَوْمَ حَصَادِهٖ : اس کے کاٹنے کے دن وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بیجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُسْرِفِيْنَ : بیجا خرچ کرنے والے
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے باغ پیدا کیے چھپروں پر چڑھائے ہوئے اور کھجوروں کے درخت اور کھیتیاں جن کے پھل مختلف قسموں کے ہوتے ہیں نیز زیتون اور انار کے درخت شکل و صورت میں ایک دوسرے سے ملتے ہوئے اور ایک دوسرے سے الگ الگ سو ان کے پھل شوق سے کھاؤ جب وہ پھل تیار ہوجائیں اور چاہیے کہ جس دن فصل کاٹو تو اس کا حق بھی دے دیا کرو اور اسراف نہ کرو اللہ انہیں دوست نہیں رکھتا جو اسراف کرنے والا ہوں
قدرت الٰہی کے وہ نشانات جن کو ہر انسان کی آنکھ دیکھتی اور دماغ سمجھتا ہے : 216: ” اَنْشَاَ “ اس نے پیدا کیا۔ اس نے پرورش کی۔ قرآن کریم نے قدرت الٰہی کے نشانات جہاں بھی بیان کئے صرف اور صرف اس بات کی تفہیم کے لئے کئے تاکہ انسان اللہ کو پہچانے اور اس کو مالک حقیقی تصور کرتے ہوئے اس کی ملک اور اس کے ملک میں رہ کر اس کے حکم کا پابند ہو اس نے انسانوں کو ان کی اپنی پیدائش سے استدلال کر کے سمجھایا کہ تم یہ بات دیکھتے اور سمجھتے ہو کہ پہلے تم کیسے پیدا کئے گئے تھے اور پھر تمہاری پیدائش کے لئے قدرت الٰہی نے کیا ضابطہ مقرر کردیا۔ کس طرح باپ کی صلب سے وہ نطفہ منتقل ہوا جس سے تم وجود میں آئے۔ کس طرح رحم مادر میں جو قبر سے کچھ کم تاریک نہ تھا تمہیں پرورش کر کے زندہ انسان بنایا۔ کس طرح ایک ذرہ بےمقدار کو نشو ونما دے کر یہ دل و دماغ ، یہ آنکھ ، کان اور یہ ہاتھ پائوں اس میں پیدا کئے گئے اور عقل و شعور ، علم و حکمت ، صنعت وایجاد اور تدبر و تسخیر کی یہ حیرت انگیز صلاحیتیں اس کو عطا کی گئیں۔ تم کو ایک انسان کا بچہ بنا کر جب ماں کے بطن سے باہر لایا تو تمہاری غذا کے لئے دو نہریں جاری کردیں۔ تمہیں ان سے وہ غذا دی جو تمہارے جسم اور جسم کی نشو ونما کے لئے ایک وقت تک ضروری تھی۔ پھر تم نے جبھی آنکھ کھولی تو اپنے اردگرد اپنا رزق کس طرح بکھرا ہوا پایا جس طرح تمہاری پیدائش میں انسانی کوشش کا دخل اس سے زائد کچھ نہیں کہ تمہارا باپ تمہاری ماں کے رحم میں نطفہ ڈال دے اس طرح تمہارے رزق کی پیداوار میں بھی انسان کی کوشش کا دخل اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے کہ کسان کھیتی میں بیج ڈال دے۔ زمین جس میں کاشت کی جاتی ہے تمہاری بنائی ہوئی نہیں ہے اس زمین کو روئیدگی کی صلاحیت تم نے نہیں بخشی اس میں وہ مادے جن سے تمہاری غذا کا سامان بہم پہنچتا ہے تم نے فراہم نہیں کئے ہیں۔ اس کے اندر جو بیج ڈالتے ہو ان کو نشو ونما کے قابل تم نے نہیں بنایا ہے۔ ان بیجوں میں یہ صلاحیت کہ ہر بیج سے اس نوع کا درخت پھوٹے جس کا وہ بیج ہے ، تم نے پیدا نہیں کی ہے۔ اس کاشت کو لہلہاتی کھیتیوں میں تبدل کرنے کے لئے زمین کے اندر جس عمل اور زمین کے اوپر جس ہوا ، پانی ، حرارت ، برودت اور موسمی کیفیت کی ضرورت ہے ان میں سے کوئی چیز بھی تمہاری کسی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ سب کچھ اللہ ہی کی قدرت اور اس کی پروردگاری کا کرشمہ ہے اور پھر جب تم وجود میں اس کے لانے سے آئے ہو اور اس کے رزق سے چل پھر رہے ہو تو تم کو اس کے مقابلہ میں خود مختاری کا یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا حق کیسے پہنچتا ہے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کا اندازہ لگانا چاہو تو عالم نباتات ہی میں غور کرو یہ مختلف قسم کے لذیذ پھل اور اونچے اونچے کھجور کے درخت ، یہ لہلہاتے ہوئے کھیت جن کی اقسام کا شمار ممکن نہیں جو کہیں رنگ اور شکل میں دوسرے سے ملتے جلتے ہیں تو بو اور ذائقہ میں الگ الگ ہیں۔ ایک انار کو لیجئے غلاف کے اندر متعدد خانے ہیں جنہوں ابریشم سے بھی نرم پردوں سے الگ الگ کردیا گیا ہے اور پھر ہر خانہ میں عقیق سے بھی زیادہ چمکدار دانے بڑی احتیاط سے لپیٹ کر رکھ دئیے گئے ہیں۔ ہر دانہ اپنے رنگ اور ذائقہ میں ایک مکمل وحدت ہے۔ یہ سب کچھ غیر مبہم انداز میں بیان کر رہا ہے کہ ان کو رنگ وبو اور ذائقہ اور لذت عطا فرمانے والا بہت بڑا حکیم ، دانا اور قادر مطلق ہے۔ دیکھو یہ کیسے کیسے باغات ہیں کچھ چھپروں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور کے باغات اور کچھ بغیر چھپروں کے چڑھائے ہوئے زمین پر بچھائے ہوئے جیسے خربوزہ اور تربوز سبز فرشوں کی طرح اور یہ آسمان بوس کھجوروں کے درخت۔ یہ آم ، جامن اور چلغوزوں کے پیڑ۔ یہ مالٹے ، سنگترے اور کینو کے پھل دار پودے۔ یہ ناشپاتیوں اور سیبوں کے پودے ، یہ انار ، خوبانی اور زیتون کے پھل دار بوٹے۔ ان کے ان پھلوں کی طرف دیکھو جب یہ ان درختوں کے ساتھ لٹکتے نظر آتے ہیں اور پھر اس وقت کی حالت پر غور کرو جب یہ پک کر تیار ہوتے ہیں اور ان کے مختلف مزوں پر غور کرو کہ ایک ہی طرح کے پھلوں کے اندر کیسے مختلف مزے ڈال دئیے گئے ہیں جو ان کی اچھی اور بری یا نہ اچھی اور نہ بری صنف کی طرف تمہاری راہنمائی کر رہے ہیں یہ سب کچھ کیا ہے ؟ یہ اللہ کی وحدانیت کے نشانات ہی تو ہیں بشرطیکہ کوئی تم میں غوروفکر کرنے والا بھی ہو۔ چاہئے کہ ان فصلوں کو کاٹتے وقت یا کاٹنے کے بعد ان کا حق بھی ادا کردو : 217: ان تمام درختوں ، سبزیوں ، ترکاریوں ، بیجوں اور پھلوں کا ذکر کر کے انسان کو دو حکم دئیے ایک وہ حکم جو خود انسان کی خواہش اور نفس کے تقاضے کو پورا کرنے والا ہے یعنی ان درختوں اور کھیتوں کے پھلوں کو کھائو جب وہ پھل دار ہوجائیں اور ان کے پھل پک کر کھانے کے لئے تیار ہوجائیں جس میں یہ تفہیم کرا دی کہ ان تمام انواع و اقسام کے درختوں کو پیدا کرنے سے پیدا کرنے والے مالک کو اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا نہیں بلکہ تمہارے ہی فائدے کے لئے پیدا کیا ہے سو تمہیں اختیار ہے کہ ان کو کھائو اور فائدہ اٹھائو اور دوسرا حکم اس میں یہ دیا گیا کہ جب کھیتی پک کر تیار ہوجائے اور تم اس کو کاٹو یا باغات کے پھلوں کو توڑو تاکہ تم خود کھائو اور اپنی ملکیت کے پھلوں کو بیچو اور فروخت کرو تو اس کو اپنے مصرف میں لانے سے پہلے اس کا حق بھی ادا کردیا کرو۔ حق سے مراد کیا ہے ؟ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد عشر ہے یعنی جو کھیتی وباغ وبارش کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں ان میں سے دسواں حصہ اور جن کو نہر یا کنوئیں سے سیراب کیا جاتا ہے ان کا بیسواں حصہ اور بعض نے اس سے نفلی صدقہ مراد لیا ہے یعنی کٹائی کے وقت اگر کوئی غریب ومسکین آجائے تو اس کو بھی اس میں سے کچھ دے دو اور یہ اللہ کا حکم سمجھ کر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دو جس کو دیا گیا ہے اس پر احسان کرتے ہوئے مت دو یا اس کو کچھ دے کر احسان مت جتائو اس لئے کہ احسان جتانے سے اس کا اجر ضائع ہوجاتا ہے اور رضائے الٰہی مطلوب نہیں رہتی اور اس سے عشر وزکوٰۃ مراد لیا جائے تو بھی صحیح اور درست ہے کیونکہ اس پر یہ اعتراض کہ یہ سورت مکی ہے اور زکوٰۃ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا ہے یہ بات محقق نہیں بلکہ محقق یہ ہے کہ زکوٰۃ کا حکم تو مکہ ہی میں ہوچکا تھا لیکن زکوٰۃ باقاعدہ وصول کرنے کا انتظام مدینہ طیبہ میں ہوا اس لئے کہ اس کے سوا بھی مکی سورتوں میں زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے اور اگر اس کا تصور مکہ میں نہ ہوتا تو یہ تصور کیسے پیدا ہو سکتا تھا۔ اس لئے کہ سورة المزمل بالاتفاق مکی ہے اور اس میں بھی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے۔ ” لَا تُسْرِفُوْا 1ؕ“ اسراف اور فضول خرچی سے بچو کیونکہ اسراف اور فضول خرچی ہر طرح کی ممنوع ہے چناچہ فقراء اور مساکین کو دیتے وقت بھی میانہ روی ہی سے دینا مناسب ہے اور کسی حال میں بھی میانہ روی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے اور ایسا نہ کرے کہ ہرچیز اٹھا کر خود دوسروں کا دست نگر ہوجائے اس لئے یہ بھی اسراف میں داخل ہے اور جب اسلام نے کار خیر میں فضول خرچی سے منع کیا ہے تو دوسرے کاموں میں فضول خرچی کو کب برداشت کیا جاسکتا ہے۔ ہاں ! حالات کی نزاکت کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں اگر جہاد جیسے فریضہ میں جان کو بھی اسلام کی خاطر قربان کرنا فرض قرار دیا ہے تو اس کا مقام اپنا ہے اس طرح جب جہاد کے لئے جانوروں اور مال و دولت کی ضرورت ہو تو اس میں سب کچھ خرچ کردینا بھی ضروری ہے اس لئے کہ یہ موقعہ کی نزاکت کے پیش نظر ہے اگر کفار کا دفاع نہ کیا جائے تو پھر تمہارا سب کچھ ان کا ہوجائے گا اور ایسے وقت میں ان چیزوں کی قیمت کیا رہی۔
Top