Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
اور تمہارا پروردگار بےنیاز اور رحمت والا ہے اگر وہ چاہے تو تمہیں ہٹا دے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا جانشین بنا دے جس طرح ایک دوسرے گروہ کی نسل سے تمہیں اٹھا کھڑا کیا ہے
اللہ کے قانون کا بیان جس کے تحت وہ ایک کو دوسرے کا جانشین بنا دیتا ہے : 207: رب کریم نے اپنی صفت ” غنی “ غنا لا کر یہ بات یاد دلادی کہ وہ جو بار بار رسولوں کو بھیجتا رہا ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ بندوں کی عبادت کا محتاج اور متمنی ہے کہ لوگ اس کی عبادت کریں اور اس کی پوجا پاٹ ادا کریں تب وہ خدا رہے گا ورنہ اس کی خدائی کوئی اور لے جائے گا۔ اللہ ہر طرح کی احتیاج سے پاک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کا بار بار پیغمبروں کو بھیجنا تو رحمت کے تقاضا سے تھا تاکہ بندے مرضیات الٰہی سے آگاہ وباخبر ہو کر دنیا میں نفع زیادہ سے زیادہ حاصل کرتے رہیں اور لوگوں میں جو صلاحیتیں ہیں ان کی نشو ونما کے لئے ایسی شریعت عطا کی جائے جس پر عمل پیرا ہونے سے انسان اپنا اصلی مقام پہچان سکے۔ ” وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ 1ؕ “ کی ترکیب حصر کے معنی پیدا کر رہی ہے مراد یہ ہے کہ غنی بھی اس کے سوا نہیں اور صاحب رحمت بھی اس کے سوا کوئی نہیں یعنی اس جیسا نہ کوئی غنی ہے اور نہ ہی کوئی صاحب رحمت (کبیر) اور یہ بھی کہ وہ بیک وقت غنی بھی ہے اور صاحب رحمت بھی۔ اس کو اپنی صفت غنا کی وجہ سے کسی کی کوئی پرواہ نہیں وہ بےنیاز ، مستغنی اور سب سے بےپرواہے۔ سب اس کا انکار کردیں تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا اور سب کے سب اس کی حمد کے ترانے گانے لگیں تو اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کا قانون یہ ہے کہ وہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کئے بغیر ان کو نہیں پکڑتا اس لئے ان پر حجت قائم کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرتا ہے اور اس وقت تک وہ لوگوں کو مہلت دیتا رہتا ہے جب تک ان کا اپنا پیمانہ لبریز نہیں ہوجاتا۔ مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی تمام سرکشیوں کے باوجود ان کی پکڑ نہیں ہو رہی ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو پکڑ نہیں سکتا یا لوگوں کے فنا ہوجانے سے اس کی دنیا اجڑ جائے گی اور پھر اس کے آباد کرنے والے نہیں ملیں گے بلکہ اس کا واحد سبب اس کی رحمت ہے اگر وہ لوگوں کو فنا کرنا چاہئے تو آخر اس کو کتنی دیر لگے گی ؟ یہ بات تم میں سے کسی کے قیاس سے بھی بالاتر نہیں ہے آخر تم جو اس وقت زمین کے حکمران بنے بیٹھے ہو کیا تم یہاں روز اول سے ہو ؟ نہیں اور یقیناً نہیں تم سے پہلے کتنے لوگ اس زمین کے وارث رہ چکے جن کے نام تم نے اور تمہارے باپوں نے خوب سنے ہیں پھر جس طرح ان کو مٹا کر وہ تم کو لے آیا بالکل اسی طرح تم کو مٹا کر کوئی اور لے آئے گا۔ کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے۔ یہ تمہاری ہی تاریخ ہے جسے ہم نے تم کو پڑھ کر سنا دیا ہے تاکہ تم پر حجت قائم ہوجائے اور تم بھولے ہی نہ رہو کہ اسے نہ لے جاتے دیر لگتی ہے اور نہ ہی ان جانے والوں کی جگہ دوسروں کو لانے میں کوئی زیادہ وقت خرچ ہوتا ہے۔ اس کے لے جانے اور لانے کا قانون بڑا عجیب ہے اگر تم اپنے گھر اور اپنے اردگرد کے لوگوں پر نظر کرو گے تو بات تم پر واضح ہوجائے گی کہ کتنے چہرے ہیں جو تم نے اچھی طرح دیکھے تھے اور آج تم کو نظر نہیں آتے لیکن کیا کوئی اس دنیا کی گہما گہمی میں کمی ہوئی یا اس کی رونق پہلے سے بھی دوبالا ہوگئی ؟ آج وہ کہاں ہیں جن کے تم جانشین ہو ؟ اور یاد رکھو کہ بالکل اسی طرح تم وہاں پہنچ جائو گے جہاں وہ پہنچ گئے لیکن خلافت ارضی اسی طرح جاری وساری رہے گی اور جب تک اس نظام کو باقی رکھنا رب کریم کو منظور ہے یہ خلافت اسی طرح جاری وساری رہے گی۔
Top