Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 131
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ اَنْ : اس لیے کہ لَّمْ يَكُنْ : نہیں ہے رَّبُّكَ : تیرا رب مُهْلِكَ : ہلاک کر ڈالنے والا الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے (ظلم کی سزا میں) وَّاَهْلُهَا : جبکہ ان کے لوگ غٰفِلُوْنَ : بیخبر ہوں
یہ اس لیے ہوا کہ تمہارے پروردگار کا یہ ڈھنگ نہیں کہ وہ ناانصافی سے بستیوں کو ہلاک کر دے اور وہاں کے رہنے والے بیخبر ہوں
قانون الٰہی کا اعلان کہ جب تک لوگوں تک حق نہ پہنچایا جائے گرفت نہیں ہوتی : 205: انسان کسی مزاج اور کسی طبع ہی کا کیوں نہ ہو جب تک اس کے علم میں حق اور ناحق آنہ جائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر گرفت نہیں آتی یہ قانون الٰہی ہے اور اللہ اپنے قانون کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کو کرنے دے گا کیونکہ وہ سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور اور سب زور آوروں سے زیادہ زور آور ہے۔ کون ہے جو اس کے سامنے ناحق زبان کھولے۔ اس لئے ضروری تھا کہ انسانوں کی جنس ہی سے رسولوں کو مبعوث کیا جائے اور یہی کچھ ہوا۔ انسانی طبائع کا کتنا ہی واضح فرق کیوں نہ ہو لیکن ان کی ضروریات اور حوائج مختلف نہیں ہو سکتیں اور اسی طرح حق و باطل کی پہچان بھی زیادہ مختلف نہیں ہو سکتی۔ انسان کتنا ہی جھوٹا اور کاذب کیوں نہ ہو ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ جھوٹ کو جائز اور کاذب کو ثواب کا مستحق سمجھے۔ چور چوری تسلیم نہ کرے یہ دوسری بات ہے لیکن کوئی چور چوری کو اچھا فعل قرار نہیں دے سکتا۔ اس لئے ضروری ہوا کہ وہ کسی کو سزا اس وقت تک نہ دے جب تک سزا دئیے جانے کی غرض واضح نہ کرے۔ وہ پہلے آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ توبہ واصلاح کرنا چاہیں تو کرلیں اور اگر نہ کرنا چاہیں تو اپنی ذمہ داری پر اس کے نتائج بھگتیں۔ بلاشبہ فطرت بھی حق اور ناحق کو پہچانتی ہے لیکن اس مالک الملک نے صرف فطرت پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ ایسا قانون بنایا کہ ان کے کانوں کی کھڑکیاں کھولنے کے لئے ان کی اپنی جنس ہی کے لوگ ان کو نیک وبد سمجھانے کے لئے مقرر کر دئیے اور جب نبوت و رسالت کا عہدہ ختم کیا تو علمائے حق کو انبیائے کرام (علیہ السلام) کا وارث بنا دیا تاکہ حق وناحق کی تمیز وہ کراتے رہیں اور اگر وہ خود نااہل بھی ہوں گے تو اپنے جیسے انسانوں کو دیکھ کر اہلیت پیدا کرلیں گے۔ گویا اس آیت میں سنت اللہ کا بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی بستی گمراہ ہوجاتی ہے اور فسق وفجور میں منہمک ہوجاتی ہے تو اچانک اس پر عذاب نازل نہیں کیا جاتا بلکہ سنت الٰہی یہ ہے کہ پہلے ان کی طرف اللہ کا پیغام سنانے والے بھیجے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے تکوینی قانون کے مطابق ہوتا ہے جو ان کو سمجھاتے ہیں اور ان گمراہیوں اور بدکاریوں سے باز آجانے کی نصیحت کرتے ہیں اگر پھر بھی وہ گمراہی اور کج روی پر بضد رہیں تو عذاب نازل ہوتا ہے جو ان کو نیست ونابود کردیتا ہے اور اس کی مختلف صورتیں واقع ہوتی ہیں۔
Top