Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
پھر کیا وہ آدمی کہ مردہ تھا اور ہم نے اسے زندہ کردیا اور اس کے لیے ایک نور ٹھہرا دیا کہ وہ اس کے اجالے میں لوگوں کے درمیان چلے پھرے کیا وہ اس آدمی جیسا ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہے اور ان سے باہر نکلنے والا نہیں ؟ اس طرح کافروں کی نظروں میں وہی باتیں خوشنما دکھائی دیتی ہیں جو وہ کرتے رہتے ہیں
شیطان کا کام ہی کیا ہے ؟ وسوسے ڈالنا۔ اللہ کا حکم مانو اور ان وساوس سے بچو : 186: وساوس شیطانی کو ” وحی “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ وساوس کا اثر بھی براہ راست دل پر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کو کہیں ” شیطانی وحی “ سے تعبیر کیا ہے اور کہیں ” وسولس الخناس “ سے۔ وسواس کے معنی ہیں یا بار بار وسوسہ ڈالنے والا اور وسوسہ کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی اور وسوسہ کے یہ ؟ ؟ ؟ محسوس نہ ہو سکے کہ وسوسہ اندوز اس کے دل میں کوئی بری بات ڈال رہا ہے۔ وسوسے کے لفظ میں خود تکرار کا مفہوم شا مل ہے جیسے زلزلہ میں حرکت کی تکرار کا مفہوم شامل ہے چونکہ اکثر اوقات انسان صرف ایک ہی دفعہ کے بہکانے سے نہیں بہکتا بلکہ اسے بہکانے کی پے درپے کوشش کرنی ہوتی ہے اس لئے ایسی کوشش کو وسوسہ اور کوشش کرنے والے کو وساوس کہا جاتا ہے۔ شیطانی وسواس کا جال بھی بڑاوسیع ہے۔ باپ دادا کے دین کے متعلق دل میں یہ القا کہ آج تک ہمارے باپ دادایہ بات یہ کام جو کرتے آئے کیا وہ سارے غلط تھے وسوسہ شیطانی ہے۔ جب کہ اس پر قائم رہنے کی کوئی اور دلیل موجود نہ ہو۔ ہمارے پیرو مرشد یہ کام کیا کرتے تھے اور اس کام کے کرنے کی کوئی اور دلیل موجود نہ ہو وسوسہ شیطانی ہے۔ کوئی مرض لاحق ہوجائے اور اس مرض کو مرض نہیں بلکہ جادو ، کالا علم ، کلام برحق ہے کہ الفاظ دل میں ڈال کر جادو کے توڑ ، کالے علم کے اثر کو زائل کرانے اور اس طرح کے دوسرے کاموں کے پیچھے لگنا وساوس ہیں۔ اگر آج ہم نے فلاں کام کیا تو اس کا نتیجہ صحیح نکلے گا دل میں وسوسہ پیدا ہونا اگر فلاں بزرگ کی خانقاہ پر نہ گئے یا فلاں منت وہاں نہ مانی تو ایسا ہوجائے گا اس طرح کے سارے وساوس شیطانی ہیں۔ غور کرو کہ کسی جانور کے ذبح کرتے وقت جو فی نفسہ حلال تھا اس پر اللہ کا نام لینا کیوں ضروری قرار دیا گیا ؟ اس لئے کہ جو کام بھی اللہ کے نام کے سوا کیا وہ برکت سے خالی ہوگا ، کیوں ؟ اس لئے کہ اس پوری کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے۔ پھر اس کی کائنات میں سے جس چیز سے بھی استفادہ کیا جائے گا اس کا تقاضا ہے کہ اس پیدا کرنے والے کا نام لیا جائے اور یہ نام لینا اس کا شکر ادا کرنے میں آئے گا اس اعتراف واقرار کے بغیر کوئی شخص کسی چیز پر تصرف کرتا ہے تو اس کا یہ تصرف غاصبانہ ہوگا اور غصب سے کوئی حق ثابت نہیں بلکہ یہ جسارت اور ڈھٹائی ہے جو اللہ کے ہاں مستوجب سزا ہے۔ پھر احترام جان کا یہ تقاضا ہے کہ کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ جان کسی کی بھی ہو ایک محترم شے ہے اگر اللہ نے ہم کو اجازت نہ دی ہوتی تو ہمارے لئے کسی جانور کی بھی جان لینا جائز نہ ہوتا۔ یہ حق ہم کو صرف اللہ کے اذن سے حاصل ہوا اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ ان میں سے جس وقت ہم کسی جان سے وہ استفادہ حاصل کریں جو استفادہ حاصل کرنے کا حق ہم کو دیا گیا ہے تو اس پر اللہ کا نام لیں۔ اگر اس وقت اللہ کا نام نہ لیں یا اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لے لیں یا کسی غیر اللہ کے نام پر ان کو ذبح کریں تو یہ ان کی جان کی بھی بےحرمتی ہوئی اور ساتھ ہی اس جان ڈالنے والے رب کریم کی بھی۔ تاریخ عالم پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی ، ان کی نذر اور انکے چڑھاوے کو ابتدائے تاریخ سے عبادات میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس اہمیت کے باعث مشرکانہ مذہب میں اس کو بڑا فروغ حاصل ہوا جو قوم بھی کسی غیر اللہ کی عقیدت ونیاز مندی میں مبتلا ہوئی اس نے مختلف اشکال سے غیر اللہ کو راضی کرنے کے لئے جانوروں کی بھینٹ چڑھائی۔ اسلام نے ان کے سارے دروازوں کو بند کرنے کے لئے جو مشرک قوموں نے کھولے تھے ایک ایسا قفل تیار کردیا کہ دروازہ بند کرتے ہی اگر اس قفل کو لگادیا جائے تو اس راہ سے شرک داخل نہیں ہو سکتا اور وہ قفل یہ ہے کہ ایسا جانور حرام قرار دے دیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت نے اس چیز کو جس کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا تھا نجات کا ذریعہ اور عین برکت حاصل کرنے کا نشان بنا دیا اور وہی کچھ کیا پچھلی قومیں کرتی آرہی تھیں کہ رند کے رند بھی رہے اور اسلام بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ یہ تو مسلمانوں کی حالت ہے لیکن زیر نظر آیت کا فیصلہ یہی ہے اور یہی رہے گا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتا ہے وہ مشرک ہوجاتا ہے (قرطبی) اور دین الٰہی میں حکم خداوندی کو چھوڑنا اور دوسروں کے حکم کو ماننا اور اللہ کے سوا یعنی اللہ کے خلاف دوسرے کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔ ایک ایسا مردہ جو کفر کی موت مر چکا ہو اور اللہ اس کو زندہ کردے اس پر اللہ کا کتنا بڑا فضل ہوا : 187: اس آیت میں ” موت “ سے مراد ” کفر “ وجہالت اور ” زندگی “ سے مراد ” ہدایت “ اور ” علم “ ہے اور ” نور “ ‘ سے مراد ” قرآن کریم “ ہے۔ فرمایا وہ انسان جو پہلے کفر وجہالت کی موت مر چکا ہو اسے اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے ہدایت اور علم کی زندگی مرحمت فرمائے اور دنیا کے اس ظلمت کدہ میں اسکے پاس قرآن کریم کی روشن شمع ہو جس کی روشنی میں وہ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا چلا جا رہا ہو کیا اس خوش نصیب کے ساتھ وہ بدنصب برابری کا دعویٰ کرسکتا ہے جو گمراہی کی تہ درتہ ظلمتوں میں حیران و سرگرداں ہو اور ان سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ اسے نہ مل رہا ہو۔ یہ آیت قرآن کریم کی ان آیات میں سے ہے جن میں موت ” میتا “ زندگی ” احییناہ “ اور قرآن کریم کو ” نور “ سے تعبیر کیا ہے اور سارے مفسرین نے خواہ وہ نئے ہوں یا پرانے اس کو تسلیم کیا ہے اسکو بنیاد بنا کر قرآن کریم نے جہاں جہاں یہ لفظ موت ، زندگی اور نور کے لفظ استعمال کئے ہیں ان کو جمع کرلیا جائے اور اس بات کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ جس موت سے نکالنے کے لئے اور جو زندگی عطا کرنے کے لئے انبیاء کرام کو اللہ نے مبعوث فرمایا تھا یہی کفر کی موت ، اسلام کی زندگی اور قرآن کریم کی روشنی ہے یا وہ طبعی موت ، طبعی زندگی اور آگ کی سی روشنی ہے تو یہ سوچ خواہ ملائیت کے خلاف پڑتی۔ لیکن قوم مسلم کے لئے بہت مفید ہوتی اور یقیناً قوم شرک کے اتھاہ اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھتی جو اس کو دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر کامیاب و کامران بنا دیتی۔ مختصر یہ کہ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان لانے والوں اور کفر و انکار کرنے والوں کے کچھ حالات و خیالات اور دونوں کے نیک و بد انجام کا بیان اور مؤمن و کافر اور ایمان وکفر کی حقیقت کی مثالوں میں سمجھایا گیا ہے۔ مؤمن اور کافر کی مثال زندہ اور مردہ سے اور ایمان وکفر کی مثال روشنی اور اندھیرے سے دی گئی ہے۔ یہ قرآن کریم تمثیلات ہیں جن میں کوئی شاعری نہیں بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ “ مؤمن زندہ ہے اور کافر مردہ ہے “ اس تمثیل میں مؤمن کو زندہ اور کافر کو مردہ بتلایا گیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ انسانوں ، حیوانوں اور نباتات وغیرہ میں اگرچہ حیات اور زندگی کی قسمیں اور شکلیں مختلف ہیں لیکن اتنی بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے ہر ایک کی زندگی کسی خاص مقصد کے لئے ہے اور قدرت نے اس میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھی ہے۔ ارشاد قرآنی میں اکثر جگہ اس کو بیان کیا گیا ہے جیسے ” اعظی کل شئی خلقہ ثم ھدنی “ (طہ 20 : 50) میں اس کو بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہرچیز کو پیدا کیا اور اس کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا اس تک پہنچنے کی اس کو پوری ہدایات دے دیں جن کے ماتحت ہر مخلوق اپنے اپنے وظہفو زندگی اور اپنی اپنی ڈیوٹی کا حق ادا کررہی ہے اس عالم میں زمین ، پانی ، ہوا اور آگ اسی طرح سورج ، ستارے ، سیارے اپنی اپنی ڈیوٹی پوری طرح پہچان کر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں اور یہی ادائے فرض ان میں سے ہرچیز کی زندگی کا ثبوت ہے اور جس وقت جس حال میں ان میں سے کوئی چیز اپنی ڈیوٹی ادا کرنا چھوڑدے تو وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے مثلاً درخت اور گھاس اگنا اور بڑھنا اور پھل پھول لانا چھوڑ دے تو وہ زندہ نہ رہا بلکہ مر گیا۔ اسی طرح تمام کائنات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ایک انسان جس میں کچھ بھی عقل و شعور ہوا س بات پر غور کرنے کے لئے مجبور ہوگا کہ آخر انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ اور یہ کہ اگر وہ اس مقصد زندگی کو پورا کر رہا ہے تو وہ زندہ کہلانے کا مستحق ہے اور اگر اس کو پورا نہیں کرتا تو وہ ایک مردہ لاش سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اب غور طلب بات کیا ہوئی یہی کہ انسان کا مقصد حیات کیا ہے ؟ سونا ، جاگنا ، کھانا اور نسل کا چھوڑ مرنا اگر اس کا یہی مقصد ہے تو یہ تو بہت سے اور حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے پھر صرف حضرت انسان اشرف المخلوقات کیوں ؟ اور ایک انسان اور گدھے میں فرق کیا ؟ معلوم ہوا کہ اس کا مقصد حیات یہ نہیں بلکہ اس سے کہیں بلند ہے اور وہ یہ کہ انسان اس بات پر غور کرے کہ اس دنیا کی زندگی میں پہلے کیا تھا اور بعد میں کیا ہوگیا اس میدان میں دنیا کی ساری مخلوق انسان سے بہت پیچھے ہے اور کسی مخلوق کی عقل و فکر بھی کام نہیں دیتی اور نہ ہی اس کو اس کے سوچنے کی ضرورت ہے کیوں ؟ اس لئے کہ پوری کا ئنات میں سے ایک مخلوق کو بھی ترقی میں جدوجہد اور نت نئی ایجادات کی فکر عطا نہیں کی گئی اس لئے یہی ایک وہ امتیازی خط ہے جو دنیا کی ساری مخلوقات سے حضرت انسان کو بالکل الگ تھلگ مخلوق بنا دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان کا مقصد حیات پورے عالم کی ابتداء و انتہاء کو سامنے رکھ کر سب کے نتائج اور عواقب پر نظر ڈالنا اور یہ متعین کرنا کہ مجموعی اعتبار سے کیا چیز نافع اور مفید ہے اور کونسی چیز مضر اور تکلییف دہ ہے۔ پھر اس بصیرت کے ساتھ خودد اپنے لئے بھی مفید چیزوں کو حاصل کرنا اور مضر چیزوں سے بچنا اور دوسروں کو بھی ان مفید چیزوں کی طرف دعوت دینا اور مضر چیزوں سے بچانے کا اہتمام کرنا ہے تاکہ دائمی راحت و سکون اور اطمینان کی زندگی حاصل ہو سکے اگر یہ بات صحیح ہے تو اب قرآن کریم کی یہ تمثیل حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے کہ زندہ صرف وہ شخص ہے جو اس دنیا کی فانی زندگی کے سوا کسی ایسی زندگی کا قائل ہو جس کے بعد موت نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جب اس زندگی ہی کو کل فنا ہے تو وہ دائمی راحت و سکون بھی یقیناً کل فنا ہے۔ اب اس سے آگے وفقط انسانی عقل سے کام لے گا تو وہ یقیناً اس کو جواب دے دے گی اس لئے کہ ایک مادراء العقل چیز کا جواب عقل سے کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا نری عقل سے انسان نے نہ کبھی اس میدان کو سر کیا نہ کرسکتا ہے بڑے بڑے عقاماء وحکما اور نلسفیان عالم کے قدم یہاں آکر رک گئے اور جس نے وحی الٰہی کا سہارا تھام کر آگے بڑھنے کی کوشش کی اس میں یقیناً زندگی موجود رہے گی اور دوسرا اس کے مقابلہ میں یقیناً مردہ کہلائے گا۔ اس پر ایمان کے نور اور کفر کی ظلمت کو منطبق کر کے دیکھ لو کہ جہاں قدم رک گئے تھے وہاں سے آگے بڑھانے والی چیز کا نام ایمان اور روشنی ہے اور اس جگہ سے آگے نہ بڑھ سکنا اور کفر اور ظلمت ہے لیکن افسوس کہ جس قوم کو زندگی اور موت ، ایمان اور کفر ، روشنی اور اندھیرے کا یہ تصور دیا گیا تھا وہ سب کے سب الاماشاء اللہ عقل کو چھو کر دیکھنا بھی کفر سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی دنیا بھی برباد ہے دین دین کا اور اسلام اسلام اور آخرت آخرت کا شور مچانے کے باوجود آخرت بھی یقیناً برباد ہے۔ جذبات میں نہ آؤ جس چیز کو ماوراء العقل تک پہنچنے کے بعد استعمال کرنا تھا اس کو عقل تک پہنچنے سے پہلے ختم کردیا گیا تو نتیجہ خسر الدنیا والاخرہ کیوں نہ نکلتا۔ کافروں کی نظروں میں وہی کچھ اچھا ہے جو وہ خود کر رہے ہیں : 188: کافر کیوں ہے ؟ اس لئے کہ اس کی نظر انتہا فقط یہ دنیا ہے وہ جو کچھ کرے گا فقط اس دنیا کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کے لئے کرے گا اور آخرت کا اس کو کوئی تصور نہیں ہے اور اسلام نے اس کو مردہ کہا ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ وہ انسان تھا لیکن اس نے مقصد حیات یعنی اس دنیا کی زندگی کا مقصد نہیں سمجھا اگر وہ انسان نہ ہوتا تو قطعاً اس کو مردہ نہ کہا جاتا چونکہ وہ انسان تھا اور انسان ہونے کے باوجود اس نے دائمی راحت و سکون کا راستہ اختیار نہ کیا بلکہ فقط دنیا کا ہو کر رہ گیا حالانکہ انسان ہی وہ مخلوق تھی جس کا مقصد حیات فقط یہ دنیا نہ تھی اور انسان کے سوا ساری دنیا کی مخلوق کا مقصد حیات فقط یہ دنیا ہے اس کو معلوم ہو یا نہ وہ اس دنیا کے لئے کوئی جدوجہد کرے یا نہ کرے وہ اپنے آپ کو سنوارے یا نہ سنوارے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی یعنی کافر کی یہ دنیا تو کم ازکم درست ہوگئی کہ اس نے باقی ساری مخلوق سے بڑھ کر اس دنیا کو سنوارنے کی کوشش کرلی اور وہ باقی ساری مخلوق سے ممتاز ہو کر رہا لیکن ایک سچے مؤمن کے مقابلہ میں اندھا ہی رہا کیونکہ اس کی ساری جدوجہد اس فانی کی خاطر تھی۔ آیت کے اس حصہ میں یہ بتایا کہ اے پیغمبر اسلام ! جو لوگ اس تاریکی میں پڑے رہنے پر بضد ہیں اور تمہاری دکھائی ہوئی راہ جو ابدی راحت و سکون کی راہ ہے اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی روشنی سے وہشت زدہ ہیں تو اس سے آپ ﷺ دلبرداشتہ نہ ہوں قانون قدرت یہی ہے کہ جو لوگ جس چیز کو پسند کرتے ہیں ان پر وہی چیز مسلط کردی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے صرف دنیا پسند کی وہ اسلام کی زبان میں اگرچہ اندھے ٹھہرے لیکن ان کو دنیا بہر حال ملی اور مل رہی ہے اور جن لوگوں کے پاس نہ دنیا ہے اور نہ آخرت ان کا نام خود تجویز کرلیں گے اس لئے کہ اسلام کی زبان میں اسی طرح کہلانے کے حقدار تو یقیناً نہیں کیونکہ اسلام نے جو طلب مؤمنوں کو سکھائی وہ تو آج بھی قرآن کریم میں اسی طرح موجود ہے کہ ” “ (البقرہ 2 : 201) ” “
Top