Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 116
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تُطِعْ : تو کہا مانے اَكْثَرَ : اکثر مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يُضِلُّوْكَ : وہ تجھے بھٹکا دیں گے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اِنْ : نہیں يَّتَّبِعُوْنَ : بیروی کرتے اِلَّا : مگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَخْرُصُوْنَ : اٹکل دوڑاتے ہیں
اور اگر تم ان لوگوں کا کہا مانو جو رُوئے زمین میں سب سے زیادہ ہیں تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں ، وہ پیروی نہیں کرتے مگر محض گمان کی وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ محض شک اور گمان میں قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں
روئے زمین پر بسنے والوں کی اکثریت کا کہا مانو گے تو بھٹک جاؤ گے : 176: زیر نظر قرآن کریم کے ان نازک مقامات سے ہے جن کی نزاکت کو سمجھنے کی بہت کوشش کی گئی اور صدر اول یعنی خلافت راشدہ کے معاً بعد سے آج تک ان کو ان کا اصل مقام نہ دیا گیا۔ اس آیت کے پہلے حصہ کا ترجمہ کر کے چھوڑ دیا گیا اور کسی نے کچھ کہا تو وہ اتنا مختصر کہ اصل حقیقت پر مزید پردہ ڈال دیا اور مطلب پہلے سے بھی زیادہ مستور ہوگیا۔ اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وان نطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ کا ترجمہ نقل کردیا جائے اور بعد ازیں اس کا مختصر مفہوم : ” اور اس زمین والوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ اگر تم نے انکی بات مانی تو وہ تمہیں خدا کے راستے سے گمراہ کر کے چھوڑیں گے۔ “ (تدبر القرآن) ” اور اے محمد ! اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔ “ (تفہیم القرآن ) ” اور (اے سننے والے) اگر تو اطاعت کرے اکثر لوگوں کی جو زمین میں ہیں تو وہ تجھے بہکا دیں گے اللہ کی راہ سے۔ “ (ضیاء القرآن) ” اور اگر آپ اکثر اہل زمین کی پیروی کریں گے تو وہ آپ ﷺ کو اللہ کے راستہ بھٹکا دیں گے۔ “ (مظہری اردو) ” اور اگر تو کہنا مانے گا اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکادیں گے اللہ کی راہ سے۔ “ (عثمانی) اور اگر تو کہنا مانے گا اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکادیں اللہ کی راہ سے۔ “ (جواہرالقرآن ) ” اور (اے پیغمبر ! ) اگر تم ان لوگوں کا کہا مانو جو آج روئے زمین میں سب سے زیادہ ہیں تو وہ تمہیں خدا کی راہ سے بھٹکا دیں۔ “ (ترجمان القرآن) ” اور اگر تو تابعداری کرے اکثروں کی جو زمین (یعنی دنیا) میں ہیں تو تجھ کو بھٹکا دیں گے اللہ کی راہ سے۔ “ (تفسیر القرآن سرسید احمد خاں) ” اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کردیں۔ “ (ابن کثیر اردو) ” اور اگر تو کہنا مانے گا اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکا دیں گے اللہ کی راہ سے۔ “ (معارف القرآن) ” اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کردیں۔ “ (بیان القرآن) ” اور اگر تم اکثر لوگوں کا جو دنیا میں ہیں کہنا مان لیا کرو تو وہ تم کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں۔ “ (فیوض القرآن) ” اور اے سننے والے ! زمین میں اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کئے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دیں۔ “ (احمد رضا خاں) ” اور اگر تو اکثر ان لوگوں کی بات مانتا چلا جائے جو زمین میں ہیں تو وہ تجھے اللہ کی راہ سے گمراہ کردیں۔ (بیان القرآن لاہوری) ” اور جو (لوگ) زمین پر (آباد) ہیں ان میں سے اکثر کا کہنا اگر آپ ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بھٹکا کر رہیں گے۔ “ (ماجدی) ” اور اگر کہا مانے گا تو اکثر لوگوں کا کہ بیچ زمین کے ہیں گمراہ کردیں گے تجھ کو راہ خدا کی سے۔ “ (شاہ رفیع الدین ؓ ” اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کردیں “ (شاہ عبد القادر ؓ یہ تراجم جو اوپر درج کئے گئے ہیں یہ کسی گروپ بندی کے تحت نہیں درج کئے گئے جو تراجم میرے پاس موجود ہیں وہ جس ترتیب سے یکے بعد دیگرے میرے ہاتھ آتے گئے درج ہوتے گئے۔ بعض بزرگوں نے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا اور بعض نے حاشیہ میں تفسیری نوٹ بھی لکھے۔ آیت کے اس حصہ کے متعلق جو لکھا گیا اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں پھر آگے چلیں گے۔ بتوفیقہ عزوجل ” مطلب یہ ہے کہ اس وقت جو غوغائے عام دعوت توحید کے مخالف اور مشرکانہ بدعات کی حمایت میں برپا ہے۔ اس کی مطلق پروانہ کرو یہ کسی دلیل وسند اور کسی علم وحجت پر مبنی نہیں ہے۔ “ (تدبر القرآن) ” کسی طالب حق کو یہ نہ دیکھنا چاہئے کہ دنیا کے بیشتر انسان کس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس راہ پر چلنا چاہئے جو اللہ نے بنائی ہے ، چاہے اس راستہ پر چلنے کے لئے وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے۔ “ (تفہیم القرآن) ” باطل نظریات کے علمبردار خود نور یقین سے محروم ہیں اگر تم ان کو بہکانے سے بہک گئے۔۔۔۔۔ تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ “ (ضیاء القرآن) ” اکثر اہل زمین سے مراد ہیں کفار کیونکہ اہل ایمان سے کافروں کی تعداد زائد ہے۔ “ (مظہری) ” مشاہدہ اور تاریخ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ فہیم ، محقق اور بااصول آدمی تھوڑے رہے ہیں اکثریت ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو محض خیالی ، بےاصول اور اٹکل چچو باتوں کی پیروی کرنے والے ہوں اگر تم اس اکثریت کا کہنا ماننے لگو اور بےاصول باتوں پر چلنا شروع کر دو تو خدا کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ سے یقیناً بہک جاوگے۔ “ (عثمانی) ” اگر آپ کفار و مشرکین کی بات مان لیں گے تو وہ آپ کے توحید کی راہ سے ہٹانے ہی کوشش کریں گے۔ “ (جواہر القرآن) ” اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ حق و باطل کے معاملے میں انسانوں کی قلت و کثرت معیار نہیں ہو سکتی بلکہ حقیقت اور سچائی کے بنیادی اصولوں پر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے بسا اوقات گمراہی و حق فراموشی کے ایسے اوقات آتے ہیں کہ نوع انسانی کی اکثریت حق و یقین کی روشنی سے محروم ہوجاتی ہے ایسا ہی دور نزول قرآن کے وقت بھی دنیا پر چھایا ہوا تھا پس فرمایا گمراہوں کی کثرت نہ دیکھو یہ دیکھو کہ کونسی راہ یقین و بصیرت کی راہ ہے اور کونسی جہل و گمان کی راہ۔ “ (ترجمان القرآن) ” فرماتا ہے کہ اکثر بنی آدم کے احوال و گمراہی سے پر ہیں جیسا کہ فرمایا پہلے کے اکثر لوگوں نے گمراہی اختیار کرلی تھی۔ “ (ابن کثیر) ” زمین پر بسنے والے بنی آدم کی اکثریت گمراہی پر ہے آپ اس سے مرعوب نہ ہوں ، ان کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ “ (معارف القرآن) یہ تفسیر نوٹ آپ کی جو راہنمائی کریں وہ ان سے حاصل کرلیں ہم تو جب بھی قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم اس آیت کے متعلق ہماری راہنمائی اس طرح کرتا ہے کہ اے مخاطب ! یہ دنیا جب سے معرض وجود میں آئی اور انسان نے اس میں قدم رکھا اور اس کی نسل کو بقیا حاصل ہوئی اس وقت سے آج تک اور آج سے رہتی دنیا تک اسلام پر قائم رہنے والوں کے مقابلہ میں کفر پر جمے رہنے والے ، اصولوں پر قائم رہنے والوں کے مقابلہ میں بےاصولے ، ایمانداروں کے مقابلہ میں بےایمان ، دیانت داروں کے مقابلہ میں بددیانت ، قابلیت رکھنے والوں کے مقابلہ میں ؟ ؟ ؟ بدکردار ، سمجھداروں کے مقابلہ میں ناسمجھ ، عالموں کے مقابلہ میں جاہل اور عقل و فکر والوں کے مقابلہ میں بےعقل و نادان ہمیشہ زیادہ رہے ہیں اور زیادہ رہیں گے تمہیں کبھی اکثریت کے پیچھے محض اس لئے نہیں جانا چاہئے کہ وہ تعداد میں ، وسائل میں ، مال و دولت میں ، اقتدار میں اور دھونس و دھاندلی میں زیادہ ہیں اگر تم نے ایسا کیا تو بس سیدھی راہ سے تم بھٹک گئے اور ان کا داؤ تم پر چل گیا اور مقصد حیات تم کھو بیٹھے۔ اس طرح اس رب ذوالجلال والا کرام ، عالم الغیب والشہادۃ اور احکم الحاکمین نے اپنی بےمثل اور لاریب کتاب میں جو اس نے اپنے رسول خاتم النّبیین اور رحمۃ للعالمین ﷺ کے سینہ اقدس میں نازل فرمائی ہر اس نظام کے غلط ہونے کا اعلام فرمادیا جس میں محض اکثریت رائے ؟ ؟ ؟ کا موجد و منتظم جو بات کہے اس کو ساری دنیا کی مخلوق اور پوری دنیا کے زیرک سے زیرک تر لوگ مل کر بھی غلط ثابت نہیں کرسکتے۔ غو وفکر کرو ، قصص قرآن کا مطالعہ کرو۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ تک کا اور آپ ﷺ کے دور سے لے کر آج تک ایک ایک واقعہ کو نگاہ میں لاؤ اور دیانتداری سے بتاؤ کہ پوری انسانیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی زمانہ کوئی وقت کوئی حالت آپ کی نگاہ میں ایسی آئی ہے جس میں عقل و فکر والوں کی تعداد بےعقلوں اور نادانوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوئی ہو ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر اس سیدھے اور صاف مطلب کو چھوڑ کر ٹیٹرھا اور گدلا مطلب کیوں پسند کیا گیا ؟ کس چیز کے خوف نے عقل پر پانی پھیر دیا ؟ کس طاقت کے نیچے سب دب کر رہ گئے ؟ جس بات کو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعہ سے اپنی آخری کتاب میں ان گنت بار تحریر کرایا اس پر لکیر کیوں پھیردی گئی ؟ جس ڈھنڈورا کو بار بار پیٹا گیا تھا اس آواز کو شور وغوغا میں کیوں چھپا دیا گیا ؟ جن آیات کریمات میں اکثریت کو ناقدر شناس ، ناسمجھ ، نادان ، نہ ایمان لانے والے ، بےعقل ، گمراہ اور کفر پر جمے رہنے والے بیان کیا گیا ہے ان کے صرف ترجمہ پر کیوں اکتفا کیا گیا ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب وہ نظام ہمارے سروں پر مسلط کردیا گیا تو اس کو بخوشی کیوں قبول کرلیا گیا ؟ پھر یہ ستم ظریفی کہ جن لوگوں نے اس کو تحریر وتقریر میں برا کہا انہوں نے بھی اب اس کو گلے کا ہار بنا لیا ؟ جنہوں نے حرام حرام کے نعرے بلند کئے تھے انہوں نے صرف حلال ہی نہیں اس کو پاک وطیب غذا سمجھ لیا اور رج رج کر کھانے لگے ؟ اب قرآن کریم کی ان آیات میں سے چند ایک آیات کے ان حصوں کو نقل کیا جاتا ہے جن میں اکثریت کی ناشکری ، ناقدری ، لاعلمی اور بےایمانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ ہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ 1۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا 1۫ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ 00243 (البقرہ 2 : 243) ” کیا تم نے ان لوگوں کی سرگزشت پر غور نہیں کیا جو اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے اور باوجودیکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے مگر موت کے ڈر سے بھاگ گئے تھے اللہ کا حکم ہوا کہ اب تمہارے لیے یہ موت ہی ہے پھر اللہ نے انہیں زندہ کردیا اور وہ غالب ہوگئے یقینا اللہ انسان کیلئے بڑا ہی فضل و بخشش رکھنے والا ہے لیکن اکثر آدمی ناشکری کرنے والے ہیں۔ “ 2۔ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا 1ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ 1ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا ہُوَ 1ؔۘؕ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً 1ؕ یَسْـَٔلُوْنَكَ کَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا 1ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ 00187 (الاعراف 7 : 187) ” لوگ تم سے آنے والے وقت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب قرار پائے گا ؟ تم کہہ دو اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہے وہی ہے جو اس بات کو اس کے وقت پر نمایاں کرنے والا ہے وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں واقع ہوگا ، وہ تم پر نہیں آئے گا مگر اچانک یہ لوگ تم سے اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا تم اس کی کاوش میں لگے ہوئے ہو ، تم کہو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف اللہ ہی یہ بات جانتا ہے لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے انجان ہیں۔ “ 3۔ اَفَمَنْ کَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاہِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ کِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ 1ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ 1ۚ فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ 1ۗ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ 0017 (ھود 11 : 17) ” پھر جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ ہی ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آگیا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سرتا پا رحمت آ چکی ہو ، کیا یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں ؟ اور اس طرح گروہوں میں سے جو کوئی اس سے منکر ہوا تو یقین کرو آگ وہ ٹھکانا ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے پس تم اس کی نسبت کسی طرح کے شک میں نہ پڑو وہ تیرے پروردگار کی جانب سے امر حق ہے لیکن اکثر آدمی ایمان نہیں لاتے ۔ “ 4۔ وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا 1ؕ وَ کَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِٞ وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ 1ؕ وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ 0021 (یوسف 12 : 21) ” اور اہل مصر میں سے جس شخص نے یوسف (علیہ السلام) کو خریدا تھا وہ اپنی بیوی سے بولا کہ اسے عزت کے ساتھ رکھو ، عجب نہیں یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم بیٹا ہی بنا لیں اور اس طرح ہم نے یوسف کا قدم سرزمین مصر میں جما دیا اور مقصود یہ تھا کہ اسے باتوں کا نتیجہ و مطلب نکالنا سکھا دیں اور اللہ کو جو معاملہ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔ “ 5۔ اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ 004 (یوسف 12 : 4) ” اور دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا تھا ، اے میرے باپ ! میں نے (خواب میں) دیکھا کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں “ 6۔ قَالَ لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَا 1ؕ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ 1ؕ اِنِّیْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَةِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ 0037 (یوسف 12 : 37) ” یوسف (علیہ السلام) نے کہا قبل اس کے کہ تمہارا مقررہ کھانا تم تک پہنچے میں تمہارے خوابوں کا حال تمہیں بتلا دوں گا ، اس بات کا علم بھی منجملہ ان باتوں کے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم فرمائی ہیں ، میں نے ان لوگوں کی ملت ترک کی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔ “ 7۔ وَ لَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَهُمْ اَبُوْهُمْ 1ؕ مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰىهَا 1ؕ وَ اِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (رح) 0068 (یوسف 12 : 68) ” پھر جب یہ لوگ داخل ہوئے اس طرح جس طرح باپ نے حکم دیا تھا تو دیکھو یہ بات اللہ کی مشیت کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہ آئی مگر ہاں یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا تھا جسے اس نے پورا کردیا بلاشبہ وہ صاحب علم تھا کہ ہم نے اس پر علم کی راہ کھول دی تھی لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ 8۔ وَ مَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ 00103 (یوسف 12 : 103) ” اور (اس پر بھی یاد رکھو کہ) اکثر آدمیوں کا حال یہ ہے کہ تم کتنا ہی چاہو کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ “ 9۔ ا لٓمّٓرٰ 1۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ 1ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ 001 (الرعد 13 : 1) ” الف۔ لا ... م می ... م را۔ یہ کتاب کی آیتیں ہیں اور جو کچھ تیرے پروردگار کی جانب سے تجھ پر نازل ہوا ہے وہ امر حق ہے ، مگر اکثر آدمی ایسے ہیں کہ ایمان نہیں لاتے ۔ “ 10۔ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ 1ۙ لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُ 1ؕ بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۙ0038 (النمل 16 : 38) ” اور ان لوگوں نے اللہ کی سخت قسمیں کھائیں کہ جو مر گیا اسے اللہ کبھی دوبارہ نہیں اٹھائے گا ہاں ! ضرور اٹھائے گا یہ اس کا وعدہ ہے اور اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہے لیکن اکثر آدمی ہیں جو اس بات کا علم نہیں رکھتے۔ “ 11۔ وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍٞ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا 0089 (بنی اسرائیل 17 : 89) ” اور ہم نے اس قرآن کریم میں ہر طرح کی مثا [ 3 ] لیں بار بار بیان کیں لیکن ان میں سے اکثروں نے کوئی بات قبول نہیں کی اور قبول کی تو صرف ناشکری ! “ 12۔ وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا 0050 (الفرقان 25 : 50) ” اور بلاشبہ ہم نے اس ( قرآن کریم) کو لوگوں کے درمیان (طرح طرح سے) بیان کیا تاکہ لوگ یاد رکھیں ، لیکن اکثر لوگ ناشکری کیے بنا نہیں رہتے۔ “ 13۔ وَعْدَ اللّٰهِ 1ؕ لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ 006 (الروم 30 : 6) ” یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ، لیکن اکثر لوگ (یہ) نہیں جانتے “ 14۔ فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا 1ؕ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا 1ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ 1ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ 1ۙۗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۗۙ0030 (الروم 30 : 30) ” پس تو (اے پیغمبر اسلام ! ) اس دین حنیف کی طرف اپنا رخ کرلے اللہ کی اس فطرت پر جس پر اس نے اپنے بندوں کو بنایا ہے (قائم رکھ) اللہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کو بدلا نہیں کرتا یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ 15۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ 0028 (سباء 34 : 28) ” (اے پیغمبر اسلام ! ) ہم نے آپ (ﷺ) کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ (اِس حقیقت کو) نہیں سمجھتے۔ “ 16۔ قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (رح) 0036 (سباء 34 : 36) ” آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب جس پر چاہتا ہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے نپی تلی کردیتا ہے (اس کی حقیقت) اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ 17۔ وَ لَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِیْنَۙ0071 وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْهِمْ مُّنْذِرِیْنَ 0072 (الصفت 37 : 71 ، 72) ” اور ان سے پہلے بہت سے اگلے لوگ بھی گمراہ ہوچکے ہیں۔ اور بیشک ہم ان میں بھی نصیحت کرنے والے بھیجے تھے۔ “ 18۔ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ 0057 (المؤمن 40 : 57) ” ہاں ! (یاد رہے کہ) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے (دوبارہ) پیدا کرنے سے بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ (اتنی بات بھی) نہیں سمجھتے۔ “ 19۔ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ 0059 (المؤمن 40 : 59) ” بلاشبہ قیامت ضرور آئے گی اس میں کچھ شبہ نہیں لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت پر) ایمان نہیں لاتے۔ “ 20۔ اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ 0061 (المؤمن 40 : 61) ” اللہ ہی ہے جس نے تمہارے واسطے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم کام کاج کرسکو) بلاشبہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے (بلکہ اللہ کو بھول ہی جاتے ہیں) ۔ “ 21۔ قُلِ اللّٰهُ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یَجْمَعُكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (رح) 0026 (الجاشیہ 45 : 26) ” (اے پیغمبر اسلام ! ) آپ (ﷺ) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو زندہ کرتا ہے پھر تم کو موت دیتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت کے روز جمع کرے گا جس میں کچھ شک نہیں لیکن اکثر لوگ (یہ بات) نہیں سمجھتے (اور کج بحثی کرتے ہیں) ۔ “ 22۔ قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ ہَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ 1ۙ وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ 0059 (المائدہ 5 : 59) ” تم کہو کہ اے اہل کتاب ! کیا تم اس چیز کا انتقام لینا چاہتے ہو کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس سچائی پر جو ہم پر نازل ہوئی اور جو ہم سے پہلے نازل ہوچکی ہے ؟ اور تم میں اکثر آدمی نافرمان ہوگئے ہیں۔ “ 23۔ لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ کٰرِهُوْنَ 0078 (الزخرف 43 : 78) ” بیشک ہم تمہارے پاس (دین) حق لائے لیکن تم میں اکثر حق سے ہمیشہ بیزار ہی رہے۔ “ 24۔ اَوَ کُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ 1ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ 00100 (البقرہ 2 : 100) ” جب کبھی بھی ان لوگوں نے اتباع حق کا کوئی عہد کیا تو کسی نہ کسی گروہ نے ضرور ہی اسے پس پشت ڈال دیا اور ان لوگوں میں بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جن کے دل ایمان کی دولت سے خالی ہیں۔ “ 25۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ 1ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ 1ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ 00110 (آل عمران 3 : 110) ” تم تمام امتوں میں بہتر امت ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لیے ظہور میں آئی ہو ، تم نیکی کا حکم دینے والے ، برائی سے روکنے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو یہ ان کیلئے بہتری کی بات ہوتی ، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان رکھنے والے ہیں لیکن بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جو دائرہ ہدایت سے یکسر باہر ہوچکے ہیں۔ “ 26۔ مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآىِٕبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ 1ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ 1ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ 00103 (المائدہ 5 : 103) { بحیرۃ ، سائبۃ ، وصیلۃ } اور { حام } میں سے کوئی چیز بھی اللہ نے نہیں ٹھہرائی ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی وہ اللہ پر افتراء کرتے ہیں اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے محروم ہیں۔ ” “ 27۔ وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ 1ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0037 (الانعام 6 : 37) ” اور انہوں نے کہا کیونکر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی اس پر نہیں اتاری گئی ، تم کہہ دو اللہ یقینا اس پر قادر ہے کہ ایک نشانی اتار دے لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ “ 28۔ وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ وَ کَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ 00111 (الانعام 6 : 111) ” اور اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے اور جتنی چیزیں بھی ہیں سب ان کے سامنے لا کھڑی کرتے جب بھی یہ ایسا کرنے والے نہیں ہیں کہ ایمان لے آئیں اِلّا یہ کہ اللہ ہی کی مشیت ہو لیکن ان میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ “ 29۔ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ 1ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ 0017 (الاعراف 7 : 17) ” پھر اس (طاقت نے جس کا نام ابلیس رکھا گیا ہے ، کہا) کہ میں ان کے سامنے سے ، ان کے پیچھے سے ، داہنے سے ، بائیں سے ان پر آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ۔ “ 30۔ وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ 1ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ 00102 (الاعراف 7 : 102) ” اور ان میں سے اکثروں کو ہم نے ایسا پایا کہ اپنے عہد پر قائم نہ تھے اور اکثروں کو ایسا ہی پایا کہ یک قلم نافرمان ہوگئے۔ “ 31۔ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا ہٰذِهٖ 1ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ 1ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 00131 (الاعراف 7 : 131) ” جب کبھی خوشحالی آتی تو کہتے یہ ہمارے حصے کی بات ہے (یعنی ہماری وجہ سے ہے) اور اگر ایسا ہوتا کہ سختی پیش آجاتی تو کہتے یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کی نحوست ہے ، سن رکھو ان کی نحوست اللہ کے یہاں تھی لیکن بہتوں کو یہ بات معلوم نہیں۔ “ 32۔ وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ ہُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَا کَانُوْۤا اَوْلِیَآءَهٗ 1ؕ اِنْ اَوْلِیَآءَهٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0034 (الانفال 8 : 34) ” لیکن اب کونسی بات رہ گئی ہے کہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ وہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے متولی ہونے کے لائق نہیں اس کے متولی اگر ہو سکتے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہو سکتے ہیں جو متقی ہوں لیکن ان میں سے اکثروں کو معلوم نہیں۔ “ 33۔ کَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً 1ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاہِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ 1ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ008 (التوبہ 9 : 8) ” ان مشرکوں کا عہد کیونکر عہد ہو سکتا ہے جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر آج تم پر غلبہ پا جائیں تو نہ تمہارے لیے قرابت داروں کا پاس کریں نہ کسی عہد و پیمان کا ، وہ اپنی باتوں سے تمہیں راضی کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے دلوں کا فیصلہ اس کے خلاف ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔ “ 34۔ وَ مَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا 1ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْـًٔا 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ 0036 (یونس 10 : 36) ” اور ان لوگوں میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو صرف وہم و گمان کی باتوں پر چلتے ہیں اور سچائی کی معرفت میں گمان کچھ کام نہیں دے سکتا ، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے بیخبر نہیں۔ “ 35۔ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0055 (یونس 10 : 55) ” آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے لیے ہے اور یہ بات بھی نہ بھولو کہ اللہ کا وعدہ حق ہے مگر ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو یہ بات نہیں جانتے۔ “ 36۔ فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِهٖ فَلَا کَیْلَ لَكُمْ عِنْدِیْ وَ لَا تَقْرَبُوْنِ 0060 (یوسف 12 : 60) ” لیکن اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو پھر یاد رکھو نہ تو تمہارے لیے میرے پاس ماپ ہوگا اور نہ تم میرے نزدیک جگہ پاؤ گے۔ “ 37۔ وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِكُوْنَ 00106 (یوسف 12 : 106) ” اور ان میں سے اکثروں کا حال یہ ہے کہ اللہ پر یقین لاتے ہیں تو اس حال میں لاتے ہیں کہ اس کے ساتھ شریک بھی ٹھہراتے جاتے ہیں۔ “ 38۔ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ جَهْرًا 1ؕ ہَلْ یَسْتَوٗنَ 1ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ 1ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0075 (النحل 16 : 75) ” اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے ، ایک غلام ہے کسی دوسرے آدمی کی ملک وہ خود کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا اور ایک دوسرا آدمی ہے ہم نے اپنے فضل سے اسے اچھی روزی دے رکھی ہے اور وہ ظاہر و پوشیدہ اسے خرچ کرتا ہے ، اب بتلاؤ کیا یہ دونوں آدمی برابر ہو سکتے ہیں ؟ ساری ستائش اللہ کے لیے ہے مگر اکثر آدمی ہیں جو نہیں جانتے۔ “ 39۔ یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْكِرُوْنَهَا وَ اَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ (رح) 0083 (النحل 16 : 83) ” یہ اللہ کی نعمتیں پہچانتے ہیں پھر اس سے انکار کرتے ہیں اور اکثر ایسے ہیں جنہیں سچائی سے قطعاً انکار ہے۔ “ 40۔ وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ 1ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ 1ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 00101 (النحل 16 : 101) ” اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے کہ وہ کیا نازل کر رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں تم تو بس اپنے جی سے گھڑ لیا کرتے ہو ، حالانکہ ان میں سے اکثروں کو معلوم نہیں۔ “ 41۔ وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ 1ؕ اَفَاۡىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ 0034 (الانبیاء 21 : 24) ” پھر کیا ان لوگوں نے اس کے سوا دوسرے معبود پکڑ رکھے ہیں ؟ توُ ان سے کہہ دے بتلاؤ تمہاری دلیل کیا ہے ؟ یہ ہے وہ کلام جو میرے ساتھیوں کے ہاتھ میں ہے اور جو مجھ سے پہلوں کے لیے اتر چکا ہے ، اکثروں کو حقیقت کا پتہ ہی نہیں وہ رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ “ 42۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ 1ؕ بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ کٰرِهُوْنَ 0070 (المؤمنون 23 : 70) ” یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہوگیا ہے ؟ نہیں اللہ کا رسول ان کے پاس سچائی کے ساتھ آیا مگر ان میں سے اکثروں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ سچائی کا ماننا انہیں گوارا نہیں ہے۔ “ 43۔ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ 1ؕ اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا (رح) 0044 (الفرقان 25 : 44) ” کیا آپ (ﷺ) یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں اکثر ( آپ (ﷺ) کی بات) سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ یہ تو بس چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ تو ان سے زیادہ راہ سے بہکے ہوئے ہیں۔ “ 44۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 008 (الشعراء 26 : 8) ” بلاشبہ اس میں (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائے۔ “ 45۔ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَؕ0066 اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 0067 (الشعراء 26 : 66 ، 67) ” پھر دوسروں کو ہم نے ڈبو دیا۔ بلاشبہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے تھے ہی نہیں۔ “ 46۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00103 (الشعراء 26 : 103) ” بلاشبہ اس میں ایک بڑی ہی نشانی تھی اور ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ “ 47۔ ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِیْنَؕ00120 اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00121 (الشعراء 26 : 120 ، 121) ” پھر (علاوہ ازیں) سب لوگوں کو ہم نے ڈبو دیا۔ بلاشبہ اس میں ( قوم نوح کو غرق کرنے اور نوح کو بچانے میں) نشانی ہے اور ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے۔ “ 48۔ فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْ۠1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00139 (الشعراء 26 : 139) ” (غرض) انہوں نے اس کو جھٹلایا پس ہم نے انہیں بھی ہلاک کردیا ، بلاشبہ اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ “ 49۔ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ 1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00158 (الشعراء 26 : 158) ” (غرض) ان کو عذاب نے آلیا ، بیشک اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ “ 50۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00174 (الشعراء 26 : 174) بلاشبہ اس میں نشانی ہے اور ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے۔ ” “ 51۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً 1ؕ وَ مَا کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00190 (الشعراء 26 : 190) ” بلاشبہ اس میں (لوگوں کے لیے) نشانی ہے اور ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے۔ “ 52۔ تَنَزَّلُ عَلٰى کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍۙ00222 یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ کٰذِبُوْنَؕ00223 (الشعراء 26 : 222 ، 223) ” وہ ہر جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ جو سنی سنائی باتیں ڈالتے ہیں اور ان میں سے بھی اکثر جھوٹے ہی ہوتے ہیں۔ “ 53۔ اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا 1ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ 1ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَؕ0061 (النمل 27 : 61) ” بھلا وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا ؟ اور اس کے درمیان میں نہریں بہائیں اور اس کے لیے بھاری پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان حجاب بنایا ، کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے (جو یہ سارے کام کرسکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ) ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔ “ 54۔ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ 0073 (النمل 27 : 73) ” اور بلاشبہ تیرا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر (ایسے ہی ہیں کہ) شکر ادا نہیں کرتے۔ “ 55۔ وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا 1ؕ اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0057 (القصص 28 : 57) ” اور (یہ لوگ) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت پر آجائیں تو ہم اپنی سر زمین سے نکال باہر کیے جائیں کیا ہم نے ان کو امن وامان والے حرم میں جگہ نہیں دی ؟ جہاں ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں ، یہ رزق تو ہماری طرف سے ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر سمجھ ہی نہیں رکھتے۔ “ 56۔ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ 003 (العنکبوت 29 : 3) ” اور ہم نے ان کی بھی آزمائش کی ہے جو ان سے قبل گزرے ہیں تو اللہ ان لوگوں کو ظاہر فرما دے گا جو سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔ “ 57۔ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ 1ؕ کَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِكِیْنَ 0042 (الروم 30 : 42) ” (اے پیغمبر اسلام ! ) آپ کہہ دیجئے کہ زمین میں چلو پھرو ، پھر دیکھو کہ جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کا کیسا انجام ہوا کیونکہ ان میں بھی بہت شرک کرنے والے تھے۔ “ 58۔ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ 1ؕ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ 1ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0025 (لقمان 31 : 25) ” اور اگر آپ (ﷺ) ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ؟ تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے آپ (ﷺ) کہہ دیجئے کہ سب اچھی تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ، ہاں ! (ان لوگوں) میں اکثر سمجھ نہیں رکھتے۔ “ 59۔ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَوَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ 1ۚ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ 1ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ 0041 (سباء 34 : 41) ” وہ (فرشتے) عرض کریں گے تیری ذات (ہر شرک سے) پاک ہے تو ہی ہمارا آقا ہے نہ کہ یہ لوگ ، بلکہ وہ لوگ تو (ہمارا نام لے کر) جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان میں اکثر انہیں پر ایمان رکھتے تھے (کہ یہ ایسا ایسا کردیتے ہیں) ۔ “ 60۔ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ 007 (یٰسین 36 : 7) ” بیشک ان میں اکثر لوگوں پر یہ بات (ان کے اعمال کے باعث) ثابت ہوچکی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “ 61۔ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ 1ؕ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا 1ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ 1ۚ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0029 (الزمر 39 : 29) ” اللہ نے ایک مثال بیان کی ہے کہ ایک (غلام) مرد ہے جس میں کئی (لوگ) شریک ہیں (جو) مختلف المزاج ہیں اور ایک شخص (ایسا) ہے جو خاص ایک ہی شخص کا (غلام) ہے ، کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہو سکتی ہے ؟ تمام اچھی تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (سمجھتے) ۔ “ 62۔ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا 1ۚ فَاَعْرَضَ اَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ 004 (حسم السجدہ 41 : 4) ” (یہ) خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگوں نے روگردانی کی ہے وہ سنتے ہی نہیں (سمجھیں گے کیا ؟ ) “ 63۔ مَا خَلَقْنٰهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0039 (الدخان 44 : 39) ” اور ہم نے ان (دونوں) کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ “ 64۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ 004 (الحجرات 49 : 4) ” بلاشبہ جو لوگ آپ (ﷺ) کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر ناسمجھ ہیں (کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے) ۔ “ 65۔ وَ اِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0047 (الطور 52 : 47) ” اور بلاشبہ ظالموں کے لیے اس کے علاوہ ایک عذاب ہے لیکن ان میں سے اکثر اس سے بیخبر ہیں۔ “ 66۔ وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْهُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ 0071 (المائدہ 5 : 71) ” وہ سمجھے کہ کوئی آزمائش نہیں ہوگی اس لیے اندھے بہرے ہوگئے اور پھر اللہ اپنی رحمت سے ان پر لوٹ آیا لیکن پھر ان میں سے بہ تیرے اندھے بہرے ہوگئے اور اب جیسے کچھ ان کے کرتوت ہیں اللہ انہیں دیکھ رہا ہے۔ “ 67۔ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ 1ؕ لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ کَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ007 (الحجرات 49 : 7) ” اور جان لو کہ (جب تک) تم میں اللہ کا رسول (ﷺ) موجود ہے اگر وہ اکثر تمہاری بات مان لیا کرے تو تم بڑی مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی ایسی محبت ڈال دی ہے (کہ تم اپنی بات منوانے کی کوشش ہی نہیں کرتے) اور اس (محبت) کو تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا ہے یہی لوگ راہ حق پر ہیں۔ “ 68۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّٞ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا 1ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۠1ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ 0012 (الحجرت 49 : 12) ” اے ایمان والو ! بیشتر بدگمانیوں سے بچتے رہو بلاشبہ بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں اور کسی کے کھوج میں نہ لگے رہا کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو ، تم میں سے کسی کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ سو اسکو تو تم بہت ناگوار سمجھتے ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو بلاشبہ اللہ معاف کرنے والا پیار کرنے والا ہے۔ “ 69۔ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ 1ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ 1ؕ وَ کَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ 0016 (الحدید 57 : 16) ” کیا ایمان والوں کے لیے اس کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کو یاد کرنے کے وقت اور جو حق کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کے سامنے ڈر جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب ملی تھی پھر ان پر ایک زمانہ گزرتا گیا پھر ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ “ 70۔ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ 1ۙ۬ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً 1ؕ وَ رَهْبَانِیَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا مَا کَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا 1ۚ فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ 1ۚ وَ کَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ 0027 (الحدید 57 : 27) ” پھر ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے پیغمبروں کو بھی بھیجا اور بعد ازیں عیسیٰ بیٹے مریم کو بھی بھیجا اور اس کو انجیل عطا کی اور اس کے متبعین کے دلوں میں شفقت و رحمت ڈال دی اور رہبانیت جس کی ابتداء از خود انہوں نے کی ہم نے ان کو ان پر فرض نہ کیا تھا مگر انہوں نے اسے اللہ کی رضامندی کے لیے اختیار کیا لیکن جس طرح اس کو نباہنا چاہیے تھا نباہ نہ سکے پھر ان میں سے جو ایمان لے آئے ہم نے ان کو اجر دیا اور ان میں سے اکثر تو نافرمان ہی ہیں۔ “ 71۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ 1ۚ وَ کَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ 0026 (الحدید 57 : 26) ” اور بلاشبہ ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کو بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب قائم کردی پھر ان (کی امت) میں کچھ ہدایت یافتہ بھی ہوئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہی رہے۔ “ ہمیں معلوم ہے کہ کچھ کھلنڈرے مولانا اور علامہ حضرات جن کو جمہوریت کی چاشنی کی چاٹ لگ چکی ہے ان آیات کریمات میں سے بعض یا سب کے ” اکثر “ اور ” کیرر “ کے الفاظ سے ” اکثریت “ کو مراد لینے میں لیت ولعل کریں گے اگرچہ ان کا اس طرح ٹانگ اڑانا ان کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتا اور قرآنی آیات کا مفہوم اور سیاق وسباق ان کو منہ توڑ جواب دے دیں گے تاہم ان کے اس زعم باطل کا علاج قبل از وقت کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اس لئے اس معاملہ میں مزید تسلی کرلو ان شاء اللہ مفید ہوگی۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : 72۔ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ 1۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ 1ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ 0083 (البقرہ 2 : 83) ” اور پھر جب ہم نے بنی اسرائلت سے عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا ، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ، عزیزوں ، قریبی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا ، یتیموں ، مسکینوں کی خبر گیری کرنا اور تمام انسانوں سے اچھا برتاؤ کرنا ، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ ادا کرنا ، لیکن تم ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب الٹی چال ہی چلے اور تم حق سے منہ موڑ لینے والے ہو۔ “ 73۔ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ 1ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ 0088 (البقرہ 2 : 88) ” اور یہ لوگ کہتے ہیں ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ، ان پر انکار حق کے تعصب کی پھٹکار ہے ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ قبول کریں۔ “ 74۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى1ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ؕ قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا 1ؕ قَالُوْا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآىِٕنَا 1ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ 00246 (البقرہ 2 : 246) ” کیا تم نے اس واقعہ پر غور نہیں کیا جو موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کو پیش آیا تھا ؟ بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے عہد کے نبی سے کہا تھا کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے ہمارے لیے ایک حکمران مقرر کر دو ، نبی نے کہا اگر تمہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ تم لڑنے سے انکار کر دو ، سرداروں نے کہا ، ایسا کیونکر ہو سکتا ہے ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم اپنے گھروں سے نکالے جا چکے ہیں اور اپنی اولاد سے علیحدہ ہوچکے ہیں پھر دیکھو کہ جب ایسا ہوا کہ انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب نے پیٹھ دکھلا دی اور اللہ نافرمانوں سے بیخبر نہیں۔ “ 75۔ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ 1ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ 1ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ 1ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖ 1ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ 1ؕ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ ہُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ 1ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ 1ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ 1ۙ کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ 1ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ 00249 (البقرہ 2 : 249) ” پھر جب طالوت نے لشکر کے ساتھ کوچ کیا تو اس نے کہا دیکھو اللہ اس ندی کے پانی سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے پس جس کسی نے اس ندی کا پانی پیا اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ، میرا ساتھی وہی ہوگا جو اس پانی سے پیاس نہ بجھائے ، ہاں ! اگر کوئی آدمی مجبوراً اپنے ہاتھ سے چلو بھر پی لے تو اس کا مضائقہ نہیں ، لیکن اس حکم کے باوجود ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب نے خوب پانی پیا ، پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ وہ لوگ جو سچا ایمان لائے ندی کے پار اترے تو ان لوگوں نے جنہوں نے طالوت کی نافرمانی کی تھی کہا ہم میں یہ طاقت نہیں کہ آج جالوت اور اس کی فوج سے مقابلہ کرسکیں لیکن وہ چند لوگ جو سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے پکار اٹھے کہ کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ “ 76۔ مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ۠ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ 1ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَقْوَمَ 1ۙ وَ لٰكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا 0046 (النساء 4 : 46) ” یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ لفظوں کو ان کی اصلی جگہ سے پھیر دیا کرتے ہیں اور اس خیال سے کہ دین حق کے خلاف طعن وتشنیع کریں زبان مروڑ مروڑ کر لفظوں کو بگاڑ دیتے ہیں ، کہتے ہیں { سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا } اور { اَسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ } اور { رَاعِنَا } اگر یہ لوگ { سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا } اور { اَسْمَعْ } اور { اُنْظُرْنَا } کہتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور درستگی کی بات ہوتی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑچکی ہے ، پس ایک چھوٹے گروہ کے سوا اور سب ایمان سے محروم ہیں۔ “ 77۔ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ وَ کُفْرِهِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ قَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِیَآءَ۠ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ 1ؕ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَیْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۪00155 (النساء 4 : 155) ” پس ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے اور اللہ کی آیتیں جھٹلانے کے باعث اور اس وجہ سے کہ اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے اور انہوں نے کہا ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے یہی وجہ ہے کہ معدودے چند آدمیوں کے سوا سب کے سب ایمان سے محروم ہیں۔ “ 78۔ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةً 1ۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ 1ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ 1ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ 0013 (المائدہ 5 : 13) ” پس ان لوگوں نے اپنا عہد اطاعت توڑ ڈالا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ، چناچہ یہ لوگ باتوں کو ان کی اصلی جگہ سے پھیر دیتے ہیں ، جس بات کی انہیں نصیحت کی گئی تھی اس سے کچھ بھی فائدہ اٹھانا ان کے حصے میں نہیں آیا اسے بالکل فراموش کر بیٹھے اور تم ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر اطلاع پاتے رہتے ہو اور بہت تھوڑے ہیں جو ایسا نہیں کرتے ، پس آپ کو چاہیے کہ ان سے درگزر کریں اور ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لیں ، بلاشبہ اللہ انہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو نیک کردار ہوتے ہیں۔ “ 79۔ اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ 1ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ 003 (الاعراف 7 : 3) ” جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے مددگاروں کے پیچھے نہ چلو ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو۔ “ 80۔ وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ 1ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (رح) 0010 (الاعراف 7 : 10) ” اور ہم نے تمہیں زمین میں بسا دیا اور زندگی کے سروسامان مہیا کردیئے مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم شکرگزار ہو۔ “ 81۔ فَلَوْ لَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْ 1ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ 00116 (ھود 11 : 116) ” پھر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جو عہد تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں اہل خیر باقی رہے ہوتے اور لوگوں کو ملک میں شر و فساد کرنے سے روکتے ؟ ایسا نہیں ہوا مگر بہت تھوڑے عہدوں میں جنہیں ہم نے نجات دی ، ظلم کرنے والے تو اس راہ پر چلے جس میں انہوں نے آسودگی پائی اور وہ مجرم تھے۔ “ 82۔ قَالَ اَرَءَیْتَكَ ہٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّٞ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلًا 0062 (بنی اسرائیل 17 : 62) ” نیز اس نے یہ بھی کہا کیا تیرا یہی فیصلہ ہوا کہ تو نے اس ہستی کو مجھ پر بڑائی دی ؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں ضرور اس کی نسل کی بیخ و بنیاد اکھاڑ کے رہوں ، تھوڑے آدمی ہی ہلاکت سے بچیں۔ “ 83۔ وَ ہُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ 1ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 0078 (المؤمنون 23 : 78) ” اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان ، آنکھ دل پیدا کردیئے مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم شکر بجا لاؤ ۔ “ 84۔ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ 1ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ 1ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ0062 (النمل 27 : 62) ” بھلا مضطرب جب پکارتا ہے تو اس کی التجاؤں کو کون سنتا ہے ؟ اور کون ہے جو ان کے دکھ درد کو دور کرتا ہے ؟ اور کون ہے جس نے تم کو زمین پر جانشین بنایا ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (جو ایسا کرسکتا ہے) تم لوگ بہت ہی کم غور و فکر کرتے ہو۔ “ 85۔ ثُمَّ سَوّٰىهُ وَ نَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ 1ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 009 (السجدہ 32 : 9) ” پھر اس (انسان) کو درست کیا اور اس میں اپنی (مخلوق کردہ) جان اس میں پھونکی اور تمہارے لیے کان ، آنکھیں اور دل بنائے (لیکن) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو (کم ہی لوگ ہیں جو شکر گزار ہیں) ۔ “ بات واضح ہوگئی کہ کسی سابق نبی کی امت کا حال کھول دیکھو ، کسی گروہ کی تاریخ کو پڑھ کر سن لو۔ کسی زمانہ کے لوگوں کا حال زیر نظر لاؤ آپ کو ہمیشہ نافرمانوں اور بیوقوں کی کثرت ملے گی اور کسی نہایت اچھے زمانہ کا انتخاب کر دیکھو اس میں جتنی مخلوق موجود ہے اس میں شکر گزار کتنے ہیں اور ناشکروں کی تعداد کیا ہے۔ اس لئے کہ خالق تو سب کا ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے اس شاہکار سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے تم کو یہ عظیم القدر انسانی واضع اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ اسلئے عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے اپنے لئے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لئے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لئے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لئے دیئے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لئے۔ یہ دل تمہیں اس لئے دیئے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کرو ، نہ اس لئے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کردو اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قتمد نعمتیں اللہ تعالیٰ سے پانے کے بعد جب تم شرک اور کفر اور کافر کا بنایا ہوا نظام اختیار کرتے ہو۔ جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو ، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہو اور قانون خداوندی کو چھوڑ کر مخلوق کے قانون کو پسند کرتے ہو تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے ہمیں انسان بنانے کی بجائے تجھے ایک بندریا بھیڑیا یا مگرمچھ یا کوا بنانا چاہئے تھا۔ تو نے ہمیں اشرف المخلوقات کیوں بنادیا ؟ موجود شیطانی نظام جس کو جمہوریت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے سرزمین ہند میں اس کا پودا 1885 ء میں لگایا گا جس کی مختلف لوگوں نے اور خصوصاً اس وقت کے مسلمانوں نے بڑی حد تک مخالفت کی لیکن حکمرانوں کی عیاری ومکاری سے 1909 ء میں مخالفت کرنے والوں نے کچھ خاص مجبوریوں کے تحت گٹھنے ٹیک دیئے اور 1937 ء میں اس پودے پر پھول اور ڈوڈیاں آنے لگیں۔ 1945 ء میں یہ درخت بار آور ہوا اور 1947 ء میں مکمل طور پر پھل دینے لگا جس کا کثیر حصہ گاندھی اور نہرو کے حصے میں آیا اور قلیل حصہ قائداعظم (رح) کی قیادت میں پاکستانیوں کو ملا۔ وہ اضطراری حالت تھی جس میں گیارہوں کی نیاز بھی کھائی گئی اور کھائی جاسکتی تھی لیکن جب اضطراری حالت ختم ہوئی تو لوگوں نے بغاوت اور زیادتی شروع کردی اور اس حرام کی چاٹ ایسی لگی کہ اب کسی کو حرام نظر نہیں آتا الایہ کہ کسی کی آنکھوں سے اللہ نے پٹی اتار دی ہو۔ یہ شیطانی نظام تشکیل دینے والے بھی یہ ضرور سمجھتے تھے کہ اکثریت ہر دور میں غلط ثابت ہوتی ہے اس لئے انہوں نے ساری دنیا کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کا حل یہ نکالا کہ ” ویٹو “ کا حق اپنے پاس محفوظ رکھا۔ ہماری دعا ہے کہ اے اللہ ! ہم مسلمانوں کی آنکھوں کو کھول دے۔ تجھے تیری ذات کا واسطہ ہمیں اور ہمارے حکمران کو سیدھی راہ دکھا اور اس پر گامزن فرمادے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔ قیاس آرائیوں ہی کا یہ کمال ہے کہ ریت کے ٹیلے کو پیاسوں نے پانی سمجھ کر دوڑ لگادی : 177: آیت 96 سے توحید کا بیان شروع ہوا تھا جس میں کائنات کی ہرچیز کو زیر بحث لایا گیا اور ایک چیز پر غور وفکر کرنے کی تلقین فرمائی گئی اور باربار یہ کہا گیا کہ آسمانوں پر نظر دوڑاؤ ، زمین پر خیال جماؤ اور خود کسی نتیجہ پر پہنچو کہ ان سب چیزوں کا خالق ومالک کون ہے اور کس منتظم کے نظام میں ہر ایک چیز بندھی ہوئی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم غوروفکر اور تدبیر کرنے کا حکم دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ غوروفکر اور تدبر ہمیشہ اس لئے ہوتا ہے کہ ظن و گمان سے نکل کر کسی حقیقت پر پہنچا جائے اور جب تک حقیقت ثابتہ معلوم نہ ہو اس وقت تک ظن و گمان کی پیروی نہ کی جائے گویا فی نفسہ ظن و گمان بری چیز نہیں جو بری چیز ہے وہ صرف اس کی اتباع وپیروی ہے اور ہر اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جو ظن و گمان کی اتباع اور پیروی شروع کر دے۔ وحی الٰہی کا تعلق۔ یقینیات سے ہے ظن و گمان سے نہیں اس لئے وحی الٰہی نے جو کچھ بتایا وہ عین حقیقت ہے اور قرآن کریم بار بار اعلان کرتا ہے کہ تم کو یہ حق ہے کہ غور و فکر کر کے اگر اس حقیقت کو غلط ثابت کرسکتے ہو تو تمہیں بالکل اجازت ہے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ تم ہی نہیں تم جس جس کو چاہو بلا لو اور ایک نہیں بلکہ دو دو تین تین مل کر سوچو ہم تم کو بتا دیتے ہیں کہ تم اس حقیقت کو کبھی غلط ثابت نہیں کرسکتے کیونکہ وہ حقیقت ہی کیوں ہوگی جو غلط ثابت ہوجائے۔ اس لئے وحی الٰہی کے نور مبین اور علم قطعی کے سوا دنیا میں جو کچھ ہے وہ ظن و تخرص ہی کے حکم سے ہے۔ خرص اندازہ اور تخمینہ کو کہتے ہیں جس طرح ہر درخت پر لگے ہوئے پھلوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حقیقت حقیقت ہے اور اندازہ اندازہ ہے حقیقت کہ اندازہ یا اندازہ کو حقیقت نہیں کہا جاسکتا۔ مختصر اس طرح سمجھو کہ جس چیز کو کتاب و سنت کے نام سے یاد کیا گیا ہے وہ یقینیات ہیں اور جس چیز کو فقہ و قیاس کہا جاتا ہے وہ ظن و گمان ہے۔ اپنے متعلق فیصلہ خود کرلو کہ تم یقینیات کی اتباع کر رہے ہو یا ظن و گمان کی۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ظن و گمان کی پیروی و اتباع کی بجائے یقینیات کی پیروی واتباع اختیار کرو یہی راہ ہدایت ہے اور یہ کہ جو لوگ یقینیات کو چھوڑ کر ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں وہ راہ ہدایت پر نہیں بلکہ گمراہ ہیں۔
Top