Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 107
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكُوْا١ؕ وَ مَا جَعَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ مَآ اَشْرَكُوْا : نہ شرک کرتے وہ وَمَا : اور نہیں جَعَلْنٰكَ : بنایا تمہیں عَلَيْهِمْ : ان پر حَفِيْظًا : نگہبان وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : تم عَلَيْهِمْ : ان پر بِوَكِيْلٍ : داروغہ
اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے ، ہم نے تمہیں نہ تو ان پر پاسبان بنایا ہے ، نہ تمہارے حوالے ان کے ذمہ داری کی ہے
اللہ تعالیٰ لوگوں کو شرک نہ کرنے پر مجبور کرسکتا تھا ، آپ ﷺ ان کے ذمہ دار نہیں : 160: غور کریں کہ مخلوق خداوندی کی کتنی اقسام ہیں جو شمار کرنے سے شمار نہیں کی جاسکتی پھر ان سب کو مجبور محض پیدا کرنا مشیت الٰہی میں طے تھا اور وہی کچھ ہوا۔ کتنے کتنے بڑے حیوانات و نباتات آپ دیکھتے ہیں کیا ان سب میں کوئی شرک کا مرتکب ہوتا ہے ؟ نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ قانون قدرت نے انکو اختیار نہیں دیا لیکن اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ نہیں ہے کہ وہ حیوانات ونباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اس کو بھی جبلی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیتا ہے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکتا۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوت ایمان ، بعثت انبیاء ، اور تنزیل کتب کی ضرورت ہی کیا تھی۔ سارے انسان مسلم ومؤمن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت بنائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اسکو انتخاب واختیار کی آزادی بخشی جائے اور اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے۔ اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لئے پسند کرے اور اس پر چل سکے تاکہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی و کسب کے نتیجہ میں پائے۔ پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے آزادی انتخاب اور اختیار کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہئے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کے راستے پر موڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جو ایک سے ایک بڑھ کر بدکار اور ظالم اور فاسق و مشرک آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں اور اللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کرے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کردیں۔ اس قسم کی مداخلت اللہ کے دستور میں نہیں ہے۔ نیک ہوں یا بددونوں قسم کے آدمی ہر قوم کو خود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔ جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی جس میں سے کوئی معتدبہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جو نیکی کا جھنڈا بلند کرے اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں اس مرض کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں۔ خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تو اس کو اس انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے لئے انتخاب کیا ہے۔ لابتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف وہ جس میں کچھ افراد ایسے نکلیں جو خود دعوت خیر کو لبیک کہنے والے ہوں اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصطلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر اس شخص کو اٹھا کر قوم سے باہر پھینک دیا جارہا ہے جس کے دل میں قوم کا درد معمولی سا بھی موجود ہے اور جماعتی زندگی میں صرف صرف ان لوگوں کی گنجائش رہ گئی ہے جو ایک سے ایک بڑھ کر بددیانت اور پست اخلاق ہیں۔ ” ہم نے آپ ﷺ کو نہ تو ان پر پاسبان بنایا ہے اور نہ تمہارے حوالے ان کی ذمہ داری ہے۔ “ اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ لوگوں کو زبردستی مؤمن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ایسے کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل قرآن کریم میں ایسے فقروں میں وہی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے جو اکثر مقامات پر موجود ہے کہ خطاب بظاہر نبی کریم ﷺ سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانا مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے اور یہ انداز بیان براہ راست مخاطبت سے زیادہ فصیح اور زیادہ موثر ہوتا ہے۔ یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو ! حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی و رسول نے پورا پورا ادا کردیا۔ اب اگر تم خود راست رد نہیں بننا چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اس پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبردستی راہ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لئے اس کو نبی و رسول بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کرسکتا تھا۔ جب اس نے ایسا نہیں چاہا تو نبی اس کو کیسے کرسکتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ نبی کسی کو ہدایت پر لگا دینے اور اس پر قائم رکھنے کا ذمہ دار نہیں۔
Top