Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ : نئی طرح بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین اَنّٰى : کیونکر يَكُوْنُ : ہوسکتا ہے لَهٗ : اس کا وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ تَكُنْ : اور جبکہ نہیں لَّهٗ : اس کی صَاحِبَةٌ : بیوی وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کی كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز وَهُوَ : اور وہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو جبکہ کوئی اس کی بیوی نہیں ، اس نے تمام چیزیں پیدا کیں اور وہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے ؟
وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے ، اس کی اولاد کیسے ممکن ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں : 154: بدیع وہ ہے جو بغیر کسی نمونہ اور بغیر کسی میٹریل کے کسی چیز کو پیدا کر دے اس لئے وہ صرف اور صرف اللہ ہی ہے اور اللہ کے سوا کوئی بدیع نہیں ہو سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو ادنیٰ واعلیٰ کے لحاظ سے بھی کسی انسان یا کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ ہرچیز کا وہ خود خالق ہے اور کوئی چیز بھی اس کی خالق نہیں۔ خالق و مخلوق کے ساتھ ایک اور صرف ایک رشتہ ہے اور وہ ہے بندگی کا رشتہ۔ فرزندی اور قرابت کوئی رشتہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان نہیں ہو سکتا۔ اس نے محض اپنی قدرت سے ہرچیز کو پیدا کردیا اسے کسی سہارا اور قرابت کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ ہر طرح کے سہاروں سے مبرا اور پاک ہے اگر کوئی اپنی جہالت کے باعث کسی طرح کا عقیدہ اختیار کرلیتا ہے تو یہ اس عقیدہ گھڑنے والے کی اپنی رائے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی جس سے یہ بات ثابت ہو کہ اللہ بھی کوئی اولاد رکھتا ہے خواہ اس نے جنی نہ ہو بلکہ کسی سے اولاد لے کر اس کو اپنا بیٹا بنا لیا ہو جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور بعض یہود حضرت عزیز (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا تصور کرتے تھے۔ اس طرح اولاد قراردینے والوں سے یہ سوال کہ بتاؤ اس کی بیوی کون ہے جس کے بطن سے اس کی یہ اولاد ہوئی اور پھر یہ کہ جب اس کی بیوی ہی نہیں تو اولاد کہاں سے آگئی۔ مشرکین نے ہر زمانے میں خدائی کا یہ تصور اختیار کیا ہے کہ انسانوں کی طرح خداؤں کی بھی کوئی جنس ہے جس کے بہت سے افراد ہیں اور ان میں شادی بیاہ اور توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے۔ اس جاہلانہ تصور سے انہوں نے اللہ رب العالمین کو بھی پاک اور بالاتر نہیں سمجھا اور اس کیلئے بھی اولاد تجویز کی۔ چناچہ اہل عرب کا یہ عقیدہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انبیائے اسلام کی امتیں بھی اس جہالت سے محفوط نہ رہ سکیں۔ ان کے ہاں بھی کسی بزرگ انسان کو اللہ کا بیٹا قرار دینے کا عقیدہ پیدا ہوگیا ان مختلف تو ہمات میں دو قسم کے تصورات ہمیشہ خلط ملط ہوتے رہے۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جن کو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہے ہیں وہ اس ذات پاک کی نسبی اولاد ہے اور بعض نے یہ دعویٰ کیا کہ جس کو وہ اللہ کا بیٹا کہہ رہے ہیں اسے اللہ نے اپنا متبنی بنایا ہے اگرچہ ان میں سے کسی کی یہ جرات نہ ہوئی کہ معاذاللہ کسی کو اللہ کا باپ قرار دیں لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی ہستی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ توالد و تناسل سے پاک نہیں ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی انسان کی طرح اس قسم کی کوئی ہستی ہے جس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے اور جس کو لاولد ہونے کی صورت میں کسی کو بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو پھر انسانی ذہن اس گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ اسے بھی کسی کی اولاد سمجھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوالات رسول اللہ ﷺ سے پوچھے گئے تھے ان میں ایک سوال یہ تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے ؟ اور دوسرا یہ کہ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے اور کون اس کے بعد وارث ہوگا ؟ ان جاہلانہ مفروضات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ منطقی طور پر ان کو فرض کرلینے سے کچھ اور چیزوں کو بھی فرض کرنا لازم آتا ہے۔ اول یہ کہ خدا ایک نہ ہو بلکہ خداؤں کی کوئی جنس ہو اور اس کے افراد خدائی کے اوصاف ، افعال اور اختیارات میں شریک ہوں یہ بات خدا کی صرف نسبی اولاد فرض کرلینے ہی سے لازم نہیں آتی بلکہ کسی کو متبنی فرض کرنے سے بھی لازم آتی ہے کیونکہ کسی کا متبنی لا محالہ اس کا ہم جنس ہی ہو سکتا ہے اور جب معاذ اللہ وہ خدا کا ہم جنس ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدائی کے اوصاف بھی رکھتا ہے۔ دوم یہ کہ اولاد کا کوئی تصور اس کے بغر نہیں کیا جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے۔ پس اللہ کے لئے اولاد فرض کرنے سے لازم آتا ہے کہ معاذ اللہ وہ ایک مادی اور جسمانی وجود ہے۔ اس کی ہم جنس کوئی اس کی بیوی بھی ہو اور اس کے جسم سے کوئی مادہ بھی خارج ہو۔ سوم یہ کہ توالد و تناسل کا سلسلہ جہاں بھی ہے اس کی علت یہ ہے کہ افراد فانی ہوتے ہیں اور ان کی جنس کے باقی رہنے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے کہ ان سے اولاد پیدا ہو جس سے ان کی نسل آگے چلے۔ پس اللہ کے لئے اولاد فرض کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذات خود معاذ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذات خدا۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی کوئی ابتداء اور انتہا ہو کیونکہ توالد و تناسل پر جن اجناس کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے ان کے افراد نہ اذلی ہوتے ہیں نہ ابدی۔ چہارم یہ کہ کسی کو متبنی بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لاولد شخص اپنی زندگی میں کسی مددگار کا اور اپیف وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہوتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لئے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اس زات پاک کی طرف لازما وہی سب کمزوریاں منسوب کرنا ہے جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں۔ یہ سارا بیان تو اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کی نفی میں تھا اور اللہ کی اولاد نہ ہونا حق ہے اس پر جتنے دلائل دیئے جائیں یقیناً وہ بھی ” حق “ ہی ہوں گے۔ لیکن جب ” اولاد “ کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے “ تو وہ ولد کہلا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو ” قولد “ کہلائے وہ دو ہم جنس نر و مادہ کے اتصال ہی سے پیدا ہونا ضروری ہے جس میں ایک اس کی ماں اور دوسرا اس کا باپ کہلائے گا اور ان کے قسم سے ایک مادہ خارج ہو کر ہی اس کا جسم بننا لازم قرار پائے گا تب جا کر وہ ” ولد “ ہو سکے گا۔ اس طرح غور کرو کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ” ولد “ تھے یا نہیں ؟ قرآن کریم میں آپ کی زبان سے اعلان کرایا گیا کہ اے عیسیٰ تم خود اعلان کرو کہ میں ” ولد “ ہوں اس لئے کہ میں مریم کے ہاں ” ولد “ ہوا ہوں۔ مطلب صاف ہے کہ عیسیٰ علیہ اسلام ” ولد “ تھے اور آپ کے ولد ہونے کا ایک ثبوت تو آپ کی ماں مریم ہیں اور دوسرا ثبوت آپ کا باپ ہونا ضروری قرارپاتا ہے یا نہیں ؟ اللہ کے لئے اولاد ممکن نہیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟ اگر اللہ کی اولاد کوئی فرض کرتا ہے تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ کوئی اللہ کی بیوی بھی ہے۔ اگر وہ یہ نہ بتا سکے کہ اللہ کی کوئی بیوی ہے تو اس سے اللہ کی اولاد کی نفی خود بخود ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ” مولود “ موجود ہے یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی ماں موجود ہے۔ مریم (علیہما السلام) اور مریم کا ہم جنس جو مریم کے (ولد) عیسیٰ کا باپ ہو اس سے انکار ہے اور پھر یہ انکار صرف زبان کی حد تک ہے کہ لوگوں میں یہ معروف کردیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور علمائے کرام جانتے ہیں کہ اگر عوام کو وہ عقیدہ بتا دیا جائے جو حقیقت میں خواص یعنی علمائے کرام کا اپنا ہے تو عوام ہمارا جینا دو بھر کردیں گے۔ اس لئے عوام میں یہ مشہور کرنے ہی میں ان کی نجات ہے ورنہ ان کا اصل عقیدہ ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے بلکہ ان کا عقیدہ عیسیٰ علیہ لسلام کے باپ ہونے کا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ باپ کو ہم جنس تسلیم نہیں کرتے۔ چناچہ مذکور ہے کہ : ” عربی زباب میں لفظ ولد کا حقیقی اطلاق جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اس کے لئے اصلین کا ہونا ضروری ہے اور ولد کے لئے اگر اس کی ماں کی طرف نسبت ہو تو دوسرا اس کا باپ ہونا چاہئے۔ پس ولد کی ماں ولد کے باپ کے لئے صاجبہ یعنی بیوی ہوگی نیز ولد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اصلنر کے مادہ سے منفک ہو کر ہو یعنی ولاد کے لئے اصلین کی ضرورت ہے اور مادہ منفک بھی لازم ہے۔ پس لفظ ولد کے معنی ہیں جزء خاص یعنی جس کی جزئیت میں دو شخصوں کو دخل ہو اور اس طرح لفظ ” ابن “ بھی عربی زبان میں حقیقی طور پر ولد کا مترادف ہے۔ اس کے اطلاق کے لئے بھی یہی شرائط ہیں چونکہ مسیح کو ابن مریم سے قرآن کریم میں تعبیر کیا گیا ہے اس کے لیے بھی اصلین کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ان کی ماں مریم ، دوئم جبرئیل (علیہ السلام) جن کو دوسرے لفظوں میں روح القدس سے تعبیر کیا جاتا ہے جو حمل مسیح کا باعث ہوئے۔ “ (اثبات ِتوحید ص 19) ” اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ نر مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے۔ “ (تفہیم القرآن جلد ششم) ” پس مسیح پر چونکہ ولد مریم کا اطلاق کرتے ہیں اس لئے ضروری ہیں کہ اس کی والدہ ہو اور وہ مریم ہے اور دوسرا اصل جس کے اتصال کے علاوہ مسیح نہ پیدا ہوا۔ ہم اہل السلام کے نزدیک جبرئیل ہے جسے دوسری جگہ قرآن مجید میں روح القدس سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ بمنزلہ والد کے ہے۔ “ (اثبات توحید ص 45) علمائے السلام نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تسلیم کیا یا نہیں ؟ یقیناً تسلمد کیا۔ کس کو ؟ جبرئیل (علیہ السلام) کو چونکہ جبرئیل (علیہ السلام) مریم کے ہم جنس نہیں تھے اس لئے عوام میں یہ مشہور کردیا کہ ” عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ “ مزید تشریح کے لئے تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 46 تا 49 حاشیہ 110 تا 115 ملاحظہ کریں۔
Top