Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 62
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى فَلَوْ لَا تَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق عَلِمْتُمُ : جان لیا تم نے النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى : پہلی دفعہ کی پیدائش کو فَلَوْلَا تَذَكَّرُوْنَ : تو کیوں نہیں تم نصیحت پکڑتے
اور تم کو پہلی پیدائش کا تو علم ہے ہی (تم دنیا میں رہ کر آئے ہو) پھر تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟
تم کو پہلی بار پیدائش کا تو علم ہے ہی پھر تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے 62۔ فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنی پہلی پیدائش کو تو جانتے ہو کہ وہ کس طرح ہوئی سب کو معلوم ہے کہ باپ کی گالی ہی سے اولاد پیدا ہوتی ہے کیونکہ جس کو ولد کہتے ہیں اس کی پیدائش کے لیے یہی قانون اللہ نے مقرر کیا ہے اور اپنے ققانون کی خلاف ورزی اللہ تعالیٰ نہ کرتا ہے اور نہ ہی ہونے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کی پیدائش ایک جرثومہ سے کی اور پھر اس جرثومہ کو کن کن ادوار سے گزارتے ہوئے کیا کیا تبدیلیاں رونما کر کے انجام کا خلقا آخر کی شکل و صورت میں لاکر بچہ تمہارے سامنے پیش کردیا اگر تم ذرا غور و فکر کرو گے تو یقین کرلو گے کہ یہ پہلی شکل و صورت جس میں تم پیدا ہو اس کے بنانے میں نہ تمہار ذات کا کوئی دخل تھا اور نہ ہی تمہارے ماں باپ یا کسی دوسرے پیر و بزرگ کا کوئی حصہ ہے بلکہ جس طرح اللہ نے چاہا تمہاری شکل و صورت بنادی اور جب وہ تم کو دوسری پیدائش میں پیدا کرے گا تو یہ اس کی مرضی اور چاہت ہے کہ تم کو جو شکل و صورت بھی وہ عطا کردے لاریب وہ شکل و صورت تو انسان ہی کی ہوگی لیکن دنیاوی شکل سے زیادہ خوبصورت اور غیر مبدل یعنی ایک حالت پر ہمیشہ رہنے والی ہوگی۔ چناچہ اہل جنت کی شکلیں بہت ہی خوبصورت اور اہل دوزخ کی شکل و صورت بہت ہی کریہہ اور بد صورت ہونے کا ذکر واضح احادیث میں موجود ہے۔ جس طرح اس دنیوی شکل و صورت کا انحصار اس نطفہ اور جرثومہ پر ہوتا ہے کہ بچہ اپنے ننہال یا ددھیال کی شکلو صورت رکھتا ہے وہاں کی پیدائش کا انحصار انسان کے اعمال پر ہوگا جن لوگوں کے اعمال اچھے ہوں گے ان کی شکل و صورت بھی خوبصورت ہوگی اور جن کے اعمال اچھے نہیں ہوں گے لاریب ان کی شکل و صورت بھی اچھی نہیں ہوگی اور اسی طرح کی تبدیلی انسان کی اس دنیوی زندگی میں ہوتی رہتی ہے اور خصوصاً چہرہ کے تاثرات انسان کی نیکی اور بدی کا اظہارہ واضح طور پر کرتے رہتے ہیں۔ گنہگار کا چہرہ اس کے گناہ کی نشاندہی کردیتا ہے اور نیک عمل کرنے والے کا چہرہ اس کے نیک عمل کی نشاندہی کرتا ہے لیکن یہ تغیر اتنا واضح نہیں ہوتا تاہم چہرہ شناس اس صورت حال سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ انسان کا چہرہ اللہ تعالیٰ نے ایسا آئینہ بتایا ہے کہ اس سے اس کی غمی و خوشی ‘ نیکی اور بدی کے آثار نمایاں نظر آتے رہتے ہیں اور چاہے وہ ایک بات کا اظہار نہ کرے لیکن چہرہ اس کی اصل حقیقت کو واضح طور پر پیش کردیتا ہے اور یہ بات اہل علم و فکر سے تو قطعاً پوشیدہ نہیں ہے بلکہ انسان کا چہرہ اس کے اندرونی اعضاء کے افعال کی درستگی اور نادرستگی کی وضاحت بھی کردیتا ہے۔ ایک حاذق طبیب فقط چہرہ دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ اس آدمی کا جگر خراب ہے یا معدہ صحیح کام نہیں کرتا ‘ یہ گیس کا مریض ہے یا بواسیر نے اس کو تنگ کر رکھا ہے بلکہ بعض اوقات تو انسان کا چہرہ اس کی گزشتہ زندگی کی پوری وضاحت بھی پیش کردیتا ہے کہ اس کا بچپن کیساگزرا ہے اور یہ کیا کیا حرکتیں کرتا رہا ہے ؟ بہر حال زیر نظر آیت میں صاحب عقل و دانش سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ جب تم اپنی پہلی زندگی یعنی دنیوی زندگی کی پیدائش کو جانتے اور سمجھتے ہو تو تم کو اپنی دوسری زندگی سے کیوں انکار ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ اپنی پہلی زندگی پر غوروخوض کر کے دوسری زندگی کا یقین حاصل کرسکتے ہو بشرطیکہ تم اپنی پہلی زندگی پر غور و فکر کر کے یقین حاص کرنا چاہو۔
Top