Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 51
فَمَالِئُوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَۚ
فَمَالِئُوْنَ : پھر بھرنے والے ہو مِنْهَا الْبُطُوْنَ : اس سے پیٹوں کو
پھر اس سے پیٹ بھرنا ہو گا
پھر اس سے پیٹ بھرنا ہو گا 53۔ مطلب یہ ہے کہ کھانے کے لیے وہ پیش کر کے چھوڑ نہیں دیا جائے گا کہ کھانے والے چاہیں تو کھائیں ورنہ بھوک سے مرجائیں نہیں اور ہرگز نہیں کیونکہ موت کا تو وہاں تصور ہی نہیں ہوگا اور کھانے نہ کھانے کی آزادی بھی نہیں ہوگی بلکہ اس کے کھانے پر مجبور کردیا جائے گا کیونکہ وہ ایک عذاب ہے اور عذاب پر مرضی کام نہیں کرتی کہ چاہیں تو عذاب حاصل کرلیں اور نہ چاہیں تو نہ کریں نہیں بلکہ ان کو عذاب پر مجبور کردیا جائے گا۔ دوزخ اور آزادی اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ جو دوزخ میں داخل کیے جائیں گے ان کو بطور عذاب مجبور کردیا جائے گا وہ اس نامراد ملعون درخت کو کھائیں اور اس سے اپنے پیٹوں کو بھریں کیونکہ دنیا میں یہ لوگ حرام چیزوں کو پیٹ میں بھرتے رہے اگر مذہبی راہنما تھے تو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر کے اس کی مزدوری اور اجرت وصول کرتے رہے ‘ دین کے نام پر حرام کھانے کے وہ طریقے ایجاد کیے اور ان کو دین کا نام دیا جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور مردوں کو بخشوانے کے نام سے طرح طرح کی رسوم انھوں نے نکالی تھی محض اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے اور ظاہر ہے کہ ان کے ان اعمال کا نتیجہ بھی ایسا ہی نکلنا چاہئے تھا اور ایسا ہی نکلے گا اسی طرح سیاسی راہنمائوں نے قوم کا مال کھانے کے لیے طرح طرح کی سکیمیں نکالیں اور کیا کیا پاپڑ بیلتے رہے ظاہر ہے کہ ان کا انجام بھی ایسا ہی نکلنا چاہئے تھا کہ جس کی خاطر انھوں نے یہ کام کیے اس کی خاطر ُ س کو بھرنے کے لیے ان کو بطور عذاب تھوہر کے کھانے پر مجبور کردیا جائے گا اور اس سے وہ پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے جو یقینا بھرا ہی نہیں جائے گا کیونکہ دنیا میں یہ نامراد کسی سے بھرا نہ گیا تو آخرت کی تو بات ہی کیا ہے۔
Top