بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ : جب واقع ہوجائے گی الْوَاقِعَةُ : واقع ہونے والی (قیامت)
جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے گی
جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے گی 1 ؎ کسی چیز کی حقیقت کی اولین گرہ کشائی اس کے نام کی وضاحت سے ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں قیامت کے تقریباً 29 نام ذکر کئے گئے ہیں جن کو ہم پیچھے ذکر کرچکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک نام اس کے ایک خاص پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ اس کا پہلا نام جو قرآن کریم کی پہلی ہی سورت میں ذکر کیا گیا ہے۔ وہ (یوم الدین) ہے یعنی جزا و سزا کا دن اور زیر نظر آیت میں (الواقعہ) سے مراد بھی قیامت ہی کا دن ہے۔ قیامت کی احوال و اہوال کے پیش نظر اس کو وقوع پذیر ہونے والی کہا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا واقع ہونا حق ہے۔ اس کا واقع ہونا یقینی امر ہے۔ اس کے وقوع پذیر ہونے سے اس کو کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے واقع کرنے کا حکم اللہ رب کریم کی طرف سے ہے۔ یہ گویا ایک طرح کی تحدی اور چیلنج ہے جس کا اعلان کیا جا رہا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس طرح ہر ایک انسان کی موت کا ایک دن مقرر ہے اور کوئی نہیں جو اس سے بچ سکے اور کوئی نہیں جو اس سے بچا سکے تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ مرنے کا جی کسی کا بھی نہیں ہوتا لیکن ہر ایک شخص جو پیدا ہوا ہے ہو مرنے ہی کیلئے پیدا ہوا ہے خواہ وہ امیر ہے یا غریب ؟ موت تو ہر ایک چیز کو ہے لیکن ساری چیزوں میں سے بہتر اور اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان جو ایک دو نہیں ہزاروں چیزوں کا موجد ہے اور لاکھوں تجربات اس نے کئے ہیں لیکن موت کا کوئی علاج نہ وہ تجویز کرسکا اور نہ ہی کبھی کرسکے گا پھر جس طرح ہر ایک انسان کیلئے موت ہے اسی طرح پوری کائنات کی موت بھی یقینی ہے اور پھر جب سب کچھ درہم برہم ہوجائے گا تو پہلی بار پیدا کرنے والا اور اس نظام کو مربوط بنیادوں پر قائم کرنے والا ‘ دوبارہ انسانوں کو پیدا کرے گا تاکہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ان کو دیا جاسکے۔ جو شخص اس دنیا میں پیدا ہوا ہے وہ ہر حال میں عمل کرتا ہے اور بہت سے اعمال ایسے ہوتے ہیں جو زندہ رہتے ہیں لیکن عمل کرنے والا مر جاتا ہے پھر جب تک یہ نظام قائم ہے وہ اعمال جو زندہ ہیں خواہ وہ اچھے ہیں یا برے ان کا بدلہ بھی جاری وساری رہنا لازم و ضروری ہے اور یہ بدلہ اس کو تب ہی مل سکتا ہے کہ یا تو وہ اس کائنات کے نظام کے قائم رہنے تک زندہ رہے یا پھر دوبارہ اس نظام کے درہم برہم ہونے کے بعد اس کو زندہ کردیا جائے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کائنات کا نظام جاری ہے اور اعمال کرنے والے آتے ہیں اور جاتے ہیں یعنی آ رہے ہیں اور جا رہے ہیں اور پھرجانے والوں کو اس نظام کے درہم برہم ہونے کے بعد جب نظام قائم ہوگا تو یقینا ان کو زندہ کیا جائے گا اور یہی بات اس وقت کہی جا رہی ہے کہ جب واقع ہونے والی واقع ہوگی تو اس کے واقع ہونے کا یہی مقصد ہے کہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
Top