Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جو انسان دوسرے انسان کے ساتھ نیکی کے کام میں ملتا اور مددگار ہوتا ہے تو اسے اس کام میں حصہ ملے گا اور جو کوئی برائی میں دوسرے کے ساتھ مددگار ہوتا ہے تو اس کیلئے اس برائی میں حصہ ہوگا اور اللہ ہرچیز کا محافظ اور نگران ہے
نیکی میں تعاون نیکی ہے اور برائی میں تعاون برائی ، ہر تعاون کرنے والا خوب سمجھ لے : 147: آیت زیرنظر میں شفاعت یعنی کو اچھی اور بری دو قسموں میں تقسیم فرما کر اس کی حقیقت کو بھی واضح کردیا ہے اور یہ بھی بتلا دیا ہے کہ نہ ہر سفارش بری ہے اور نہ ہر سفارش اچھی اور یہ بھی بتا دیا کہ اچھی سفارش کرنے والے کو ثواب کا حصہ ملے گا اور بری سفارش کرنے والے کو عذاب کا۔ اس آیت میں اچھی سفارش کے ساتھ ” نَصِیْبٌ “ کا لفظ آیا ہے اور بری سفارش کے ساتھ ” کِفْلٌ “ کا اور لغت میں دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی کسی چیز کا ایک حصہ لیکن عرف عام میں لفظ ” نَصِیْبٌ “ اچھے حصے کے لیے بولا جاتا ہے اور لفظ کِفْلٌ برے حصہ کے لیے استعمال کرتے ہیں اگرچہ کہیں اچھے حصے کے لیے بھی لفظ ” کِفْلٌ “ استعمال ہوتا ہے اور صحیح یہ ہے کہ جب ایک دوسرے کے مقابلہ میں دونوں لفظ آئیں تو ” نَصِیْبٌ “ اچھے حصہ کو کہتے ہیں اور ” کِفْلٌ “ برے حصہ کو اور جب ایک ہی لفظ کا استعمال ہو تو جس چز کا ذکر ہو رہا ہے اس میں حصہ مراد ہوگا لفظ خواہ ” نَصِیْبٌ “ ہو یا ” کِفْلٌ “ شفاعت کے لفظی معنی ملنے یا ملانے کے ہیں ، اسی وجہ سے شفعہ عربی زبان میں جوڑے کے معنی میں آتا ہے اور اس کے بالمقابل لفظ وتر بمعنے طاق استعمال کیا جاتا ہے ، اس لیے شفاعت کے لفظی معنی یہ ہوئے کہ کسی کمزور طالب حق کے ساتھ اپنی قوت ملا کر اس کو قویٰ کردیا جائے ، یا بےکس اکیلے شخص کے ساتھ خود مل کر اس کو جوڑا بنا دیا جائے یعنی طاقتور کردیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جائز شفاعت و سفارش کے لیے ایک تو یہ شرط ہے کہ جس کی سفارش کی جائے اس کا مطالبہ حق اور جائز ہو ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے مطالبہ کو بوجہ کمزوری خود بڑے لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا ، آپ پہنچا دیں ، اس سے معلوم ہوا کہ خلافِ حق سفارش کرنا یا دوسروں کو اس کے قبول پر مجبور کرنا شفاعت سیہ یعنی بری سفارش ہے ، اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سفارش میں اپنے تعلق یا وجاہت سے طریقہ دباؤ اور اجبار کا استعمال کیا جائے تو وہ بھی ظلم ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ، اسی لیے وہ بھی شفاعت سیئہ میں داخل ہے۔ اب خلاصہ مضمون آیت مذکورہ کا یہ ہوگیا کہ جو شخص کسی شخص کے جائز حق اور جائز کام کے لیے جائز طریقہ پر سفارش کرے تو اس کو اس ثواب کا حصہ ملے گا اور اسی طرح جو کسی ناجائز کام کے لیے یا ناجائز طریقہ پر سفارش کرے گا اس کو عذاب کا حصہ ملے گا۔ حصہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص سے سفارش کی گئی ہے وہ جب اس مظلوم یا محروم کا کام کر دے تو جس طرح اس کام کرنے والے افسر کو ثواب ملے گا اسی طرح سفارش کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا۔ اسی طرح کسی ناجائز کام کی سفارش کرنے والا بھی گناہ گار ہوگا اور یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ سفارش کرنے والے کا ثواب یا عذاب اس پر موقوف نہیں کہ اس کی سفارش مؤثر اور کامیاب بھی ہو بلکہ اس کو بہرحال اپنا حصہ ملے گا۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے : الدال علی الخیر کفا علہ (رواہ البزار عن ابن مسعود والطبرانی عنہ وعن سہل بن سعد ، بحوالہ مظہری) ” یعنی جو شخص کسی نیکی پر کسی کو آمادہ کر دے اس کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ہے جیسا اس نیک عمل کرنے والے کو۔ “ اسی طرح ابن ماجہ کی ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من اعان علی قتل مؤمن بشطر کلمۃ لقی اللہ مکتوب بین عینیہ ائس من رحمۃ اللہ۔ (مظہری) ” یعنی جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں ایک کلمہ سے بھی مدد کی تو وہ قیامت میں حق تعالیٰ کی پیشی میں اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی پیشانی پر یہ لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم و مایوس ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح نیکی پر کسی کو آمادہ کرنا نیک عمل اور برابر کا ثواب رکھتا ہے اسی طرح بدی اور گناہ پر کسی کو آمادہ کرنا یا سہارا دینا بھی برابر کا گناہ ہے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا : وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقِیْتًا لفظ ” مُقِیْت “ کے معنی لغت کے اعتبار سے قادر و مقتدر کے بھی ہیں اور حاضر و نگراں کے بھی اور روزی تقسیم کرنے والے کے بھی اور اس جملہ میں تینوں معنی مراد ہو سکتے ہیں پہلے معنی کے اعتبار سے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ، عمل کرنے والے اور سفارش کرنے والے کی جزاء یا سزاء اس کے لیے دشوار نہیں۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر نگراں و حاضر ہے اس کو سب معلوم ہے کہ کون کس نیت سے سفارش کر رہا ہے ، محض لوجہ اللہ کسی بھلائی کی امداد کرنا مقصود ہے یا کوئی اپنی غرض بطور رشوت کے اس سے حاصل کرتا ہے۔ اور تیسرے معنی کے اعتبار سے مطلب یہ ہوگا کہ رزق و روزی کی تقسیم کا اللہ تعالیٰ خود متکفل ہے ، جتنا کسی کے لیے لکھ دیا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا ، کسی کی سفارش کرنے سے وہ مجبور نہیں ہوجائے گا ، بلکہ جس کو جتنی چاہے روزی عطا فرمائے گا ، البتہ سفارش کرنے والے کو مفت میں ثواب مل جائے گا کہ وہ ایک کمزور کی اعانت کر رہا ہے۔ حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : کان اللہ فی عون عبدہ ما دام فی عون اخیہ۔ ” یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندہ کی امداد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنی کسی مسلمان بھائی کی امداد میں لگا رہے۔ “ اسی بناء پر صحیح بخاری کی ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اشفعوا فلتوجروا و یقضی اللہ علی لسان نبیہ ما شاء۔ ” یعنی تم سفارش کیا کرو تمہیں ثواب ملے گا ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ جو فیصلہ فرمائیں اس پر راضی رہو۔ “ اس حدیث میں جہاں سفارش کا موجب ثواب ہونا بیان فرمایا ہے وہیں یہ بھی بتلایا کہ سفارش کی حد یہی ہے کہ کمزور آدمی جو خود اپنی بات کسی بڑے تک پہنچانے اور اپنی حاجت صحیح طور پر بیان کرنے پر قادر نہ ہو تم اس کی بات وہاں تک پہنچا دو ، آگے وہ سفارش مانی جائے یا نہ مانی جائے اور اس شخص کا مطلوبہ کام پورا ہو یا نہ ہو اس میں آپ کا کوئی دخل نہ ہونا چاہئے اور اس کے خلاف ہونے کی صورت میں آپ پر کوئی ناگواری نہ ہونی چاہئے۔ حدیث کے آخری جملہ میں ویقضیٰ اللہ علی لسان نبہت ما شاء کا یہی مطلب ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کہ سفارش کامیاب ہو بلکہ اس ثواب و عذاب کا تعلق مطلق سفارش کردینے سے ہے ، آپ نے شفاعت حسنہ کردی تو ثواب کے مستحق ہوگئے اور شفاعت سیئہ کردی تو عذاب کے مستوجب بن گئے ، خواہ آپ کی سفارش پر عمل ہو یا نہ ہو۔ تفسیر بحر محیط اور بیان القرآن وغیرہ میں مَنْ یَّشْفَعُ میں لفظ مِنْھَا کو سیسہ قرار دے کر اس کی طرف اشارہ بتلایا ہے اور تفسیر مظہری میں امام تفسیر مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ سفارش کرنے والے کو سفارش کا ثواب ملے گا اگرچہ اس کی سفارش قبول نہ کی گئی ہو اور یہ بات صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں ، کسی دوسرے انسان کے پاس جو سفارش کی جائے اس کا بھی یہی اصول ہونا چاہئے کہ سفارش کر کے آدمی فارغ ہوجائے اس کے قبول کرنے پر مجبور نہ کرے ، جیسا کہ خود رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی آزادہ کردہ کنیز سے سفارش فرمائی کہ طلاق تو نے اپنے شوہر مغیث سے حاصل کرلی ہے اور وہ اس کی محبت میں پریشان پھرتے ہیں دوبارہ انہی سے نکاح کرلے۔ بریرہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر یہ آپ ﷺ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر سفارش ہے تو میری طبیعت اس پر بالکل آمادہ نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حکم نہیں سفارش ہی ہے۔ بریرہ ؓ جانتی تھیں کہ رسالت مآب ﷺ کو خلافِ اصول کوئی ناگواری نہ ہوگی ، اس لیے صاف عرض کردیا کہ تو پھر میں یہ سفارش قبول نہیں کرتی ، آپ ﷺ نے خوش دلی کے ساتھ ان کو ان کے حال پر رہنے دیا۔ یہ تھی حقیقت سفارش کی جو شرعاً باعث اجر وثواب تھی ، آج کل لوگوں نے جو اس کا حلیہ بگاڑا ہے وہ درحقیقت سفارش نہیں ہوتی ، بلکہ تعلقات یا وجاہت کا اثر اور دباؤ ڈالنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی سفارش نہ مانی جائے تو ناراض ہوتے ہیں بلکہ دشمنی پر آمادہ ہوجاتے ہیں حالانکہ کسی ایسے شخص پر ایسا دباؤ ڈالنا کہ وہ ضمیر اور مرضی کے خلاف کرنے پر مجبور ہوجائے ، اکراہ و اجبار میں داخل اور سخت گناہ ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کے مال یا کسی کے حق پر زبردستی قبضہ کرلے ، وہ شخص شرعاً اور قانوناً آزد و خود مختار تھا ، آپ نے اس کو مجبور کر کے اس کی آزادی سلب کرلی اس کی مثال تو ایسی ہوگی کہ کسی محتاج کی حاجت پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے کے مال چرا کر اس کو دے دیا جائے۔ سفارش پر کچھ معاوضہ لینا رشوت ہی ہے جو حرام ہے : جس سفارش پر کوئی معاوضہ لیا جائے وہ رشوت ہے ، حدیث میں اس کو سحت و حرام رمایا ہے ، اس میں ہر طرح کی رشوت داخل ہے ، خواہ وہ مالی ہو یا یہ کہ اس کا کام کرنے کے عوض اپنا کوئی کام اس سے لیا جائے۔ تفسیر کشاف وغیرہ میں ہے کہ شفاعت حسنہ وہ ہے جس کا منشاء کسی مسلمان کے حق کو پورا کرنا ہو یا اس کو کوئی جائز نفع پہنچانا یا مضرت اور نقصان سے بچانا ہو اور یہ سفارش کا کام بھی دنیوی جو ڑتوڑ کے لیے نہ ہو بلکہ محض اللہ کے لیے کمزور کی رعایت مقصود ہو اور اس فارش پر کوئی رشوت مالی یا جانی نہ لی جائے اور یہ سفارش کسی ناجائز کام میں بھی نہ ہو ، نیز یہ سفارش کسی ایسے ثابت شدہ جرم کی معافی کے لیے نہ ہو جس کی سزا قرآن میں معین و مقرر ہے۔ تفسیر بحر محیط اور مظہری وغیرہ میں ہے کہ کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا بھی شفاعت حسنہ میں داخل ہے اور دعا کرنے والے کو بھی اجر ملتا ہے۔
Top