Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 82
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ : پھر کیا وہ غور نہیں کرتے الْقُرْاٰنَ : قرآن وَلَوْ كَانَ : اور اگر ہوتا مِنْ : سے عِنْدِ : پاس غَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَوَجَدُوْا : ضرور پاتے فِيْهِ : اس میں اخْتِلَافًا : اختلاف كَثِيْرًا : بہت
پھر کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے
اللہ کی باتوں میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا : 143: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ پھر کیا یہ لوگ قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ معلوم ہے کہ ” دبر “ کسے کہتے ہیں ؟ پیٹھ کو۔ پیٹھ کہاں ہوتی ہے ؟ پیچھے۔ اف ! توبہ قرآن اور پیچھے۔ ہاں ہاں ! قرآن اور پیچھے۔ تم نے کبھی یہ فقرہ نہیں سنا ؟ ” کہ یار تم اس بات کے پیچھے ہی لگ گئے ہو۔ “ اب غور کرو کہ پیچھے کا کیا مطلب ہے ؟ بس اس دبر سے تدبر ہے اور اسی سے تدبر اور تدبر کے معنی ہیں ” التکفیر فی دبر الامور “ (راغب) یعنی امور کے نتائج میں غور و فکر کرنا۔ قرآن کریم کی آیت کے اس حصہ کا مطلب کیا ہوا ؟ کہ قرآن کے پیچھے لگ جاؤ اس طرح کہ اس میں غور و فکر کرتے ہی رہو۔ بس غور و فکر کرتے ہی رہو اور پھر غور و فکر کرتے ہی رہو۔ ہاں ! یاد رکھو کہ پیچھے لگ جاؤ نہ یہ کہ اس کو پیچھے لگا لو۔ سمجھ لو کہ پیچھے لگ جانے اور پیچھے لگا لینے میں بڑا فرق ہے۔ اگر قرآن کریم کے پیچھے لگ جاؤ گے یعنی اس میں غور و فکر کرو گے ؟ یہ تمہارا وعدہ ہے تو پھر یاد رکھو کہ قرآن کریم میں کبھی اختلاف نہیں ہوتا اور یہی اس کے اللہ کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے۔ اگر غور و فکر کرنے سے کہیں اختلاف نظر آیا تو سمجھ جاؤ کہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ کیوں ؟ اس لیے کہ قرآن میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ پھر غور و فکر کرو۔ بس اس طریقہ سے قرآن کریم کے پیچھے لگے رہو۔ یقینا اختلاف ختم ہوجائے گا یا تم پر روشن ہوجائے گا کہ یہ اختلاف کسی دوسرے نے ڈالا تھا۔ جان بوجھ کر یا غلطی سے بس تم اس کے پیچھے مت پڑو کہ اختلاف کس نے ڈالا اور کیوں ڈالا ؟ غلطی سے یہ جان بوجھ کر۔ یہ زائد چیز ہے اگر تم اس کے پیچھے پڑگئے تو بہت دور نکل جاؤ گے اور اس طرح تم پر شیطان کا داؤ لگ جائے گا۔ اس کے پیچھے بالکل نہ پڑو بلکہ قرآن کریم کے پیچھے لگ جاؤ ۔ ہاں ! آگے پڑھو اور اس طرح اپنے اختلافات کا حل ڈھونڈتے رہو۔ یہی قرآن کریم میں تدبر ہے اور اس کا اس آیت میں حکم دیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے ؟ اگر تم نے اس طرح قرآن کریم پر غور کیا تو ان شاء اللہ نہ مذہبی ” بلڈ پریشر “ ہوگا اور نہ ” ذیابیطس “ نہ ” ہارٹ اٹیک “ ہوگا اور نہ ” خفقان قلب “ حاش اللہ نہ مذہبی ” ہیضہ “ ہوگا اور نہ ” قبض “۔ کیا تم کو آرام و سکون مطلوب نہیں ہے ؟ کیا تم ان بیماریوں سے نجات نہیں چاہتے ؟ اگر آرام و سکون مطولب ہے اور ان بیماریوں سے نجات چاہتے ہو تو قرآن کریم کا مطالعہ کرو اور نہایت غور و فکر کے ساتھ کرو۔ خاموشی کے ساتھ کرو اور الگ تھلگ ہو کر کرو۔ ایک آیت پڑھو اور اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرو پھر الفاظ کو جملوں میں استعمال کر کے غور کرو۔ پھر پوری آیت پر غور کرو اور اس کے بعد ایک آیت کو دوسرے کے ساتھ ملا کر غور کرو۔ حاشاء للہ تم کو اس سے جسمانی غذا بھی ملے گی اور روحانی غذا بھی۔ آج جس قدر پوری قوم میں مذہبی افراتفری ہے یا سیاسی کشمکش ہے شاید آج سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی اس کا اصل سبب قرآن کریم سے دوری ہے۔ ہمارے مذہبی راہنما بھی اتنے ہی قرآن کریم سے دوری ہیں جتنے سیاسی لیڈر ان سے بھی زیادہ دور۔ کیوں ؟ اس لیے کہ آپ کو اور مجھے حکم ملا کہ ” لاہور آؤ تاریخ اور وقت بھی بتایا اور آنے کا مقصد بھی۔ آپ نے میرے ساتھ کان لگایا لیکن میں جانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ آپ نے ما شاء اللہ ٹکٹ خرید لی اور ایئرکنڈیشن میں سیٹ بھی ریزرو کرا لی اور میرے پاس تشریف لے آئے اور مصروف کار ہوگئے کہ تاریخ آئی ، وہ وقت بھی نکل گیا اور وقت پر گاڑی بھی چھوٹ گئی لیکن تم میرے ساتھ ہی رہے۔ نتیجہ کیا نکلا ؟ اپنی مجلس میں آپ مجھے برا بھلا کہتے ہیں کہ میں نے ٹکٹ نہیں خریدی۔ میں آپ کو برا بھلا کہتا کہ وہ شامل نہیں ہوئے۔ دلائل آپ کے پاس بھی موجود ہیں بکنگ سیٹ بھی ہے اور ٹکٹ اور دلائل میرے پاس بھی موجود ہیں۔ آپ اپنا زور لگاتے رہیں میں اپنی طاقت صرف کرتا رہوں گا اور آپ کی میری لڑائی کا کوئی فائدہ ؟ قوم کے راہنما ہیں ” میں “ بھی اور ” آپ “ بھی۔ ایک ہم میں سے مذہبی راہنما ہے اور دوسرا سیاسی فیصلہ خود فرما لیں کہ مذہبی راہنما دین سے زیادہ دور ہے یا سیاسی لیڈر ؟ دونوں کی دوری میں کوئی شک نہیں یہ ” زیادہ “ اور ” کم “ پر لڑائی ہے جتنی دیر چاہتے ہو لڑتے رہو۔ قرآن کریم کی اس آیت پر ایک بار پھر غور کرلو ” پھر کیا یہ لوگ قرآن کریم میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے ؟ اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے۔ “ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اختلاف جتنے ہیں وہ سب لوگوں کے ڈالے ہوئے ہیں۔ پس ان کو مٹا دو ورنہ خود مٹ جاؤ گے۔ ماحصل اس آیت کا کیا ہوا ؟ 1۔ قرآن کریم کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب میں غور کرے ، پس یہ سمجھنا کہ وہ صرف اماموں اور مجتہدوں ہی کے سمجھنے کی چیز ہے صحیح نہیں ، ہاں ! جو سمجھ میں آئے کسی سمجھے ہوئے سے سمجھ لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ 2۔ غور و فکر ہی کرسکتا ہے جو مطالب سمجھنے کی دلچسپی رکھتا ہو۔ 3۔ جو اپنی سمجھ بوجھ سے کام لیتا ہو اور دلائل و وجوہ سے نتائج نکال سکے۔ پس مقلد اعمیٰ یعنی اندھی تقلید کرنے والا قرآن کریم میں غور و فکر کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ 4۔ جو شخص قرآن کریم میں تدبر کرتا ہے اس پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور جس پر حقیقت کھل جائے وہ قرآن کریم کے سوا زندہ نہیں رہ سکتا۔
Top