Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 75
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا١ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا١ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ
وَمَا : اور کیا لَكُمْ : تمہیں لَا تُقَاتِلُوْنَ : تم نہیں لڑتے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَ : اور الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : کمزور (بےبس) مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَ النِّسَآءِ : اور عورتیں وَ الْوِلْدَانِ : اور بچے الَّذِيْنَ : جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں (دعا) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخْرِجْنَا : ہمیں نکال مِنْ : سے ھٰذِهِ : اس الْقَرْيَةِ : بستی الظَّالِمِ : ظالم اَهْلُھَا : اس کے رہنے والے وَاجْعَلْ : اور بنا دے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس وَلِيًّۢا : دوست (حمایتی) وَّاجْعَلْ : اور بنادے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس نَصِيْرًا : مددگار
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ؟ (جب کہ انہوں نے تم سے جنگ شروع کردی ہے) حالانکہ کتنے ہی بےبس مرد ہیں ، کتنی ہی عورتیں ہیں ، کتنے ہی بچے ہیں جو فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے جہاں کے باشندوں نے ظلم پر کمر باندھ لی ہے (یعنی مکہ سے) نجات دلا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا دوست بنا دے اور کسی کو ہماری مددگاری کیلئے کھڑا کر دے
جو لوگ دین کے لیے ستائے جا رہے ہوں ان کی آزادی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ فرض اول ہے : 129: نبی اعظم و آخر ﷺ کی ہجرت کے بعد مکہ میں ایسے کمزور مسلمان رہ گئے تھے جو جسمانی ضعف اور کم سامانی کی وجہ سے ہجرت نہ کرسکتے تھے اور یہ بھی کہ روسائے مکہ ان کو ہجرت کرنے سے باز رکھے ہوئے تھے اور اس طرح طرح کی اذتییں ان کو دیتے تھے۔ آپ ﷺ کی موجودگی میں ان کے لیے مکہ والوں کے مظالم برداشت کرنا آسان تھا کیوں ؟ اس لیے کہ اپنی تکلیف کے بعد جب ان کی آنکھیں اپنے محبوب کو دیکھ لیتی تھیں تو ان کے سارے غم اور دکھ دور ہوجاتے تھے لیکن آپ ﷺ کی ہجرت کے بعد ان بےچاروں پر دوسرا عذاب شروع ہوگیا کفار کی مار اور دل آزاری اور اپنے پیارے رسول ﷺ کی آنکھوں سے نہ دیکھنے کا قلق اور ان کے لیے یہ دوسرا عذاب پہلے سے بھی سوا تھا۔ محبوب پر نگاہ ڈالنے کی لذت کیا ہے ؟ وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے دل میں محبت کا کوئی پہلو موجود ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ ” ہے ظلم تو نے پی ہی نہیں ؟ “ حاش اللہ جس کے سامنے دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ ایک جان کیا ہزار جانیں ہوں تو اس پر ایک ایک کر کے قربان کرنے کے لیے انسان تیار ہوجاتا ہے۔ کہیں کا نہ چھوڑا ہوئی جب سے الفت تمہاری ہماری ، ہماری تمہاری محبت یہ کیا ہے ، بڑھی آہ وزاری بڑی بےقراری ، بڑی بےقراری دل و چشم دونوں میں طوفان بپا ہے ادھر شعلہ باری ، ادھر لالہ زاری نہ جانے کیا کردیا تو نے جاناں ؟ ترے ہی کرم پر ہے اب جاں ہماری لگا تیر دل میں ہوئے نیم بسمل زہے دل سپاری زہے جاں نثاری تری زلف پیچاں میں ہوں یوں پریشاں ابھی خندہ زن ہوں ، ابھی گریہ طاری تصور میں تیرے میں سب کھو چکا ہوں یونہی دن بھی گزرا ، یونہی شب گزاری تصور میں تیرے میں سب کھو چکا ہوں یونہی دن بھی گزرا ، یونہی شب گزاری تری یاد نے مجھ کو ایسا ستایا اس میں تڑپتے کٹی عمر ساری جن لوگوں کے دلوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کے دریا موجزن تھے وہ چاہتے تھے کہ سب کچھ قربان کر کے اس بستی سے نکل جائیں اور ان راہبوں پر جانیں دیں جن راہوں سے گزرتا ہوا ہمارا محبوب مدینہ پہنچ گیا لیکن ان کے پاؤں کی زنجیروں نے ان کو جکڑ رکھا تھا اس حالت زار کے پیش نظر جہاد فرض ہوچکا تھا قرآن کریم کے اس حکم نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ تم ان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے جو مکہ اور اس کے اردگرد کی بستیوں میں گھرے ہوئے ہیں اور کفار کی قید سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آ ملنے کی کوئی راہ نہیں پا رہے ہیں ؟ جن کا حال یہ ہے کہ رات دن نہایت بےقراری سے یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے پروردگار ! ہمیں ان ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور غیب سے ہمارے ہمدرد پیدا کر اور غیب سے ہمارے ہمدرد پیدا کر اور غیب سے ہمارے لیے مددگار کھڑے کر دے اس طرح اس آیت نے کتنی ہی باتوں کو ظاہر کردیا۔ مثلاً : 1۔ یہ کہ اگر کہیں مسلمان اس طرح کی مظلومیت کی حالت میں گھر جائیں تو ان تمام مسلمانوں پر جو ان کی مدد کرنے کی پوزیشن ہوں جہاد فرض ہوجاتا ہے اگر وہ ان کی مدد کے لیے نہ اٹھیں تو سب کے سب گناہ گار ہوں گے بلکہ منافقت کی زد میں آئیں گے۔ 2۔ یہ کہ اس زمانے میں حالات اس قدر مایوس کن تھے کہ مظلوم مسلمانوں کو ظاہر میں نجات کی کوئی راہ بھی سجھائی نہ دے رہی تھی ، سارا بھروسہ بس اللہ ہی کی مدد پر تھا کہ وہی غیب سے ان کے لیے کوئی راہ کھولے تو کھولے لیکن اس کے باوجود یہ مسلمان اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ کیا شان تھی ان کی استقامت کی ! سچ ہے کہ پہاڑ بھی اس استقامت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ 3۔ یہ کہ ظالم کفار نے کمزور مسلمانوں پر خود ان کے وطن اس طرح تنگ کردی تھی کہ وہ اس وطن کو کاٹے کھا رہا تھا اور باوجودیکہ وطن کی محبت ایک فطری چیز ہے لیکن وہ اس سے اس قدر بیزار تھے کہ اس کو ظالم باشندوں کی بستی کہتے ہیں اور اس کی طرف کسی قسم کا انتساب اپنے لیے گوارا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ 4۔ یہ کہ کوئی وطن اسی وقت تک اہل ایمان کے لیے وطن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک اس کے اندر ان کے دین و ایمان کے لیے امن ہو اگر دین وا یمان کو اس میں امن حاصل نہ ہو تو وہ وطن نہیں بلکہ خونخوار درندوں کا بھٹ ، سانپوں ، اژدہوں کا مسکن اور شیطان کا مرکز ہے۔ 5۔ یہ کہ حالات کتنے ہی مایوس کن کیوں نہ ہوں مسلمانوں کو اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے اور جب تک جسم میں جان ہے مایوس ہو کر بیٹھ رہنا نہیں چاہئے حالات کے مطابق اپنی حالت کو بدلتے نہیں رہنا چاہئے بلکہ بقدر ہمت اپنے اصولوں کے مطابق انفرادی زندگی گزارنے میں ہمت کو چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے مالک حقیقی سے اپنی حالت کے بدلنے کی دعا جاری رکھنی چاہئے تا آنکہ انسان موت سے دو چار ہوجائے یا اللہ تعالیٰ حالات کو درست کرنے کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ ” چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو “ کا اصول اسلامی اصول نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں نبی اعظم و آخر ﷺ کا اسوہ حسنہ قرآن کریم نے اس طرح تعین فرمایا ہے کہ ” تیری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اے پروردگار ! مجھے جہاں کہیں پہنچا اور جہاں کہیں سے نکال تو سچائی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے حضور سے قوت عطا فرما ، ایسی قوت کہ ہر حال میں مددگاری کرنے والی ہو۔ “ (بنی اسرائیل : 80:17)
Top