Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 73
وَ لَئِنْ اَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَیَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهٗ مَوَدَّةٌ یّٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا
وَلَئِنْ : اور اگر اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچے فَضْلٌ : کوئی فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے لَيَقُوْلَنَّ : تو ضرور کہے گا كَاَنْ : گویا لَّمْ تَكُنْ : نہ تھی بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهٗ : اور اس کے درمیان مَوَدَّةٌ : کوئی دوستی يّٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں كُنْتُ : میں ہوتا مَعَھُمْ : ان کے ساتھ فَاَفُوْزَ : تو مراد پاتا فَوْزًا : مراد عَظِيْمًا : بڑی
اگر تم پر اللہ کا فضل و کرم ہو تو بےاختیار بول اٹھے گویا تم میں اور اس میں کوئی محبت کا رشتہ تھا ہی نہیں کہ اے کاش ! میں ان لوگوں کے ساتھ ہوتا کہ بہت کچھ کامیابی حاصل کر لیتا
اللہ کا فضل تمہارے شامل حال ہوگا تو وہ بھی محبت کا رشتہ تم سے جوڑیں گے : 127: کچھ باتیں زبان زدعام و خاص ہوتی ہیں اور ان کا انحصار زبان کے استعمال پر ہے۔ اس لیے صرف زبان سے کسی بات کے نکل جانے کا کچھ اعتبار نہیں کیا گیا جب تک کہ عمل اس کا ساتھ نہ دے۔ اسلام میں یہ اصول اتنا واضح ہے کہ اس کی مزید تشریح کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے انہوں نے جب تمہاری کامیابی کی خبر سنی تو ان کی زبان پر یہ جملہ وارد ہوگیا ” اے کاش ! میں ان لوگوں کے ساتھ ہوتا “ اور ان کے اس ایک جملے نے ان کی ساری حقیقت واضح کردی کیونکہ اس سے یہ بات خودبخود کھل کر سامنے آگئی کہ ” اس میں اور تم میں کوئی خاص تعلق محبت نہ تھا “ بلکہ اس کو اپنا وقتی فائدہ یاد آگیا کہ وہ کس طرح اس سے محروم ہوگیا ” اگر وہ بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بہت کامیابی حاصل کرلیتا۔ “ آخر یہ کہہ کر اس نے کامیابی کس کو قرار دیا ؟ دنیا کے مال کو حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کے مال کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ کامیابی کوئی اتنی بڑی کامیابی نہیں اصل کامیابی تو جہاد میں شریک ہو کر جنگ کرنا تھی۔ کیونکہ ایک سچا مسلمان میدان جنگ میں شریک ہو کر کبھی ناکام نہیں ہوتا وہ تو ہر حال میں کامیاب ہی رہتا ہے اگر شہید ہوگیا تو اس دنیا و آخرت کی دونوں کی کامیابی حاصل کرلی اور اگر غازی بن کر میدان جنگ سے واپس لوٹا تو دنیا کا مال بھی حاصل ہوا اور آخرت کا ثواب لازوال بھی۔ اس طرح دونوں حالتوں میں اس کو ایک سے ایک بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی۔ ان لوگوں کے اس تاسف اور افسوس کا ذکر قرآن کریم نے بار بار کیا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور اعرابیوں ہی میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو کچھ راہ حق میں خرچ کرتے ہیں اسے اپنے اوپر جرمانہ سمجھتے ہیں اور منتظر ہیں کہ تم پر کوئی گردش آجائے تو الٹ پڑیں حقیقت یہ ہے کہ گردش کے دن خود انہی پر آنے والے ہیں۔ “ (التوبہ : 98:9) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور دیکھو کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کی بندگی تو کرتے ہیں مگر دل کے جماؤ سے نہیں اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچ گیا تو مطمئن ہوگئے اگر کوئی آزمائش آگئی تو الٹے پاؤں اپنی کفر کی حالت پر لوٹ پڑے وہ دنیا میں بھی نامراد ہوئے اور آخرت میں بھی۔ “ (الحج : 11:22) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! اگر تمہیں کوئی اچھی بات پیش آجائے تو وہ انہیں بری لگے اور اگر کوئی مصیبت پیش آجائے تو کہنے لگیں اس خیال سے ہم نے اپنے لیے مصلحت بینی کرلی تھی اور پھر گردن موڑ کر خوش خوش چل دیں۔ “ (التوبہ : 50:9) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! تم دیکھو گے کہ جن کے دلوں میں نفاق ہے وہ ان لوگوں کی دوڑے جا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ان لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے کسی مصیبت کے پھیر میں نہ آجائیں۔ تو یقین کرو وہ وقت دور نہیں جب اللہ تمہیں فتح دے گا یا اس کی طرف سے کامیابی کی کوئی اور بات ظاہر ہوجائے گی اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر شرمندہ ہوں گے جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہے۔ “ (المائدہ : 53:5)
Top