Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے (ایمان والے) اَطِيْعُوا : اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاُولِي الْاَمْرِ : صاحب حکومت مِنْكُمْ : تم میں سے فَاِنْ : پھر اگر تَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑ پڑو فِيْ شَيْءٍ : کسی بات میں فَرُدُّوْهُ : تو اس کو رجوع کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَالرَّسُوْلِ : اور رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور بہت اچھا تَاْوِيْلًا : انجام
اے مسلمانو ! اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو تم میں حکم اور اختیار رکھتے ہوں ، پھر اگر ایسا ہو کہ کسی معاملہ میں باہم جھگڑ پڑو تو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ، اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اور اسی میں انجام کار کی خوبی ہے
مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکماء اسلام کی بھی : اس چھوٹے سے جملے میں اسلام کی ساری تعلیم بند کردی گئی اور کوئی پہلو اس کا ایسا نہ رہ گیا جو تشنہ ہو۔ اس میں اللہ کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کا اور ان حکماء وقت کی فرمانبرداری کا جو برسر اقتدار ہوں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف کوئی حکم نہ دیں۔ اللہ کی فرمانبرداری کیسے ؟ فرمایا رسول کی فرمانبرداری در اصل اللہ کی فرمانبرداری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی فرمانبرداری ممکن ہی نہیں جب تک کہ رسول کی فرمانبرداری نہ کی جائے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو براہ راست حکم نہیں دیتا بلکہ جو حکم اس نے انسان کی فطرت میں رکھ دیئے ہیں ان کی تشریح کے لئے بھی وہ رسول کو منتخب کرتا ہے کہ وہ انسانوں کو باور کرائے ان فطرت میں رکھی گئی باتوں کی خلاف ورزی نہ کرو اور پھر صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی تعلیم دے دے نہین بلکہ پریکٹیکل لوگوں کو کر کے دکھائے گا اس لئے کہ وہ بھی انسانوں ہی میں سے منتخب کیا ہوا ایک انسان ہے جو حوائج ضروریات دوسرے انسانوں میں رکھی گئی ہیں وہ ساری کی ساری اس کے اندر بھی موجود ہیں اور جو عقل و فکر اس کو دی گئی ہے وہ دوسرے انسانوں کو بھی فرق کیا ہے ؟ فرق یہ ہے کہ اس کی انسانیت کی تکمیل براہ رست اللہ نے کردی ہے اس کا انحصار دوسرے انسانوں پر نہیں رکھا پھر جب اس کی تکمیل ہوگئی تو پھر دوسرے انسانوں کی انسانیت کو بحال کرنے کے لئے اس کو منتخب کرلیا گیا اور اس کے ذمہ وہ کام لگائے گئے ایک اس انسانیت کے سنوارنے کی تعلمن اور دوسرے اس کے مطابق خود عمل بغیر نتیجہ اور کوئی نتیجہ بغیر عمل ممکن نہیں۔ پھر یہ بھی کہ جیسا عمل ہوگا ویسا ہی اس کا نتیجہ ظاہر ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر وہ عمل و فعل جس پر محمد رسول اللہ ﷺ کی مہر کی پہچان ؟ قرآن کریم کو ہم نے جب ہی قرآن مانا جب آپ ﷺ نے اس کے قرآن ہونے کا اعلان کیا اب قرآن کریم کے اعلان کے خلاف آپ ﷺ کا کوئی عمل ممکن نہیں ازیں بعد آپ ﷺ کی سنت کو محفوظ کرلیا گیا اور اس کی حفاظت کی گواہی قرآن کریم میں قائم کردی گئی اس طرح قرآن و سنت کے پیوند کو اتنا مضبوط کردیا گیا اور اس کی حفاظت کی گواہی قرآن کریم میں قائم کردی گئی اس طرح قرآن وسنت کے پیوند کو اتنا مظبوط کرلیا گیا اور اس کی حفاظت کی گواہی قرآن کریم میں قائم کردی گئ اس طرح قرآن و سنت کے پیوند کو اتنا مضبوط کردیا گیا جیسے پیٹ کو پشت سے اور پست کو پیٹ سے مضبوط کردیا گیا پیٹ بغیر پشت کے یا پشت بغیر پیٹ کے کوئی پوزیشن نہیں رکھتے یہ دونوں ایک دوسرے کے محافظ و نگہبان ہیں ایک کا انکار دوسرے کا انکار دوسرے کا انکار ہے لیکن ایک کا اقرار دوسرے کا اقرار نہیں ہاں ! ایک کا اقرار تب ہی اقرار ہوگا جب دوسرے کا بھی اقرار ہو۔ جس طرح ایک نوشتہ بہر حال طوشتہ ہے اس کے نوشتہ سے انکار نہیں لیکن جب تک اس پر مہر سرکار نہ ہوگی اس نوشتہ کی کوئی حققتی نہی لیکن مہر ثبت ہونے کے بعد نوشتہ وہی ہے اس میں ردو بدل بھی نہی ہوا لیکن اس پر جس مہر کی ضرورت تھی وہ موجود نہ تھی۔ جب اس پر وہ مہر ثبت ہوگئی تو اب اس نوشتہ کی ایک حیثیت قائم ہوگئی۔ اطاعت رسول کے بعد تیسرا نمبر حکام وقت کی اطاعت و فرمانبرداری کا ہے۔ پہلی دونوں فرمانبرداریاں لازم و ملزوم ہیں کہ ان میں سے کسی ایک فرمانبرداری سے سر پھیرا جائے تو اطاعت متصور ہی نہین ہوگی لیکن تیسری اطاعت مشروط ہے کہ حکام وقت کی اطاعت متصور ہی نہیں ہوگی لیکن تیسری اطاعت مشروط ہے کہ حکام وقت کی اطاعت اس وقت لازم ہے جب ان کا کوئی حکم پہلی قسم کی اطاعت یا دوسری قسم کی اطاعت کے خلاف نہ ہو اگر ان کا کوئی حکم پہلی اطاعت یا دوسری کے خلاف ہوا تو اس میں ان کی اطاعت و فرمانبردارای نہی ہوگی۔ فرمایا اگر صورت حال ایسی ہو تو ظاہر ہے کہ جھگڑا پیدا ہوگا کس کے درمیان ؟ حکام وقت اور ان کی اطاعت نہ کرنے والواں کے درمیان فرمایا اگر کہیں اسی صورت پیدا ہو جاے تو چونکہ حکام کی اطاعت ملق اطاعت نہین بلکہ مشرہط ہے اور مشروط کس سے ہے کہ ان کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ جب خلاف ہوگیا تو بظاہر جھگڑا ہوگیا پھر اس جھگڑے کا حل بھی یہی ہے کہ دونوں فریق مل کر اس جھگڑے کو دوبارہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کریں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول پر منطبق کر کے دیکھیں اگر خلاف نکلے تو ہر حال میں مردود ہوا موافق نکلے تو اطاعت و فرمانبراداری لازم ہوگی اور اس جھگڑے کو اللہ اور اس کے رسول یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر پیش کرنے سے پہلے فریقین کو اس بات کا پابدن کرنا ہوگا کہ معاملہ جس کے حق میں ہوگا دوسرے کو اسے تسلیم کرنا ہوگا ورنہ اسے سزار کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس بات کو خود رسول اللہ ﷺ نے اس طرح ارشاد فرمایا کہ افضل الجھاد کلمۃ الحق عند سلطان جائر۔ یہی وہ اصول تھا کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو انہوں نے اپنی اطاعت کو اس بات سے مشروط کردیا اور فرمایا کہ اطیعونی ما اطعت اللہ ورسولہ فان زعت فقومونی ” جب تک میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے احکام کی پابندی کروں تو تم میری اطاعت کرو اور اگر میں ان کی اطاعت سے انحراف کروں تو تمہارا فرض ہے کہ تم مجھے سیدھا کرو۔ “ چناچہ ابوبکر صدیق ؓ کا یہ اعلان گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس سے یہ بات روز روشن کی طرح صاف ہوجاتی ہے کہ خلیفہ یا بادشاہ وقت کی اطاعت مشروط ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت مشروط نہیں۔ بلا شبہ یہ آیت دستور مملکت اسلامی کی اصل و اساس ہے لیکن اسلام کے مختلف گروہوں نے جو اس کی تسریح کی ہے اس نے اس کو بہت کچھ نقصان پہنچایا ہے۔ اطاعت و فرمانبرادری کی تین عملی صورتیں ہیں جن کا سمجھنا ضروری ہے : ایک صورت یہ ہے کہ جس چیز کا حکم صراحتہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرما دیا ہے اور اس میں کسی تفصیل و تسریح کی مزید ضرورت نہیں جیسے کفرو شرک کا انتہائی جرم ہونا۔ اللہ وحدہ کی عبادت کرنا ، آخرت اور قیامت پر یقین رکھنا محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا آخری رسول ماننا۔ نماز قائم کرنا ، روز ، حج اور زکوٰۃ کو فرض سمجھنا اور ان ارکان اسلام کو بجا لانا یہ سب کام وہ ہیں جو براہ راست احکام ربانی ہیں اور ان کی تعمیل بلاشبہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے لیکن یہ ساری چیزیں رسالت کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں اس لئے قرآن کریم نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ رسول کی اطاعت ہی اصل میں اللہ کی اطاعت ہے۔ دوسرا حصہ ان احکام کا ہے جن میں تفصیل و تسریح کی ضرورت تھی اور اس میں وہ سارے احکام آجاتے ہیں جن کا قرآن کریم مجمل حکم دیتا ہے اور اسکی تشریح و تفصیل نبی و رسول کے حولاے سے کی جاتی ہتے پھر وہ تفصیل و تشریح جو رسول اپنے اسوہ حسنہ کے ذریعہ فرماتا ہے وہ بھی دین اسلام میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ عام لوگوں کے اجتہاد کی طرح نہیں ہوتی بلکہ وہ ملکہ نبوت کے تحت ہوتی ہے اور بلکہ نبوت نبوت سے خاص ہے جو عام لوگوں میں جو نبی نہیں وہ ملکہ نہیں ہوتا اس لئے عام لوگوں کے اجتہاد کی حیثیت سے اس کا مقام بہت بلند ہے بلکہ وہ دین کی اصل و اساس میں شامل ہے اور اس کو اسلام کی زبان سنت یا حدیث کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں کسی دوسرے انسان کو حق نہیں کہ کسی طرح کی ترمیم یا کمی بیشی کرے۔ پھر اس کے باوجود اگر کوئی اسی کوشش کرے تو وہ مستو جب سزا ہوگا اور پروگرام نبوت سے انکاری سمجھا جائے گا۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص رسالت کو تسلیم نہیں کرتا اگرچہ بظاہر وہ اقرار بھی کرتا ہے کیونکہ زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے انکار کرنا منافقت ہے اور منافق کبھی مسلمان نہیں ہوتا اگرچہ اس کو کافر بھی نہ کہا جاسکتا ہو یا نہ کہنا چاہیے کیونکہ ایسی حالت ہر انسان پر واضھ نہیں ہوتی۔ تیسرے درجہ کے احکام ہو ہیں جو قرآن کریم صراحتہً مذکور نہیں اور نہ ہی احادیث میں پوری طرح وضح ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ جدید حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور پھر ان حالات کے پیش نظر استنباط قرآن و سنت سے لازم آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں علامائے اسلام اور حکمائے اسلام کا ملا جلا کام ہے کہ وہ ضرورت وقت کے مطابق اس میں نرمی و سختی کرنے کے مجاز ہیں اور یہی وہ کام ہیں جو فروعات کہلاتے ہیں جو اصولوں کے تابع ہوتے ہیں تاہم ان میں اگر اختلاف ہوگا تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوگا بلکہ ان کی برکات سے لوگ مستفید ہوں گے اور حالات کے پیش نظر ان میں لچک بھی ڈالی جاسکے گی۔ ان احکام میں بہت زیادہ وسعت رکھی گئی اور اس وسعت سے فائدہ حاصل کرنے میں کسی گروہ کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے کو مطعون کرے بلکہ ہر انسان کو حق ہے کہ ان میں کلام کرسکے اور اپنے نظریات کو کھل کر بیان کرے۔ ہاں ! ان فروعات کو اصول بنانا اور اصولوں کو فروعات کے درجہ سے بھی گراد ینا بہت بڑا ظلم ہے بلکہ یہ ایک قسم کا حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے یا اسلام کی عاطا کردہ وسعت سے غلط فائدہ حاصل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اس لئے حکومت اسلامی کو اجازت ہے کہ ان میں زمانہ کے حالات کے مطابق ترمیم یا نرمی سختی کرے اور باقاعدہ قانون کا درجہ دے کر دکسی کو حدود سے تجاوز نہ کرنے دے۔ اس لئے ہر زمانہ میں ایک مشاورتی کونسل ہونا اصول اسلامی میں داخل ہے اور اس میں بہت بڑی وسعت موجود ہے لیکن اس میں جتنی وسعت تھی آج ہم نے اس کو اتنا ہی تنگ کر کے رکھ دیا اور اس پر اسلام کی بنیاد کھڑی کردی ذرا کسی کو اپنے نظریات کے خلاف پایا تو کفر کا فتویٰ صادر کردیا اور اس سلسلہ میں حکومت اسلامی نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی جس وجہ سے نئی نئی فرقہ بندیاں پیدا ہوگئیں اور اس وقت ھالت اتنی ناگفتہ بہ ہوگئی کہ جس کے سدھرنے کی کوئی شک بظاہر نظر ہی نہیں آتی کیوں ؟ اس لئے کہ جن لوگوں کا یہ کام تھا انہوں نے اس سے کلی طور پر منہ پھیرلیا بلکہ اس کو اپنجی ذمہ داری ہی تصور نہ کیا اور لوگوں کو لڑنے مرنے کا موقع فرایم کردیا۔ اوپر کے پہلے دو قسم کے احکام جن کے نفاذ کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر لازم و ضروری تھی حکومت نے اسلام حکومت کہلانے کے باوجود ان کے نفاذ سے نکار کردیا اور صاف صاف یہ کہہ دیا کہ یہ کسی اسلامی حکومت کا کام ہی نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی فرضیت ظاہر ہے اس لئے براہ راست مسلم کا اپنا فرض ہے کہ وہ اس کو جس طرح چاہے پورا کرے یہی وہ سب سے بڑا ظلم ہے جو حکومت نے اسلامی حکومت کہلانے کے باوجود آج تک روا رکھا ہے اور اسلام کے اندر کی گروہ بندی نے اپنا پانا وجود قائم رکھنے کے لئے دوسرے لفظوں میں مسلمان کہلانے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کے لئے آج تک کسی حکومت کو یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لئے نہیں کہا وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر حکومت نے یہ ذمہ داری سنبھال لی تو ہماری سیادت و قیادت کی وہ عمارت یک قلم ڈھیر ہو کر رہ جائے گی۔ اور حکومتی ارکان نے یہ سمجھا کہ ان لوگوں کو اس طرح لڑنے دو تاکہ حکومت کی باگ ڈور گنے چنے آڈمیوں کے ہاتھوں میں رہ سکے اگر اس کام کو ہاتھ لگایا تو حکومت ہی کب ہماری حکومت رہے گی وہ تو فطرۃ ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجایے گی جو اس کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اس لئے نجات اس میں ہے کہ دین اسلام باقائدہ ، ” اودھوں کا ڈھیر رہے “ اور یہ لوگ لڑتے جھگڑتے رہیں اور ہم ان سب کے فیصلے مٹانے کے لئے حکومت کی کرسیوں پر براجمان رہ سکیں۔ اس سوچی سمجھی سکیم کے تحت حکومت کے ارکان اور طبقہ عماء کے گرد گھنٹال سب اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے خوب زور زور سے نعرہ بازی کر رہے ہیں کہ اسلام زندہ باد۔ ہم آئیں گے تو اسلام لائیں گے۔ ہم رہیں گے تو اسلام رہے گا۔ اس طرح اسلام اسلام کے اس شور نے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آنے دیا کہ اسلام کیا ہے ؟ اور کہاں ہے ؟ اگر کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو اس کا حل کیا ہے ؟ 111: اس تیسری قسم کی اطاعت میں جس کو اولو الامر کی اطاعت کہا گیا ہے چونکہ اختلاف کا احتمال تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی ارشاد فرما دیا کہ اسی حالت پیدا ہوجائے تو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ “ اس طرح تمہارا اندر کا اختلاف ختم کرنے کیے لئے تمہیں پھر اس اطاعت کی طرف آنا ہوگا جو اطاعت مشروط نہیں بلکہ اصل و اساس ہے اور اس میں حکومت اور عوام دونوں اس کے پابند ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جس طرح عوام نے اسلام قبول کیا ہے ارکان حکومت نے بھی اسے قبول کیا ہے اس میں عوام اور ارکان حکومت میں کوئی فرق نہیں کہ سب امت مسلمہ میں داخل ہیں۔ ان کے لئے رسول کی حیثیت محض پیغام پہنچا دینے والے کی نہیں ہے بلکہ رسول ان سب کا معلم و مربی ہے اور اسلامی زندگی کا ایک نمونہ ہے اور وہ ایسا امیر ہے جس کی اطاعت ہر زمانہ میں بےچون و چرا کی جانی چاہیے اور اس کی ہدایت خود قرآن کریمے دی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب : 21:33) ” تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ میں اسوہ حسنہ ہے۔ “ وما ینطق عن الوھوی ان ھو الا وحی یوحی (النجم : 4:3:53) ” رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ وہی کچھ حکم دیتا ہے جو اس کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ “ گویا رسول کی حیثیت مسلمانوں کے امیر کی ہے وہ مسلمان عوام ہوں یا امراء و حکماء یعنی وہ سارے امیروں کا بھی ہے اور وہ ایسا سمیر بھی نہیں جس سے نزاع کی جائے بلکہ وہ ایسا امیر ہے جس کے حکم کو بےچون و چرا ماننا ویسا ہی فرض ہے جیسا اللہ کی ذات کو اور قرآن کریم کے اللہ کا کلام ہونے کو۔ وہ ایسا امیر ہے جو قیامت تک کے لئے پوری امت مسلمہ کا امیر ہے۔ وہ ایسا امیر ہے جس کی امارت اس وقت تک قائم ہے جب تک یہ نظام عالم قائم ہے۔ پہلی دونوں قسم کی اطاعتوں میں کوئی سوال جھگڑنے کا نہیں اور تیسری اطاعت میں احتمال موجود ہے پھر اگر ایس احتمال پیدا ہوجائے تو اس کا حل واضح کردیا اس بات کو ایک مثال سے سمجھ لینا مفید ہوگا تا کلہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ بخاری اور دوسری کتب حدیچ میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر کو روانہ کیا جس کا امیر ایک انصاری کو مقرر فرمایا۔ راستہ میں امیر کو اپنے ساتھیوں پر کسی معاملہ میں غصہ آگیا۔ بیشک حکم دیا ہے پھر اس نے آگ جلوائی اور اس ساتھیوں سے کہا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ اس کے اندر کود جاؤ ۔ ایک نوجوان نے کہا کہ ہم تو آگ سے بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ہیں پس جلدی مت کرو یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے مل لیں اس طرح اس حکم کی تعمیل نہ ہوئی اور لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب واپس آے تو یہ واقعہ بھی آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا آپ ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرما کیا کہ اگر تم اس آگ میں داخل ہوجاتے تو پھر کبھی نہ نکل پاتے یاد رکھو کہ ” اطاعت صرف معروف باتوں میں ہے۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” مسلمان پر وجب ہے کہ وہ قبول کرلے اور فرمانبرداری کرے خواہ ایک بات کو پسند کرے یا اسے ناپسند کرے جب تک کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم نہیں دیا جاتا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر قبول کرنا نہیں ہے اور نہ اس کی اطاعت ہے۔ “ ہاں ! اس میں یہ احتمال ہے کہ جس کو حکم دیا گیا وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ حکم اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف ہے اور اس نے اس پر عمل کردیا تو ظاہر ہے کہ ایسے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے مستو جب سزا نہیں ہوگا بلکہ اصل مستو جب سزا تو حکم دینے والا ہے اس پر عمل کرنے والا نہں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اولو الامر کی اطاعت اصل میں اتحاد جماعت کا نام ہے جب تک سب حکم دے جس کو وہ پسند نہ کرے جس کو حکم دیا گیا تو پھر بھی اس کا و بجا لانا ضروری ہے کیونکہ اس میں معیار پسند یا ناپسند نہیں بلکہ اطاعت رسول کے خلاف ہونا ہے جب ت کی ایسی بات نہ ہو تو کسی شخص کے پسند نہ پسند سے کچھ اثر نہیں ہوگا اور اگر وہ فعل صر عمل کرنے والے کی پسند کے خلاف ہو اس لئے وہ اس پر عمل نہ کرے تو وہ مستو جب سزا ہوگا کیونکہ اس نے جماعت کے پورے نظم کو توڑنے کی کوشش کی جس کا اس کو حق نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور امراء اسلام کی اطاعت میں جو بنیادی فرق ہے اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر ایک امیر کو اس کی امار سے جبکہ وہ امارت کا غلط استعمال شروع کر دے الگ کیا جاسکتا ہے لیکن کوئی رسول نہ تو اپنی رسالت سے تجاوز کرسکتا تھا اور نہ ہی اس کو رسالت کے منصب سے کوئی الگ کرسکتا تھا۔ اور امراء کی حقیقت یہ ہے کہ ہر امیر کا انتخاب انسان خود کرتے ہیں لیکن کسی رسول کی رسالت میں کسی انسان کا کوئی مشورہ یا اشارہ تک نہیں پایا جاتا تھا۔ اور امارات کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا جب کہ سلسلہ رسالت و نبوت کو محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم کردیا گیا۔
Top