Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْٓا
: ایمان لائے (ایمان والے)
اَطِيْعُوا
: اطاعت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاَطِيْعُوا
: اور اطاعت کرو
الرَّسُوْلَ
: رسول
وَاُولِي الْاَمْرِ
: صاحب حکومت
مِنْكُمْ
: تم میں سے
فَاِنْ
: پھر اگر
تَنَازَعْتُمْ
: تم جھگڑ پڑو
فِيْ شَيْءٍ
: کسی بات میں
فَرُدُّوْهُ
: تو اس کو رجوع کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف
وَالرَّسُوْلِ
: اور رسول
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ
: تم ایمان رکھتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور روز
الْاٰخِرِ
: آخرت
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
وَّاَحْسَنُ
: اور بہت اچھا
تَاْوِيْلًا
: انجام
اے مسلمانو ! اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو تم میں حکم اور اختیار رکھتے ہوں ، پھر اگر ایسا ہو کہ کسی معاملہ میں باہم جھگڑ پڑو تو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ، اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اور اسی میں انجام کار کی خوبی ہے
مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکماء اسلام کی بھی : اس چھوٹے سے جملے میں اسلام کی ساری تعلیم بند کردی گئی اور کوئی پہلو اس کا ایسا نہ رہ گیا جو تشنہ ہو۔ اس میں اللہ کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کا اور ان حکماء وقت کی فرمانبرداری کا جو برسر اقتدار ہوں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف کوئی حکم نہ دیں۔ اللہ کی فرمانبرداری کیسے ؟ فرمایا رسول کی فرمانبرداری در اصل اللہ کی فرمانبرداری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی فرمانبرداری ممکن ہی نہیں جب تک کہ رسول کی فرمانبرداری نہ کی جائے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو براہ راست حکم نہیں دیتا بلکہ جو حکم اس نے انسان کی فطرت میں رکھ دیئے ہیں ان کی تشریح کے لئے بھی وہ رسول کو منتخب کرتا ہے کہ وہ انسانوں کو باور کرائے ان فطرت میں رکھی گئی باتوں کی خلاف ورزی نہ کرو اور پھر صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی تعلیم دے دے نہین بلکہ پریکٹیکل لوگوں کو کر کے دکھائے گا اس لئے کہ وہ بھی انسانوں ہی میں سے منتخب کیا ہوا ایک انسان ہے جو حوائج ضروریات دوسرے انسانوں میں رکھی گئی ہیں وہ ساری کی ساری اس کے اندر بھی موجود ہیں اور جو عقل و فکر اس کو دی گئی ہے وہ دوسرے انسانوں کو بھی فرق کیا ہے ؟ فرق یہ ہے کہ اس کی انسانیت کی تکمیل براہ رست اللہ نے کردی ہے اس کا انحصار دوسرے انسانوں پر نہیں رکھا پھر جب اس کی تکمیل ہوگئی تو پھر دوسرے انسانوں کی انسانیت کو بحال کرنے کے لئے اس کو منتخب کرلیا گیا اور اس کے ذمہ وہ کام لگائے گئے ایک اس انسانیت کے سنوارنے کی تعلمن اور دوسرے اس کے مطابق خود عمل بغیر نتیجہ اور کوئی نتیجہ بغیر عمل ممکن نہیں۔ پھر یہ بھی کہ جیسا عمل ہوگا ویسا ہی اس کا نتیجہ ظاہر ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر وہ عمل و فعل جس پر محمد رسول اللہ ﷺ کی مہر کی پہچان ؟ قرآن کریم کو ہم نے جب ہی قرآن مانا جب آپ ﷺ نے اس کے قرآن ہونے کا اعلان کیا اب قرآن کریم کے اعلان کے خلاف آپ ﷺ کا کوئی عمل ممکن نہیں ازیں بعد آپ ﷺ کی سنت کو محفوظ کرلیا گیا اور اس کی حفاظت کی گواہی قرآن کریم میں قائم کردی گئی اس طرح قرآن و سنت کے پیوند کو اتنا مضبوط کردیا گیا اور اس کی حفاظت کی گواہی قرآن کریم میں قائم کردی گئی اس طرح قرآن وسنت کے پیوند کو اتنا مظبوط کرلیا گیا اور اس کی حفاظت کی گواہی قرآن کریم میں قائم کردی گئ اس طرح قرآن و سنت کے پیوند کو اتنا مضبوط کردیا گیا جیسے پیٹ کو پشت سے اور پست کو پیٹ سے مضبوط کردیا گیا پیٹ بغیر پشت کے یا پشت بغیر پیٹ کے کوئی پوزیشن نہیں رکھتے یہ دونوں ایک دوسرے کے محافظ و نگہبان ہیں ایک کا انکار دوسرے کا انکار دوسرے کا انکار ہے لیکن ایک کا اقرار دوسرے کا اقرار نہیں ہاں ! ایک کا اقرار تب ہی اقرار ہوگا جب دوسرے کا بھی اقرار ہو۔ جس طرح ایک نوشتہ بہر حال طوشتہ ہے اس کے نوشتہ سے انکار نہیں لیکن جب تک اس پر مہر سرکار نہ ہوگی اس نوشتہ کی کوئی حققتی نہی لیکن مہر ثبت ہونے کے بعد نوشتہ وہی ہے اس میں ردو بدل بھی نہی ہوا لیکن اس پر جس مہر کی ضرورت تھی وہ موجود نہ تھی۔ جب اس پر وہ مہر ثبت ہوگئی تو اب اس نوشتہ کی ایک حیثیت قائم ہوگئی۔ اطاعت رسول کے بعد تیسرا نمبر حکام وقت کی اطاعت و فرمانبرداری کا ہے۔ پہلی دونوں فرمانبرداریاں لازم و ملزوم ہیں کہ ان میں سے کسی ایک فرمانبرداری سے سر پھیرا جائے تو اطاعت متصور ہی نہین ہوگی لیکن تیسری اطاعت مشروط ہے کہ حکام وقت کی اطاعت متصور ہی نہیں ہوگی لیکن تیسری اطاعت مشروط ہے کہ حکام وقت کی اطاعت اس وقت لازم ہے جب ان کا کوئی حکم پہلی قسم کی اطاعت یا دوسری قسم کی اطاعت کے خلاف نہ ہو اگر ان کا کوئی حکم پہلی اطاعت یا دوسری کے خلاف ہوا تو اس میں ان کی اطاعت و فرمانبردارای نہی ہوگی۔ فرمایا اگر صورت حال ایسی ہو تو ظاہر ہے کہ جھگڑا پیدا ہوگا کس کے درمیان ؟ حکام وقت اور ان کی اطاعت نہ کرنے والواں کے درمیان فرمایا اگر کہیں اسی صورت پیدا ہو جاے تو چونکہ حکام کی اطاعت ملق اطاعت نہین بلکہ مشرہط ہے اور مشروط کس سے ہے کہ ان کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ جب خلاف ہوگیا تو بظاہر جھگڑا ہوگیا پھر اس جھگڑے کا حل بھی یہی ہے کہ دونوں فریق مل کر اس جھگڑے کو دوبارہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کریں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول پر منطبق کر کے دیکھیں اگر خلاف نکلے تو ہر حال میں مردود ہوا موافق نکلے تو اطاعت و فرمانبراداری لازم ہوگی اور اس جھگڑے کو اللہ اور اس کے رسول یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر پیش کرنے سے پہلے فریقین کو اس بات کا پابدن کرنا ہوگا کہ معاملہ جس کے حق میں ہوگا دوسرے کو اسے تسلیم کرنا ہوگا ورنہ اسے سزار کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس بات کو خود رسول اللہ ﷺ نے اس طرح ارشاد فرمایا کہ افضل الجھاد کلمۃ الحق عند سلطان جائر۔ یہی وہ اصول تھا کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو انہوں نے اپنی اطاعت کو اس بات سے مشروط کردیا اور فرمایا کہ اطیعونی ما اطعت اللہ ورسولہ فان زعت فقومونی ” جب تک میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے احکام کی پابندی کروں تو تم میری اطاعت کرو اور اگر میں ان کی اطاعت سے انحراف کروں تو تمہارا فرض ہے کہ تم مجھے سیدھا کرو۔ “ چناچہ ابوبکر صدیق ؓ کا یہ اعلان گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس سے یہ بات روز روشن کی طرح صاف ہوجاتی ہے کہ خلیفہ یا بادشاہ وقت کی اطاعت مشروط ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت مشروط نہیں۔ بلا شبہ یہ آیت دستور مملکت اسلامی کی اصل و اساس ہے لیکن اسلام کے مختلف گروہوں نے جو اس کی تسریح کی ہے اس نے اس کو بہت کچھ نقصان پہنچایا ہے۔ اطاعت و فرمانبرادری کی تین عملی صورتیں ہیں جن کا سمجھنا ضروری ہے : ایک صورت یہ ہے کہ جس چیز کا حکم صراحتہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرما دیا ہے اور اس میں کسی تفصیل و تسریح کی مزید ضرورت نہیں جیسے کفرو شرک کا انتہائی جرم ہونا۔ اللہ وحدہ کی عبادت کرنا ، آخرت اور قیامت پر یقین رکھنا محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا آخری رسول ماننا۔ نماز قائم کرنا ، روز ، حج اور زکوٰۃ کو فرض سمجھنا اور ان ارکان اسلام کو بجا لانا یہ سب کام وہ ہیں جو براہ راست احکام ربانی ہیں اور ان کی تعمیل بلاشبہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے لیکن یہ ساری چیزیں رسالت کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں اس لئے قرآن کریم نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ رسول کی اطاعت ہی اصل میں اللہ کی اطاعت ہے۔ دوسرا حصہ ان احکام کا ہے جن میں تفصیل و تسریح کی ضرورت تھی اور اس میں وہ سارے احکام آجاتے ہیں جن کا قرآن کریم مجمل حکم دیتا ہے اور اسکی تشریح و تفصیل نبی و رسول کے حولاے سے کی جاتی ہتے پھر وہ تفصیل و تشریح جو رسول اپنے اسوہ حسنہ کے ذریعہ فرماتا ہے وہ بھی دین اسلام میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ عام لوگوں کے اجتہاد کی طرح نہیں ہوتی بلکہ وہ ملکہ نبوت کے تحت ہوتی ہے اور بلکہ نبوت نبوت سے خاص ہے جو عام لوگوں میں جو نبی نہیں وہ ملکہ نہیں ہوتا اس لئے عام لوگوں کے اجتہاد کی حیثیت سے اس کا مقام بہت بلند ہے بلکہ وہ دین کی اصل و اساس میں شامل ہے اور اس کو اسلام کی زبان سنت یا حدیث کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں کسی دوسرے انسان کو حق نہیں کہ کسی طرح کی ترمیم یا کمی بیشی کرے۔ پھر اس کے باوجود اگر کوئی اسی کوشش کرے تو وہ مستو جب سزا ہوگا اور پروگرام نبوت سے انکاری سمجھا جائے گا۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص رسالت کو تسلیم نہیں کرتا اگرچہ بظاہر وہ اقرار بھی کرتا ہے کیونکہ زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے انکار کرنا منافقت ہے اور منافق کبھی مسلمان نہیں ہوتا اگرچہ اس کو کافر بھی نہ کہا جاسکتا ہو یا نہ کہنا چاہیے کیونکہ ایسی حالت ہر انسان پر واضھ نہیں ہوتی۔ تیسرے درجہ کے احکام ہو ہیں جو قرآن کریم صراحتہً مذکور نہیں اور نہ ہی احادیث میں پوری طرح وضح ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ جدید حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور پھر ان حالات کے پیش نظر استنباط قرآن و سنت سے لازم آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں علامائے اسلام اور حکمائے اسلام کا ملا جلا کام ہے کہ وہ ضرورت وقت کے مطابق اس میں نرمی و سختی کرنے کے مجاز ہیں اور یہی وہ کام ہیں جو فروعات کہلاتے ہیں جو اصولوں کے تابع ہوتے ہیں تاہم ان میں اگر اختلاف ہوگا تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوگا بلکہ ان کی برکات سے لوگ مستفید ہوں گے اور حالات کے پیش نظر ان میں لچک بھی ڈالی جاسکے گی۔ ان احکام میں بہت زیادہ وسعت رکھی گئی اور اس وسعت سے فائدہ حاصل کرنے میں کسی گروہ کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے کو مطعون کرے بلکہ ہر انسان کو حق ہے کہ ان میں کلام کرسکے اور اپنے نظریات کو کھل کر بیان کرے۔ ہاں ! ان فروعات کو اصول بنانا اور اصولوں کو فروعات کے درجہ سے بھی گراد ینا بہت بڑا ظلم ہے بلکہ یہ ایک قسم کا حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے یا اسلام کی عاطا کردہ وسعت سے غلط فائدہ حاصل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اس لئے حکومت اسلامی کو اجازت ہے کہ ان میں زمانہ کے حالات کے مطابق ترمیم یا نرمی سختی کرے اور باقاعدہ قانون کا درجہ دے کر دکسی کو حدود سے تجاوز نہ کرنے دے۔ اس لئے ہر زمانہ میں ایک مشاورتی کونسل ہونا اصول اسلامی میں داخل ہے اور اس میں بہت بڑی وسعت موجود ہے لیکن اس میں جتنی وسعت تھی آج ہم نے اس کو اتنا ہی تنگ کر کے رکھ دیا اور اس پر اسلام کی بنیاد کھڑی کردی ذرا کسی کو اپنے نظریات کے خلاف پایا تو کفر کا فتویٰ صادر کردیا اور اس سلسلہ میں حکومت اسلامی نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی جس وجہ سے نئی نئی فرقہ بندیاں پیدا ہوگئیں اور اس وقت ھالت اتنی ناگفتہ بہ ہوگئی کہ جس کے سدھرنے کی کوئی شک بظاہر نظر ہی نہیں آتی کیوں ؟ اس لئے کہ جن لوگوں کا یہ کام تھا انہوں نے اس سے کلی طور پر منہ پھیرلیا بلکہ اس کو اپنجی ذمہ داری ہی تصور نہ کیا اور لوگوں کو لڑنے مرنے کا موقع فرایم کردیا۔ اوپر کے پہلے دو قسم کے احکام جن کے نفاذ کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر لازم و ضروری تھی حکومت نے اسلام حکومت کہلانے کے باوجود ان کے نفاذ سے نکار کردیا اور صاف صاف یہ کہہ دیا کہ یہ کسی اسلامی حکومت کا کام ہی نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی فرضیت ظاہر ہے اس لئے براہ راست مسلم کا اپنا فرض ہے کہ وہ اس کو جس طرح چاہے پورا کرے یہی وہ سب سے بڑا ظلم ہے جو حکومت نے اسلامی حکومت کہلانے کے باوجود آج تک روا رکھا ہے اور اسلام کے اندر کی گروہ بندی نے اپنا پانا وجود قائم رکھنے کے لئے دوسرے لفظوں میں مسلمان کہلانے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کے لئے آج تک کسی حکومت کو یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لئے نہیں کہا وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر حکومت نے یہ ذمہ داری سنبھال لی تو ہماری سیادت و قیادت کی وہ عمارت یک قلم ڈھیر ہو کر رہ جائے گی۔ اور حکومتی ارکان نے یہ سمجھا کہ ان لوگوں کو اس طرح لڑنے دو تاکہ حکومت کی باگ ڈور گنے چنے آڈمیوں کے ہاتھوں میں رہ سکے اگر اس کام کو ہاتھ لگایا تو حکومت ہی کب ہماری حکومت رہے گی وہ تو فطرۃ ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجایے گی جو اس کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اس لئے نجات اس میں ہے کہ دین اسلام باقائدہ ، ” اودھوں کا ڈھیر رہے “ اور یہ لوگ لڑتے جھگڑتے رہیں اور ہم ان سب کے فیصلے مٹانے کے لئے حکومت کی کرسیوں پر براجمان رہ سکیں۔ اس سوچی سمجھی سکیم کے تحت حکومت کے ارکان اور طبقہ عماء کے گرد گھنٹال سب اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے خوب زور زور سے نعرہ بازی کر رہے ہیں کہ اسلام زندہ باد۔ ہم آئیں گے تو اسلام لائیں گے۔ ہم رہیں گے تو اسلام رہے گا۔ اس طرح اسلام اسلام کے اس شور نے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آنے دیا کہ اسلام کیا ہے ؟ اور کہاں ہے ؟ اگر کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو اس کا حل کیا ہے ؟ 111: اس تیسری قسم کی اطاعت میں جس کو اولو الامر کی اطاعت کہا گیا ہے چونکہ اختلاف کا احتمال تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی ارشاد فرما دیا کہ اسی حالت پیدا ہوجائے تو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ “ اس طرح تمہارا اندر کا اختلاف ختم کرنے کیے لئے تمہیں پھر اس اطاعت کی طرف آنا ہوگا جو اطاعت مشروط نہیں بلکہ اصل و اساس ہے اور اس میں حکومت اور عوام دونوں اس کے پابند ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جس طرح عوام نے اسلام قبول کیا ہے ارکان حکومت نے بھی اسے قبول کیا ہے اس میں عوام اور ارکان حکومت میں کوئی فرق نہیں کہ سب امت مسلمہ میں داخل ہیں۔ ان کے لئے رسول کی حیثیت محض پیغام پہنچا دینے والے کی نہیں ہے بلکہ رسول ان سب کا معلم و مربی ہے اور اسلامی زندگی کا ایک نمونہ ہے اور وہ ایسا امیر ہے جس کی اطاعت ہر زمانہ میں بےچون و چرا کی جانی چاہیے اور اس کی ہدایت خود قرآن کریمے دی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب : 21:33) ” تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ میں اسوہ حسنہ ہے۔ “ وما ینطق عن الوھوی ان ھو الا وحی یوحی (النجم : 4:3:53) ” رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ وہی کچھ حکم دیتا ہے جو اس کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ “ گویا رسول کی حیثیت مسلمانوں کے امیر کی ہے وہ مسلمان عوام ہوں یا امراء و حکماء یعنی وہ سارے امیروں کا بھی ہے اور وہ ایسا سمیر بھی نہیں جس سے نزاع کی جائے بلکہ وہ ایسا امیر ہے جس کے حکم کو بےچون و چرا ماننا ویسا ہی فرض ہے جیسا اللہ کی ذات کو اور قرآن کریم کے اللہ کا کلام ہونے کو۔ وہ ایسا امیر ہے جو قیامت تک کے لئے پوری امت مسلمہ کا امیر ہے۔ وہ ایسا امیر ہے جس کی امارت اس وقت تک قائم ہے جب تک یہ نظام عالم قائم ہے۔ پہلی دونوں قسم کی اطاعتوں میں کوئی سوال جھگڑنے کا نہیں اور تیسری اطاعت میں احتمال موجود ہے پھر اگر ایس احتمال پیدا ہوجائے تو اس کا حل واضح کردیا اس بات کو ایک مثال سے سمجھ لینا مفید ہوگا تا کلہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ بخاری اور دوسری کتب حدیچ میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر کو روانہ کیا جس کا امیر ایک انصاری کو مقرر فرمایا۔ راستہ میں امیر کو اپنے ساتھیوں پر کسی معاملہ میں غصہ آگیا۔ بیشک حکم دیا ہے پھر اس نے آگ جلوائی اور اس ساتھیوں سے کہا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ اس کے اندر کود جاؤ ۔ ایک نوجوان نے کہا کہ ہم تو آگ سے بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ہیں پس جلدی مت کرو یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے مل لیں اس طرح اس حکم کی تعمیل نہ ہوئی اور لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب واپس آے تو یہ واقعہ بھی آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا آپ ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرما کیا کہ اگر تم اس آگ میں داخل ہوجاتے تو پھر کبھی نہ نکل پاتے یاد رکھو کہ ” اطاعت صرف معروف باتوں میں ہے۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” مسلمان پر وجب ہے کہ وہ قبول کرلے اور فرمانبرداری کرے خواہ ایک بات کو پسند کرے یا اسے ناپسند کرے جب تک کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم نہیں دیا جاتا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر قبول کرنا نہیں ہے اور نہ اس کی اطاعت ہے۔ “ ہاں ! اس میں یہ احتمال ہے کہ جس کو حکم دیا گیا وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ حکم اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف ہے اور اس نے اس پر عمل کردیا تو ظاہر ہے کہ ایسے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے مستو جب سزا نہیں ہوگا بلکہ اصل مستو جب سزا تو حکم دینے والا ہے اس پر عمل کرنے والا نہں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اولو الامر کی اطاعت اصل میں اتحاد جماعت کا نام ہے جب تک سب حکم دے جس کو وہ پسند نہ کرے جس کو حکم دیا گیا تو پھر بھی اس کا و بجا لانا ضروری ہے کیونکہ اس میں معیار پسند یا ناپسند نہیں بلکہ اطاعت رسول کے خلاف ہونا ہے جب ت کی ایسی بات نہ ہو تو کسی شخص کے پسند نہ پسند سے کچھ اثر نہیں ہوگا اور اگر وہ فعل صر عمل کرنے والے کی پسند کے خلاف ہو اس لئے وہ اس پر عمل نہ کرے تو وہ مستو جب سزا ہوگا کیونکہ اس نے جماعت کے پورے نظم کو توڑنے کی کوشش کی جس کا اس کو حق نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور امراء اسلام کی اطاعت میں جو بنیادی فرق ہے اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر ایک امیر کو اس کی امار سے جبکہ وہ امارت کا غلط استعمال شروع کر دے الگ کیا جاسکتا ہے لیکن کوئی رسول نہ تو اپنی رسالت سے تجاوز کرسکتا تھا اور نہ ہی اس کو رسالت کے منصب سے کوئی الگ کرسکتا تھا۔ اور امراء کی حقیقت یہ ہے کہ ہر امیر کا انتخاب انسان خود کرتے ہیں لیکن کسی رسول کی رسالت میں کسی انسان کا کوئی مشورہ یا اشارہ تک نہیں پایا جاتا تھا۔ اور امارات کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا جب کہ سلسلہ رسالت و نبوت کو محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم کردیا گیا۔
Top