Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں ، جو حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے
یہود کی اس گمراہی کا ذکر جس کے نتیجہ میں ان پر حلال چیزوں کو حرام کردیا گیا : 251: یہ مضمون قرآن کریم میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے سورة ال عمران میں جہاں فرمایا ” کھانے کی یہ ساری چیزیں جو شریعت محمدی و احمدی میں حلال ہیں نبی اسرائیل کے لئے بھی حلال تھیں۔ البتہ بعض چیزیں تھیں جنہیں توراۃ کے نازل کئے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ ” ان سے کہو کہ لائو توراۃ اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت اگر تم اپنے اعتراض میں سچے ہو۔ “ (ال عمران 3:93) اس زیر نظر آیت میں فرمایا ” یہود کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نیکتنی اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔ “ اور سورة الانعام میں فرمایا کہ ” ان کی سر کشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کئے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لئے حرام ٹھہرا دی۔ “ (الانعام 6:146) ان تینوں آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی اور یہودی فقہ کے درمیان حیوانی غذائوں کی حلت و حرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ نزول تورات سے صدیوں پہلے یعقوب (علیہ السلام) نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی حتیٰ کہ یہودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حرمت تورات میں لکھ دی اور جن اشیاء کو تورات میں لکھ لیا گیا ان میں اونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں۔ آج بائبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں ان میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ ” جانوروں میں جن کے پائوں الگ اور چرے ہوئے ہیں اور وہ جگالی کرتے ہیں تم ان کو کھائو۔ مگر جو جگالی کرتے ہیں یا جن کے پائوں الگ ہیں ان میں سے تم ان جانوروں کو نہ کھائو یعنی اونٹ کو کیونکر وہ جگالی کرتا ہے پر اس کے پائوں الگ نہیں۔ سو وہ تمہارے لئے ناپاک ہے اور سافان کو کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اس کے پائوں الگ نہیں وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے اور خرگوش کو کیونکر وہ جگالی تو کرتا ہے پر اس کے پائوں الگ نہیں وہ تمہائے لئے ناپاک ہے اور سور کو کیونکر اس کے پائوں الگ اور چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لیے ناپاک ہے تم ان کا گوشت نہ کھانا اور ان کی لاشوں کو نہ چھونا وہ تمہارے لئے ناپاک ہیں۔ “ (الاحبار 11:4 تا 8) اور ایک جگہ ہے کہ ” اور چوپایوں میں سے جس جس کے پائوں الگ اور چرے ہوئے ہیں۔ اور وہ جگالی کرتا ہو تم اسے کھا سکتے ہو لیکن ان میں سے جو جگالی کرتے ہیں یا ان کے پائوں چرے ہوئے ہیں تم ان کو یعنی اونٹ اور خرگوش اور سافان کو نہ کھانا کیونکہ یہ جگالی کرتے ہیں لیکن ان کے پائوں چرے ہوئے نہیں ہیں سو یہ تمہارے لئے ناپاک ہیں اور سور تمہارے لئے اس سبب سے ناپاک ہے کہ اس کے پائوں تو چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا۔ تم نہ تو ان کا گوشت کھانا اور نہ ان کی لاش کو ہاتھ لگانا۔ “ (الاستثناء 14:7 تا 8) اس سے مولوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لاکر پیش کردیتے۔ اور دوسرا فرق اسی وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سی پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے حرام کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں یعنی شتر مرغ قاز اور ربط وغیر دوسرے گائے اور بکری کی چربی بائبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکام توراۃ میں داخل کردیا گیا ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ ” ساری چربی خداوند کی ہے۔ یہ تمہاری سب سکونت گاہوں میں نسل درنسل ایک دائمی قانون رہے گا کہ تم چربی یا خون مطلق نہ کھائو۔ “ (احبار 3:17) سورة النساء کی یہ آیت جس کی تفسیر یہ رہی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود پر پہلے یہ چیزیں حلال تھیں حرام نہ تھیں بلکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حرام ہوئیں اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دوسری صدی عیسوی کے آخر میں ربی یہود کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔ رہی یہ بات کہ پھر ان چیزوں کی متعلق اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ” حرمنا “ ہم نے حرام کیا کا لفظ کیوں استعمال کیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الٰہی تحریم کی صرف یہی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان طیبات کو حرام کردیں پہلی قسم کی تحریم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کری ہے اور یہی کچھ یہاں ہوا۔
Top