Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 134
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے ثَوَابَ الدُّنْيَا : دنیا کا ثواب فَعِنْدَ اللّٰهِ : تو اللہ کے پاس ثَوَابُ : ثواب الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
جو کوئی دنیا کا ثواب چاہتا ہے تو اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کا ثواب موجود ہے ، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
اللہ کے پاس دنیا و آخرت کا ثواب موجود ہے ہو وہ دیکھتا ہے کہ تمہاری چاہت کیا ہے ؟ 218: دینے واے کا کام تو دینا ہی ہے لینے والے کے اپنے ظرف پر بھی اس کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر کوئی کچیگھڑے میں پانی ڈال لے تو آخر اس کا نتیجہ کیا ہوگا کہ نہ گھڑا رہے گا اور نہ پانی ؟ آخر دینے والے کا اس میں کوئی قصور ؟ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جو صرف دنیا ہی کے طلبگار ہوں اس لئے کہ جب دنیا ہی نہ رہی تو دنیا کا سرو سامان کب رہا ؟ قرآن کریم کا انداز حزف بھی بڑا عجیب ہے کہ جو جملے مزکور ہوتے ہیں وہ پکار پکار کر کہتے ہیں کہ یہاں ایک جملہ محذوف بھی ہے پھر جب اس حزف کو کھول دیا جاتا ہے تو یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے۔ یی کچھ اس آیت زیر نظر میں بھی ہے فرمایا من کان یرید ثواب الدنیا اس جگہ فعنداللہ ثواب الدنیاکو حذف کردیا گیا اور دوسرے میں ومن کان یرید ثواب الاخرۃ کو حذف فرمادیادونوں جگہ مذکور جملے اپنے محذوف جملوں کی خود نشاندہی کر رہے ہیں اور اس کی مثالیں قرآن کریم میں کثرت سے ملتی ہیں۔ ترجمہ میں ان باتوں کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے مضمون کچھ سے کچھ وہ جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص دنیا ہی کے صلے کا طالب ہوتا ہے تو دنیا کا مالک بھی اللہ ہی ہے وہ اس میں سے اس کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور آخرت کا صلہ بھی بھر پور عطا فرمائے گا۔ یہ ان لوگوں کو تنبیہہ اور موغطت ہے جو اپنے دنیوی مفاد کی خاطر اللہ کی شریعت سے فرار حا صل کرتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی سمجھ کی کمزوری ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو آخرت کا طلبگار ہو اس کو دنیا میں بھی ملا اور آخرت میں بھی بوجہ اس کی طلب کے یقینا اس کو ملے گا مزید تفصیل کے لئے دیکھو آل عمران آیت 147 ، 148 یہی مضمون وہاں بھی بیان ہوا۔ انسان کی اپنی کوتاہ نظری اور کم ہمتی ہے کہ وہ بارگاہ رب العالمین سے صرف دولت ، شہرت ، عزت ، اور وجاہت ہی کا سوال کرے اور اس کے سوا اس کی کچھ طلب ہی نہ ہو۔ ورنہ اس رب کریم ورحیم اور وہاب کی جناب سے تو جو مانگا جائے وہ ملتا ہے انسان صرففنا ہونے والی نعمتوں کے سوال پر کیوں اکتفا کرے ؟ کیوں نہ اس کی محبت کا جام رنگیں مانگے اور اس کی رضا کے لئے دامن طلب پھیلائے۔ جب دینے والا بخیل نہیں تو مانگنے والا بخل کیوں کرے۔ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا
Top