Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 115
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
اور جس شخص [ پر { الہدی } کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اس طرف کو لے جائیں گے جس طرف کو جانا اس نے پسند کیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے اور یہ پہنچنے کی کیا ہی بری جگہ ہے
راہ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد جو گمراہی کی طرف بڑھیں تو ہمارا قانون ان کو نہیں روکتا : 189: ایک واقعہ تو وہی ہے جو پیچھے گزر چکا کہ جب ” بشیر “ یا ” اطعمہ “ جو نام بھی اس کا تھا جو نام کا مسلمان تھا اور جس نے چوری کی تھی اور الزام ایک یہودی پر لگا دیا تھا جب نبی اعظم و اخر ﷺ نے فیصلہ اس کے خلاف صادر فرمایا تو وہ مدینہ سے بھاگ کر مشرکین مکہ سے جا ملا (ترمذی ، حاکم اور ابن سعد) اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ” جس شخص پر دین حق کی راہ واضح ہوجائے اور پھر وہ دیدہ و دانستہ اس سے پھرجائے تو اس نے خود اپنی پسند سے سعادت کی راہ چھوڑکر شقاوت کی راہ پسند کرلی اور جیسی کچھ راہ اس نے پسند کی ضروری ہے کہ ویسا ہی نتیجہ بھی اسے پیش آئے۔ “ اس لئے فرمایا کہ ہم اسے اس طرف لے جائیں گے جس طرف اس نے جانا پسند کیا یعنی ہم نے انسان کی سعادت وشقاوت کے لئے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا ہے کہ جو جیسی راہ پسند کرتا ویسا ہی نتیجہ اسے پیش آتا ہے اور اس نتیجہ پر وہ پہنچا دیاجاتا ہے۔ “ جس نے جنت کی راہ اختیار کی اسے جنت میں داخل کیا جائے گا جس نے اپنے لئے دوزخ پسند کی یعنی دوزخیوں کے سے کام کیے اس کے لئے یقینا دوزخ ہوگی۔ یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کر کے کوئی اس خوش فہمی میں ہو کہ وہ جنت میں چلا جائے گا تو یقینا سوائے خوش فہمی کے اس کو کچھ حاصل نہ ہوگا اور اسے وہ مار پڑے گی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے با غیوں کے لئے مقرر کردی گئی ہے اور کوئی نہیں جو اس کو اس سے بچا لے۔ ” اے پیغمبر اسلام ! اس گروہ میں سے جس نے زبان سے کہا کہ ہم ایمان لائے مگر اس کے دل مومن نہیں ہوئے ، اسیی گروہ میں سے جو یہودی ہوئے جو لوگ کفر کے شیوے میں تیز گام ہوئے تو ان کی حالت تمہیں غمگین نہ کرے ، یہ لوگ جھوٹ کے لئے کان لگانے والے ہیں اور اس کے لئے کان لگانے والے ہیں کہ ایک دوسرے گروہ کو جو تمہارے پاس نہیں آیا خبریں پہنچائیں یہ تو رات کے کلموں کو باوجودیکہ ان کا صحیح محل ثا بت ہوچکا ہے صحیح محل سے پھیر دیتے ہیں اور ان کا مطلب کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں یہ لوگوں سے کہتے ہیں جو کچھ ہم نے تورات کا حکم بتلایا اگر یہی حکم دیا جائے تو قبول کرلو نہ دیا جائے تو اس سے اجتناب کرو اے پیغمبر اسلام ! جن لوگوں کی شقاوت اس حد تک پہنچ چکی ہے وہ کبھی ہدایت پانے والے نہیں تم ان کے لئے بیکار کو غم نہ کھائو جس کسی کے لئے اللہ نے چاہا کہ آزمائش میں پڑے تو تم اس کے لئے اللہ سے کچھ نہیں پاسکتے یقین کرو یہی لوگ ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کو پاک کرنا نہیں چاہتا ‘ ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب موجود ہے۔ “ (المائدہ 5 : 14) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر السلام ! ان لوگوں نے تو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی کہ تجھے فریب دے کر اس کلام کی تبلیغ سے باز رکھیں جو ہم نے بذریعہ وحی نازل کیا ہے اور مقصود انکا یہ تھا کہ اس کلام کی جگہ دوسری باتیں کہہ کر تو ہم پر افتراء پردازی کرے اور پھر اس سے خوش ہو کر یہ تجھے اپنا دوست بنا لیں اور اگر راہ حق میں ہم نے تجھے جما دیا ہوتا تو تو ضرور ان کی طرف کچھ نہ کچھ میلان کر ہی بیٹھتا اور اس صورت میں ضرور ایسا ہوتا کہ ہم تجھے زندگی کا بھی دوہرا عذاب چکھاتے اور موت کا بھی اور پھر تجھے ہمارے مقابلہ میں کوئی مدد گار نہ ملتا۔ “ (بنی اسرائیل 17 : 73 ، 75) یہ ” سبیل المومنین “ کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس سے سمجھ لیا گیا ہے کہ عرف عام میں مومن کہلانے والے جو شروع کردیں وہی ” سبیل المومنین “ ہے حالانکہ ہے یہ بات بالکل غلط اور مہمل ہے اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی اور عطا کردہ راہ ہے وہی مومنوں کی راہ ہے یعنی ” سبیل المومنین “ ہے اور اس راہ سے جو بھٹک گیا وہ یقینا بد نصیب ہوگیا کیونکہ اللہ کی رحمت و توفیق نے اس کی دستگیری چھوڑ دی اور اس طرح وہ شیطان کے ہاتھ میں محض ایک کھلونا بن کر رہ گای اور وہ جسے چاہتا ہے اسے تگنی کا ناچ نچاتا ہے۔
Top