Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 109
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١۫ فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَمْ مَّنْ یَّكُوْنُ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم هٰٓؤُلَآءِ : وہ جٰدَلْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا عَنْھُمْ : ان سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیوی زندگی فَمَنْ : سو۔ کون يُّجَادِلُ : جھگڑے گا اللّٰهَ : اللہ عَنْھُمْ : ان (کی طرف) سے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت اَمْ : یا مَّنْ : کون ؟ يَّكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر (ان کا) وَكِيْلًا : وکیل
دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ دنیا کی زندگانی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑا کرلیا لیکن قیامت کے دن ان کی طرف سے اللہ کے ساتھ کون جھگڑے گا یا کون ہے جو ان کا وکیل بنے ؟
پارٹی کا ساتھ دینے والوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ آخرت میں یہ جھگڑا کون کرے گا ؟ 182: حمایتیوں کے حمایتی ساتھ ملتے جاتے ہیں اور اس طرح پارٹی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے لیکن آخر کب تک ؟ پارٹی کب تک رہے گی اور پارٹی باز تک ؟ اس لئے یہ تنبیہہ کی گئی ہے کہ دنیا میں تو تم نے ان کی حمایت کرلی جگر معاملہ یہیں تو ختم نہیں ہوجائے گا۔ قیامت میں جب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں معاملہ پیش ہوگا تو وہاں کون حمایت کرے گا۔ اس آیت میں ان لوگوں کو ملامت بھی کی گئی ہے جو حق و باطل کی تمیز کئے بغیر اپنی پارٹی ‘ خاندان اور مکتبہ فکر کی حمایت کرتے ہیں اور آخرت کا خوف دلا کر ان کے فعل سے توبہ اور رجوع کی ترغیب بھی دی۔ اس جگہ آگے بڑھنے سے پہلے ایک بار پھر غور کرلو کہ جب مضمون شروع کیا تھا تو ارشاد فرمایا تھا ولاتجادل جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب رسول اللہ ﷺ ہیں حالانکہ ایسا نہیں بلکہ اس حساس مضمون کو بیان کرنے کا یہ الٰہی پیر ایہ ہے کہ وہ اپنے رسول کو مخاطب کر کے امت کے لوگوں کو بات پہنچانا چاہتا ہے اور اس میں حساس پہلو یہ ہے کی انسان جتنا کم علم ہوگا اتنا ہی تھوڑدلا ہوگا اور جھگڑنے کیلئے کوئی نہ کوئی خواہ مخواہ راستہ بنا لے گا اور جتنا آدمی سلجھا ہوا علم رکھنے والا ہوگا اتنا ہی وہ حوصلہ مند اور جھگڑے سے دور رہے گا۔ ان علم کے کو روں اور تھوڑدلوں کو مخاطب کرنے کی بجائے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا گیا اور جب بات آگے چل نکلی اور دلائل شروع ہوگئے بات سننے سنانے لگے تو براہ راست ان کو مخاطب کرلیا چناچہ ارشاد فرمایا کہ ھانتم ھٰولآجادلتم عنھم ” تم نے ان کی طرف سے جھگڑا کرلیا “ جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ وہاں بھی دراصل خطاب نہیں فرمایا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ بات سننے کو تیار ہی نہ ہوں اور پہلے ہی منہ پھیر کر بیٹھ رہیں ۔ تبلیغ کا یہ انداز بہت میٹھا اور بہت پیارا ہے لیکن کاش کہ ہمارے علمائے کرام بھی اس بات کو سمجھتے کہ چلو مخالفت ہی سہی نظریات میں فرق ہی سہی لیکن بات کا انداز تو درست رکھو کہ کوئی آدمی بات سننے کیلئے تیارہو جائے گفتگو کرنے کے بھی آخر کچھ آداب ہوتے ہیں اور وہ آداب محمد رسول اللہ ﷺ نے اختیار فرمائے ہیں ۔ بات کو نرم انداز میں پیش کرنا اور تفہیم کا طریقہ عام فہم رکھنا مخاطبین کی ذہنی و دماغی حیثیتوں کو ملحوظ خاطر رکھ رکر بات کرنا تاکہ سامع کے دل و دماغ تک بات پہنچ جائے نہایت ضروری ہے۔ آستینیں چڑھانے ‘ تو تو میں میں کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے بات سمجھ میں اْانے کی بجائے مزید الجھ جائے گی اور تبلیغ کا مقصد فوت ہوجائے گا جس کا زندہ رہنا نہایت ضروری ہے کہ اگر بات کسی وجہ سے قبول نہ بھی کی تو کم از کم نفرت تو نہ بڑھے۔ لیکن ہمارے پاس کافر ‘ مشرک ‘ گستاخ رسول ‘ نجدی ‘ وہابی جیسے خطابات کے سوا کچھ رکھا ہی نہیں ۔ ہر ایک کے ہاتھ میں کفر کی ایک نہ ایک مہر موجود ہے قریب ہوتے ہی اس طرح لگا دیں گے کہ گویا پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ کاش کہ آج ہم بھی قرآن کریم کو پڑھتے اور اس کی ہدایات پر غورو فکر کرتے ۔ افسوس کہ ہمیں تو صرف الفاظ قرآن پڑھنے تک محدود کردیا گیا ہمارا ہر وہ آدمی قرآن خواں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی اپنے اپنے فکری لہجے کے مطابق کرسکتا ہے۔ ترجمہ ‘ مفہوم اور مطلب تو اس سے ہمیں کوئی غرض ہی نہیں رہی بلکہ اس کیلئے ہمیں سمجھا دیا گیا ہے کہ قرآن کا ترجمہ کرنا تو اللہ کے ” لنگ “ کو ہاتھ ڈالنا ہے اور ” لنگ “ ہماری زبان میں عزت کو کہنے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والاکون ہوتا ہے سب کو معلوم ہے۔
Top