Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ
: فرمادیں
يٰعِبَادِيَ
: اے میرے بندو
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
اَسْرَفُوْا
: زیادتی کی
عَلٰٓي
: پر
اَنْفُسِهِمْ
: اپنی جانیں
لَا تَقْنَطُوْا
: مایوس نہ ہو تم
مِنْ
: سے
رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ
: اللہ کی رحمت
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يَغْفِرُ
: بخش دیتا ہے
الذُّنُوْبَ
: گناہ (جمع)
جَمِيْعًا ۭ
: سب
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہی
الْغَفُوْرُ
: بخشنے والا
الرَّحِيْمُ
: مہربان
(اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ فرما دیجئے (میری طرف سے کہ) اے میرے بندو ! جنہوں نے (اُلٹے کام کر کے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں (حد سے تجاوز کیا ہے) اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو ، بلاشبہ اللہ سب گناہ بخش دے گا ، بیشک وہ بڑا بخشنے والا ، پیار کرنے والا ہے
میرے بندوں کو کہہ دو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے کہ وہ رحمت سے مایوس نہ ہوں 53۔ زیر نظر آیت رحمت بےپایاں کا ذکر کھول کر کر رہی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ رحمت الہٰی کیا ہے ؟ قرآن ِ کریم کہتا ہے کہ کائناتِ ہستی میں جو کچھ بھی خوبی و کمال ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ رحمت الہٰی کا ظہور ہے۔ بلاشبہ جب ہم کائناتِ ہستی کے اعمال و مظاہر پر غور کرتے ہیں تو سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ اللہ رب کریم کا نظام ربوبیت ہے کیونکہ فطرت سے ہماری پہلی شناسائی ربوبیت ہی کی ذریعہ ہوتی ہے لیکن جب علم و ادراک کی راہ میں چند قدم آگے بڑ تھے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ربوبیت سے بھی زیادہ وسیع اور عام حقیقت جو یہاں کارفرما ہے وہ رحمت ہے کیونکہ ربوبیت بھی اس کے فیضان کا ایک گوشہ ہے۔ ربوبیت کیا ہے ؟ فرمایا کائناتِ ہستی کی پرورش ہے لیکن کائناتِ ہستی میں صرف پرورش ہی نہیں ہے بلکہ پرورش سے بڑھ کر ایک زیادہ بنانے ، سنوارنے اور فائدہ پہنچانے کی حقیقت کام کر رہی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بناء ہے ، اس کے بنائو میں خوبی ہے ، اس کے مزاج میں اعتدال ہے ، اس کے افعال میں خواض ہیں ، اس کی صورت میں حسن ہے ، اس کی صدائوں میں نغمہ ہے ، اس کی بو میں عطر بیزی ہے ، اس کی کوئی بات نہیں جو اس کارخانہ کی تعمیر و درستگی کے لیے مفید نہ ہو۔ پس یہ حقیقت جو اپنے بنائو اور فیضان میں ربوبیت سے بھی زیادہ وسیع اور عام ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ رحمت ہے اور خالق کائنات کی رحمانیت اور رحیمیت کا ظہور ہے بلاشبہ تعمیر وتحسین کائنات رحمت الٰہی کا نتیجہ ہے زندگی اور حرکت کا یہ عالم گیر کارخانہ وجود ہی میں نہ آتا اگر اپنے ہر فعل میں بننے بنانے ، سنورنے سنوارنے اور ہر طرح بہت واصلح ہونے کا خاصہ نہ رکھتا۔ فطرتِ کائنات میں یہ خاصہ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ بنائو ہو بگاڑ نہ ہو ، درستگی ہوبرہمی نہ ہو لیکن کیوں ایسا ہو کہ فطرت بنائے اور سنوارے بگاڑے اور الجھائے نہیں ؟ یہ کیا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے درست اور بہتر ہی ہوتا ہے خراب اور بدتر نہیں ہوتا ؟ انسان کے علم و دانش کا کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کرسکیں ، فلسفہ و نظر کا قدم جب کبھی اس حد تک پہنچا دم بخود ہو کر رہ گیا لیکن قرآن کریم کہتا ہے اس لیے کہ فطرتِ کائنات میں رحمت ہے اور رحمت کا مقتضی یہی ہے کہ خوبی اور درستگی ہو بگاڑ اور خرابی نہ ہو۔ انسان کے علم و دانش کی ساوشیں بتلاتی ہیں کہ کائناتِ ہستی کا یہ بنائو اور سنوار عناصر اولیہ کی ترکیب و ترکیب کے اعتدال اور تسویہ کا نتیجہ ہے ، مادہ علام کی کمیت میں بھی اعتدال ہے ، کیفیت میں بھی اعتدال ہے ، یہی اعتدال ہے جس سے سب کچھ بنتا ہے اور جو کچھ بنتا ہے خوبی اور کمال کے ساتھ بنتا ہے ، یہی اعتدال و تناسب دنیا کے تمام تعمیری اور ایجابی حقائق کی اصل ہے وجود ، زندگی ، تندرستی ، خوشبو ، نغمہ ، بنائو اور خوبی کے بہت سے نام ہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے اور وہ اعتدال ہے لیکن فطرتِ کائنات میں یہ اعتدال و تناسب کیوں ہے ؟ کیوں ایسا ہوا کہ عناصر کے وقائق جب ملیں تو اعتدال و تناسب کے ساتھ ملیں اور مادہ کا خاصہ یہی ٹھہرا کہ اعتدال و تناسب ہو ، انحراف و تجاوز نہ ہو ؟ انسان کا علم دم بخود اور متحیر ہے لیکن قرآن کریم کہتا ہے ، یہ اس لیے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس لیے کہ اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے اور جس میں رحمت ہو اور اس کی رحمت ظہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہوگا اس میں خوبی اور بہتری ہی ہوگی ، حسن و جمال ہی ہوگا ، اعتدال وتناسب ہی ہوگا ، اس کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ ہمیں بتلاتا ہے کہ تعمیر و تحسین فطرتِ کائنات کا خاصہ ہے اور خاصہ تعمیر چاہتا ہے کہ بنائو ہو ، خاصہ تحسین چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے خوبی و کمال کے ساتھ بنے اور یہ دونوں خاصے ” قانون ضرورت “ کا نتیجہ ہیں۔ کائناتِ ہستی کے ظہور و تکمیل کے لیے ضرورت تھی کہ تعمیر ہو اور ضرورت تھی کہ جو کچھ تعمیر ہو حسن و خوبی کے ساتھ ہو ، یہی ” ضرورت “ بجائے خود ایک علت ہوگئی اور اس لیے فطرت سے جو کچھ ظہور میں آتا ہے ویسا ہی ہونا ضروری تھا۔ لیکن اس تعلیل سے بھی تو یہ عقدہ حل نہیں ہوا ؟ سوال جس منزل میں تھا اس سے صرف ایک منزل اور آگے بڑھ گیا ، تم کہتے ہو ، یہ جو کچھ ہر رہا ہے اس لیے ہے کہ ” ضرورت “ کا قانون موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ” ضرورت “ اس بات کی مقتضی ہوئی کہ خوبی اور درستگی ہو بگاڑ اور برہمی نہ ہو ؟ انسانی علم کی کاوشیں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں ایک مشہور فلسفی کے لفظوں میں ” جس جگہ سے یہ ” کیوں “ شروع ہوجائے سمجھ جائو کہ فلسفہ کے غور وخوض کی حدود ختم ہوگئیں “ لیکن قرآن کریم اس سوال کا جواب دیتا ہے ، وہ کہتا ہے یہ ” ضرورت “ رحمت وفضل کی ضرورت ہے۔ رحمت چاہتی ہے کہ جو کچھ ظہور میں آئے بہتر ہو اور نافع ہو اس لیے جو کچھ ظہور میں آتا ہے بہتر ہوتا ہے اور نافع ہوتا ہے۔ پھر یہ حقیت بھی واضح رہے کہ دنیا میں زندگی اور بقاء کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے جمال و زیبائی ان سے ایک زائد تر فیضان ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمال وزئبائش بھی یہاں موجو ہے پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب کچھ قانون ضرورت ہی کا نتیجہ ہے ضرورت ، زندگی اور بقا کا سروسامان چاہتی ہے لیکن زندہ اور باقی رہنے کے لیے جمال وزئبائش کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر جمال وزیبائش بھی یہاں موجود ہے تو یقینا یہ فطرت کا ایک مزید لطف و احسان ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت صرف زندگی ہی نہیں بخشی بلکہ زندگی کو حسین ولطیف بھی بنانا چاہتی ہے پس یہ محض زندگی کی ضرورت کا قانون نہیں ہو سکتا یہ اس ” ضرورت “ سے بھی کوئی بالاتر ” ضرورت “ ہے جو چاہتی ہے کہ رحمت اور فیضان ہو قرآن کریم کہتا ہے یہ رحمت کی ” ضرورت “ ہے اور رحمت کا مقتضی یہی ہے کہ وہ سب کچھ ظہور میں آئے جو رحمت سے ظہور میں آنا چاہیے جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے کہ : ( قل لمن ما فی السموات والارض قل اللہ کتب علی نفسی الرحمۃ) ( الانعام : 6 ، 12) ” آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کے لیے ہے ؟ اے پیغمبر اسلام ! کہہ دیجئے اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے لیے ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ رحمت ہو۔ ‘ ‘ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : (ورحمتی وسعت کل شیء) (الاعراف 7 : 156) ” اور میری رحمت دنیا کی ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ “ اس سلسلہ میں سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایا ہوتی ہے وہ کائناتِ ہستی اور اس کی تمام اشیاء کا افادہ وفیضان ہے یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے تمام کاموں میں کامل نظم ویکسانیت کے ساتھ مفید اور بکار آمد ہونے کی خاصیت پائی جاتی ہے اور اگر بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کار گاہ عالم صرف اسی لیے بنا ہے کہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہماری حاجت روائیوں کا ذریعہ ہو اور قرآن ِ کریم نے بہت سے جگہوں پر اس کی وضاحت کی ہے جیسا کہ سورة الجاثیہ 45 کی آیت 13 میں وضاحت کی گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائناتِ ہستی میں جو کچھ بھی موجود ہے اور جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے اس میں سے ہرچیز کوئی نہ کوئی خاصہ رکھتی ہے اور ہر حادثہ کی وکئی نہ کوئی تاثیر ہے اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ تمام خواص و موثرات کچھ اس طرح واقع ہوتے ہیں کہ ہر خاصہ ہماری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کرتا اور ہر تاثیر ہمارے لیے کوئی نہ کوئی فیضان رکھتی ہے۔ سورج ، چاند ، ستارے ، ہوا ، بارش ، دریا ، سمندر ، پہاڑ سب کے خواص وفوائد ہیں اور سب ہمارے لیے طرح طرح کی راحتوں اور آسائشوں کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں۔ قرآن کریم نے اس کی وضاحت بھی بہت سے مقامات پر کردی ہے اور انہی مقامات میں سے ایک مقام سورة ابراہیم 14 کی آیت 31 تا 34 تک کا ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔ زمین کو دیکھو کہ اس کی سطح پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی ہے۔ تہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں ، گہرائی سے سونا چاندی نکل رہا ہے وہ اپنی جسامت میں اگر شہ مدور ہے لیکن اس کا ہر حصہ اس طرح واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسطح فرش بچھا دیا گیا ہے ، اس کی وضاحت قرآن کریم کی سورة الرعد کی آیت 3 ، 4 میں کی گئی ہے اور اسی طرح سورة الاعراف کی آیت 9 میں بھی موجود ہے۔ سمندر کی طرف نظر اٹھائو تو اس کی سطح پر جہاز تیر رہے ہیں ، تہ میں مچھلیاں اچھل رہی ہیں ، قعر میں مرجان اور موتی نشو ونما پا رہے ہیں۔ اس کی وضاحت آپ کو سورة النحل کی آیت 13 میں ملے گی۔ حیوانات کو دیکھو ، زمین کے چارپائے ، فضا کے پرند ، پانی کی مچھلیاں سب اس لیے ہیں کہ اپنے اپنے وجود سے ہمیں فائدہ پہنچائیں۔ غذا کے لیے ان کا دودھ اور گوشت ، سواری کے لیے ان کی پیٹھ ، حفاظت کے لیے ان کی پاسبانی ، پہننے کے لیے ان کی کھال اور اون ، برتنے کے لیے ان کے جسم کی ہڈیاں تک مفید ہیں جس کا ذکر قرآن کریم نے سورة النحل کی آیت 5 تا 8 میں اور سورة النحل کی آیت 66 اور آیت 80 میں تفصیل سے کیا ہے۔ ایک انسان کتنا ہی محدود اور غیر متمدن زندگی رکھتا ہو لیکن اس حقیقت سے بیخبر نہیں ہو سکتا کہ اس کا گردو پیش اسے فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ایک لکڑہارا بھی اپنی جھونپری میں بیٹھا ہوا نظر اٹھاتا ہے تو گویا اپنے احساص کے لیے بہتر تعبیر نہ پائے لیکن یہ حقیقت ضرور محسوس کرلیتا ہے۔ وہ جب بیمار ہوتا ہے تو جنگل کی جڑی بوٹیاں کھا لیتا ہے ، دھوپ تیز ہوتی ہے تو درختوں کے سایے میں وقت پاس کرلیتا ہے ، بیکار ہوتا ہے تو پتوں کی سرسبزی اور پھولوں کی خوشنمائی سے آنکھیں سینکنے لگتا ہے ، پھر یہی درخت ہیں جو اپنی شادابی میں اسے پھل بخشتے ہیں ، پختگی میں لکڑی کے تختے بن جاتے ہیں ، کہنگی میں آگ کے شعلے بھرکا دیتے ہیں۔ ایک ہی مخلوق بنائی ہے جو اپنے منظر سے نزہت و سرور بخشتی ہے ، اپنی بو سے ہوا کو معطر کرتی ہے ، اپنے پھل میں طرح برح کی غذائیں رکتھی ہے ، اپنی لکڑی سے سامان تعمیر مہیا کرتی ہے اور پھر خشک ہوجاتی ہے تو اس کے جلانے سے آگ بھڑکتی ، چولہے گرم کرتی ، موسم کو معتدل بناتی اور اپنی حرارت سے بیشمار اشیاء کے پکنے ، پگھلنے اور تپنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ پھر وہ فوائد ہیں جو تمہیں اپنی جگہ محسوس ہو رہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ فطرت نے یہ تمام چزئیں کن کن کاموں اور کن کن مصلحتوں کیلیے پیدا کی ہیں اور کار فرمائے عالم کار گاہ ہستی کے بنانے اور سنوارنے کے لیے ان سے کیا کیا کام نہیں لے رہا ہے ؟ مختصر سے مختصر یہ کہ اس کائنات کی تخریب بھی تعمیر کے لیے ہے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا عالم کون و فساد ہے یہاں ہر بننے کے ساتھ بگڑنا ہے اور ہر سمٹنے کے ساتھ بکھرنا لیکن جس طرح سنگ تراش کا توڑنا پھوڑنا بھی اس لیے ہوتا ہے کہ خوبی و دلآویزی کا ایک پیکر تیار کر دے اسی طرح تمام کائناتِ عالم کا بگاڑ بھی اس لیے ہے کہ بنائو اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے تم ایک عمارت بناتے ہو لیکن اس بنانے کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ بہت سی بنی ہوئی چیزیں بگاڑ دی گئیں ؟ چٹانیں اگر نہ کاٹی جائیں ، بھٹے اگر نہ سلگائے جاتے ، درختوں پر آرا اگر نہ چلتا تو ظاہر ہے کہ عمارت کا بنائو بھی ظہور میں نہ آتا پھر یہ راحت و سکون جو تمہیں ایک عمارت کی سکونت میں حاسل ہوتا ہے کس صورت حال کا نتیجہ ہے ؟ یقینا اس شور و شر اور ہنگامہ و تخریب کا جو سروسامانِ تعمیر کی جدوجہد نے عرصہ تک جاری رکھا تھا اگر تخریب کا یہ شور وشر نہ ہوتا تو عمارت کا عیش و سکون بھی وجود میں نہ آتا۔ پس یہی حال فطرت کی تعمیری سرگرمیوں کا بھی سمجھو وہ عمارت ہستی کا ایک ایک گوشہ تعمیر کرتی رہتی ہے۔ وہ اس کارخانہ کا یک ایک کیل پرزہ ڈھالتی رہتی ہے۔ وہ اس کی درستگی و خوبی کی حفاظت کے لیے ہر نقصان کا دفعیہ اور ہر فساد کا ازالہ چاہتی ہے ، تعمیر و درستگی کی یہی سرگرمیاں ہیں جو تمہیں بعض اوقات تخریب و نقصان کی ہولناکیاں دکھائی دیتی ہیں حالانکہ یہاں تخریب کب ہے ؟ جو کچھ ہے تعمیر ہی تعمیر ہے۔ سمندر میں تلاطم ، دریا میں طغیانی ، پہاڑوں میں آتش فشانی ، جاڑوں میں برف باری ، گرمیوں میں سموم ، بارش میں ہنگامہ ابروباد تمہارے لیے خوش آئند مناظر نہیں ہوتے لیکن تم نہیں جانتے کہ ان میں ہر حادثہ کائناتِ ہستی کی تعمیر و درستگی کے لیی اتنا ہی ضروری ہے جس قدر دنیا کی کوئی مفید سے مفید چیز تمہاری نگاہ میں ہو سکتی ہے۔ اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کو زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا۔ اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو زمین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی تمام سطح کو پارہ پارہ کردیتا۔ تم بول اٹھو گے کہ یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا گیا ؟ لیکن تمہیں جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشو ونما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہوجاتا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن ِ کریم نے جابجا اشارات کیے ہیں ، مثلا وہ کہتا ہے کہ : (ومن ایتہ یریکم البرق خوفاوطمعا وینزل من السماء ماء فیحیی بہ الارض بعد موتھا ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون) (الروم 30 : 24) ” اور دیکھو اس کی قدرت و حکمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ بجلی کی چمک اور کڑک نمودار کرتا ہے اور اس سے تم پر خوف اور امید دونوں کی حالتیں طاری ہوجاتی ہیں اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور پانی کی تاثیر سے زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے جو عقل وبینش رکھتے ہیں حکمت الہٰی کی بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ “ میری دکھیاری بہن رضیہ اب تم بھی غور کرو کی تمہارے جواں سال یا سر کا اچانک ایکسیڈنٹ اور اسی جگہ موت نے صرف آپ ہی کو نہیں رلایا بلکہ بہت سے دوسروں کو بھی رلا گیا اور میرے جیسے ماموں کو اس نے کئی روز تک بالکل مبہوت کر کے رکھ دیا کہ نہ قلم میں طاقت رہی اور نہ ہی ہاتھ میں گرفت قلم۔ 22 اکتوبر 1997 ء بروز بدھ موازی 19 جمادی الاخری 1418 ھ کی نماز عشاء سے چند منٹ قبل جب میرے کان نے یہ خبر سنی تو یکبارگی میرا دل تڑپ کر رہ گیا وہ سماں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کسی دشمن پر بھی نہ لائے لیکن آخر کسیے نہ لائے جب کہ ہم سب مرنے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ہاں ! تیرا یا سر تیرے لیے ، میرے لیے اور بہت سے دوسرے دلوں کے لیے بظاہر نقصان نظر آیا اور پھر نقصان بھی ایسا جو کبھی پورا ہونے والا نہ ہے اگر تو غور کرے ، میں غور کروں اور وہ سارے دل غور کریں جن دلوں میں بظاہر بہت بڑا نقصان نظر آیا تو بلاشبہ سب جان جائیں گے کہ یہ نقصان ، نقصان کب ہے ؟ ہاں ! میرا کانپتا ہوا دل اور لرزتا ہوا قلم کبھی یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ ہو ہمارا نقصان کر گیا۔ ہرگز نہیں وہ تو ہمارا نقصان کر ہی نہیں سکتا تھا اور یقینا اس نے ہمارا نقصان نہیں کیا بلکہ وہ تو اپنا نشاں مٹا کر ہمارا فائدہ کر گیا۔ ۔۔ میری بہن رضیہ یقین جان کہ وہ تیرا بہت ہی بڑا فائدہ کر گیا۔ وہ تو ابھی بالکل پھول کی طرح معصوم تھا ، وہ تیرے لیے ، اپنے غمزدہ باپ کے لیے ، اپنے بہن بھائیوں کے لیے اور ماموئوں کے لیے عاصم بن کر رخصت ہوگیا۔۔ رضیہ میری بہن آ ، اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے یہ ابد الآباد تک زندہ رہنے والا کلام سن تاکہ تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے یاسر نے تیرا کوئی نقصان نہیں کیا ، میرا کوئی نقصان نہیں کیا ، اس لیے کہ وہ ہمارا نقصان کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یاسر اور وہ کسی کا نقصان کرے کیسے مان لوں ؟ جب کہ یاسر کے معنی ہی آسانی پیدا کرنے والے کے ہیں۔ عن ابی موسیٰ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال اذا مات ولد العبد قال اللہ تعالیٰ لملائکتہ قبضتم ولد عبدی ؟ فیقولون نعم ، فیقول قفضتم ثمرۃ فرادی ؟ فیقولون نعم فیقول ماذا قال عبدی ؟ فیقولون حمدک واسترجع فیقول اللہ تعالیٰ ابنوا لعبدی بیتا فی الجنۃ وسموہ بیت الحمد ( رواہ الترمذی وقال حدیث حسن) ” ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی بندہ کے کسی بچہ کا انتقال ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندہ کے لخت جگر کو تم لے آئے ؟ وہ کہتے ہیں ہاں ! پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تم اس کے دل کا ٹکڑا لے آئے ؟ فرشتے کہتے ہیں ہاں ! تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ اس وقت میرا بندہ کیا کر رہا تھا ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے تیری حمد کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھی پھر اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ تم میرے اس بندہ کے لیے جنت میں ایک محل تیار کرو اور اس محل کے اوپر بیت الحمد تحریر کردو ۔ “ اور ایک حدیث میں ہے کہ : عن ابی ھرہرۃ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال یقول اللہ تعالیٰ ما لعبدی المئومن عندی جزائک اذا قضیۃ من اھل الدینا ثم احتسبہ الا الجنۃ ( رواہ البخاری) ” ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اعظم وآخر محمد ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جب میں اپنے کسی محبوب بندہ کی کوئی محبوب چیز اس سے لے لیتا ہوں اور وہ راضی برضا ہو کر صبر کرتا ہے تو اس کا اجر وصلہ سوائے جنت کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟ عزیزی رضیہ ! اب تو سمجھ لے کہ تیرا یا سر جب تیری محبوب چیز اور تیرے دل کا ٹکڑا تھا ، جب اس کی روح کے متعلق رب زوالجلال والاکرام نے فرشتوں سے پوچھا اور انہوں نے وہی کچھ بتایا جو حدیث رسول میں موجود ہے تو اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے فرشتوں سے پوچھا اور انہوں نے وہی کچھ بتایا جو حدیث رسول میں موجود ہے تو اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے تیرے لیے جنت میں وہ محل تعمیر کردیا تو اس کا باعث کون ہوا ؟ ظاہر ہے کہ تیرا ” یاسر “ تو اب بتا کہ تیرا اس نے نقصان کیا ؟ بلاشبہ نہیں بلکہ اس نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر کے تیرے لیے وہ بھلائی کردی جو یقینا اس کے اختیار میں بھی نہ تھی۔ مبارک ہے تیرا یاسر اور مبارک ہے تو ماں جس نے یاسرکو جنم دیا۔ اب تو صبر کر جا ، میں صبر کر جائوں اور صبر کرے ہر وہ دل جس کو یاسر کی جواں سالہ موت نے رلایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اب تم غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں بلکہ اس طرح بناتی اور سنوارتی ہے کہ اس کے ہر بنائو میں ھسن و زیبائی کا جلوہ اور اس کے ہر ظہور میں ظر افروزی کی نمود پیدا ہوگئی ہے۔ کائناتِ ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو ، اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو ، اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقاب زیبائش نہ ڈال دیا ہو۔ ستاروں کا نظام اور ان کی سیرو گردش ، سورج کی روشنی اور اس کی بو قلمونی ، چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھائو ، فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں ، بارش کا سماں اور اس کے تغیرات ، سمندر کا منظر اور دریائوں کی روانی ، پہاڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کا نشیب ، حیوانوں کے اجسام اور ان کا تنوع ، نباتات کی صورت آرائیاں اور باغ وچمن کی رعنائیاں ، پھولوں کی عطر بیزی اور پرندوں کی نغمہ سنجی ، صبح کا چہرہ خنداں اور شام کا جلوہ محجوب غرض کہ تمام تماشا گاہ ہستی حسن کی نمائش اور نظر اخروی کی جلوہ گاہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس پردہ ہستی کے پیچھے حسن افروزی و جلوہ آرائی کی کوئی قوت کام کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے حسن وزیبائش کے ساتھ ظہور میں ؤہئے اور کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے نشاط ، سامع کے لیے سرور اور روح کے لیے بہشت راحت و سکون بن جائے۔ دراصل کائناتِ ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے۔ فطرت نے جس طرح اس کے بنائو کے لیے مادی عناصر پیدا کیے اسی طرح اس کی خوبروئی اور رعنائی کے لیے معنوی عناصر کا بھی رنگ و روغن آراستہ کردیا۔ روشنی ، رنگ ، خوشبو اور نغمہ حسن و رعنائی کے وہ اجزا ہیں جن سے مشاطہ فطرت چہرہ وجود کی آرائش کررہی ہے مشاطہ رابگو کہ ہر اسباب حسن یار چیزے فزوں کندہ کہ تماشا بمارسد زیر نظر آیت نے ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے جو اپنی جانوں پر خود زیادتیاں کرتے ہیں اور ان کو ( یا عبادی) کہہ کر بتلا دیا ہے کہ انسان کتنی ہی غلطیوں اور برائیوں میں ڈوب چکا ہو بہر حال وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے خواہ وہ کوئی ہے ، کون ہے اور کہاں ہے اور یہ کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی خالق ومالک ہے اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ رحمت الہٰی کی وسعت بےپایاں ہے اگرچہ اس درس سے دوسری آسمانی کتابیں خالی ہیں یا ان کے ماننے والوں نے ان کو خالی کردیا ہے۔ اس وقت اگر کوئی تھکے ماندوں کو آرام کی خوشخبری دیتا ہے تو قرآن کریم تمام قسم کی خطا کاریوں اور زیادتیوں پر رحمت کی خوشخبری سناتا ہے۔ کس قدر کمال تعلیم اسلامی کا ہے کہ رحمت الہٰی کا دروازہ تو اتنا وسیع کھولا مگر یہ زیادتیوں پر رحمت کی خوشخبری سناتا ہے۔ کس قدر کمال تعلم اسلامی کا ہے کہ رحمت الہٰی کا دروازہ تو اتنا وسیع کھولا مگر یہ نہیں کہ کفارہ کی طرح ساتھ ہی گناہ پر جراءت کا باب بھی وا کردیا ہو بلکہ رجوع الی اللہ شرط رکھی ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت آرہی ہے۔ اس ضمن میں افراط وتفریط کے دو پہلو اسلام سے قبل موجود تھے۔ افراط عیسائی مذہب نے کی کہ جو شخص کفارہ پر ایمان لے آئے پھر جو گناہ چاہے کرتا جائے اس پر کوئی مواخذہ ہی نہیں ہے اور دوسرا یہود وہنود نے کہ جتنی مدت چاہے توبہ کرے اور گناہوں کی معافی کے لیے روئے اور چلائے مگر خدا معاف ہی نہیں کرتا۔ بلاشبہ اسلام کی تعلیم میں نہ تو افراط ہی ہے اور نہ تفریط ، اس لیے اس نے اس کی پوری پوری وضاحت کردی اور سچی توبہ سے نہ صرف گناہ مٹنے کا اشارہ دیا بلکہ سچی توبہ ایک بہت بڑا نیک عمل بتا کر اس پر اجر کی تحدی بیان کردی کہ بلاشبہ وہ شخص صرف اس بات کا مستحق نہیں کہ صرف اس کا گناہ محو کردیا جائے بلکہ وہ انعام کا بھی مستھق ہے کہ اس کو انعام بھی دیا جائے اور وہ انعام اس کے گناہوں کے مٹا دینے کے اعلان کے بعد جنت میں داخل کردینے کا ہے جس سے بڑا کوئی انعام نہیں ہو سکتا۔ بلاشبہ جب نفسانی جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں تو بڑے بڑے دانش مندوں سے انتہائی قبیح حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں ، معصوم فقط انبیاء کرام ہی ہوتے ہیں اور جب انتقام کے شعلے بھڑکتے ہیں تو بڑے بڑے حلیم الطبع لوگوں کے ہاتھ سے بھی عدل و انصاف کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔ غلط ماحول کے باعث غلط نظریات دل میں جم جاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی شخص گناہوں اور بدکردار یوں سے اپنا دامن آلودہ کرلے اور اس کے لیے توبہ کا دروازہ بند کردیا جائے تو وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا اور گناہ وعصیان کی دلدل میں بڑی بےباکی سے بڑھتا ہی چلا جائے گا اس طرح خود بھی برباد ہوگا اور کئی معصوم زندگیوں کو بھی دفن کر کے رکھ دے گا۔ اس طرح اگر یہ بات کسی کے ذہن نشین ہوجائے کہ گناہ کرنے سے کوئی مضرت نہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ کے سامنے ہمارے ان گناہوں کی کیا حقیقت ہے۔ ہم کچھ بھی کرتے رہیں وہ بخش دے گا اور جنت کے دروازے ہمارے لیے کھول دیئے جائیں گے تو ایسا انسان بھی عمر بھر اپنی نفسانی خواہشات کے ہاتھوں میں کھلونا بنا رہتا ہے ، خونریزی ، بدکاری ، راہزنی ، حق تلفی سے انسے کوئی نفرت نہیں رہتی ، لوگوں کے حقوق پامال کرنے کے باوجود اور مالک میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کے باوجود اس کے دل میں خلش بھی پیدا نہیں ہوتی جو اس کو بےچین کر دے۔ یہ دونوں کیفیتیں انسان کے لیے سم قاتل ہیں اس طرح وہ نہ فقط دوسروں کے لیے وبال جان بن جاتا ہے بلکہ اپنی ذات پر بھی ظلم عظیم کا مرتکب ہوتا ہے ، اس کو جو تعمیری صلاحیتیں اور نیکی کی قوتیں بخشی گئی تھیں ان سے اگر وہ صحیح کام لیتا تو آسمان شہرت پر مہرو ماہ بن کر چمکتا اور قیامت تک دنیا اس کی نیکیوں کو یاد کرتی ، اسے دعائیں دیتی اب وہ بیکار پڑی رہیں اور برگ وبار لائے بغیر ختم ہوگئیں۔ اسلام جو دین فطرت ہے جس کا مقصد اولین فرد کی صحیح نشو ونما اور راہنمائی کرنا ہے تاکہ سلجھے ہوئے اور اصلاح یافتہ افراد سے ایک ایسی قوم معرض وجود میں آئے جو قیادت امم کی ذمی داری سنبھال سکے اور ساری انسانیت کی راہنمائی کا فریصہ ادا کرسکے اس لیے اسلامنے انسان کو نہ تو بالکل بےلگام چھوڑ دیا ہے کہ وہ خرمستیاں کرتا رہے ، چمن حیات کی نازک اور معصوم کلیوں کو مسلتا رہے اور ان کی رنگت ونکہت کو لوٹتا رہے اور اس کے باوجود دل میں اپنی بخشش کا بھی یقین رکھے اور نہ ہی اسلام نے انسان کو مایوسیوں اور ناامیدیوں کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیا ہے بلکہ صحیح خطوط پر اس کی تربیت کا پروگرام پیش کیا۔ ایک طرف اسے اپنے اعمال نیک و بد کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے ان نتائج سے آگاہ کیا جو اس کو اچھے یا برے اعمال پر سنت الہٰی کے مطابق مترتب ہو کر رہیں تے تاکہ کوئی کام کرنے سے پہلے وہ ان نتائج کا بھی اچھی طرح جائزہ لے لے اور یہ دیکھ لے کہ کیا وہ ان نتائش کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ اس کو مایوس بھی نہیں ہونے دیا اس لیے اسے بتادیا کہ گناہوں اور بدکاریوں سے تائب ہو کر جب اور جہاں سے وہ نئی پاکیزہ زندگی کا آغاز کرنا چاہے اسے اس کا موقع دیا جائے گا۔ اس آیت میں ان لوگوں کو نید رحمت دی جا رہی ہے جو عمر بھر اپنے اوپر زیادتیاں کرتے رہے ، جن کے شب وروز فسق وفجور میں بسر ہوتے رہے ، جنہوں نے کفر وشرک کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو بالکل برباد کردیا ایسے لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ آئو میری رحمت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے اگر تم سچے دل سے تائب ہو کر نئی اور پاکیزہ زندگی شروع کرنے کا عزم کرچکے ہو تو تمہارے گناہ بیشمار اور نہایت سنگین کیوں نہ ہوں معاف کردیئے جائیں گے تمہیں یہاں سے مایوس نہیں لوٹایا جائے گا۔ اس آیت کی تفسیر میں مضمون زیادہ ہی بیان کردیا گیا ہے تا ہم کوئی بات بلا ضرورت نہیں کی گئی اور نہ ہی رطب ویابس بیان کیا گیا ہے تا ہم ایک بات اب بھی رہ گئی تھی جو پیش خدمت ہے نہایت افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ بعض مفسریں نے (یعبادی ) کے لفظ کی بہت ہی عجیب تفسیر بیان کردی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو خود ” اے میرے بندو “ کہہ کر خطاب کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ سب انسان نبی اعظم وآخر محمد ﷺ کے بندے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ نبی اعظم وآخر محمد ﷺ کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ آپ ساری دنیا کے انسانوں کو میرے بندے کہہ کر خطاب کرو کہ اے میرے بندو ! گویا اس جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خطاب نہیں بلکہ خود محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ ان لوگوں کو میرے بندے کہہ کر بلائو اس لیے عبدالرسول اور عبدالنبی نام تو خود اللہ تعالیٰ نے انسانوں کا رکھا ہے حالانکہ ایسا کہنا کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے بلکہ یہ تو قرآن کریم کے ساتھ صاف صاف مذاق اور استہزاء ہے کہ قرآن کریم بار بار اس بات کی نفی کرتا ہے کہ کسی نبی و رسول کوہ یہ حق نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنے بندے بنا لے بلکہ وہ تو باربار یہی حکم دیتا ہے کہ ” اللہ کے بندے بن جائو “ اور یہ کہ ” رب والے ہو اجائو “ تفصیل اس کی عروۃ الوثقی جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 79 میں ملے گی۔
Top