Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 67
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَآ اَنْفَقُوْا : جب وہ خرچ کرتے ہیں لَمْ يُسْرِفُوْا : نہ فضول خرچی کرتے ہیں وَلَمْ يَقْتُرُوْا : ور نہ تنگی کرتے ہیں وَكَانَ : اور ہے بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان قَوَامًا : اعتدال
اور یہ وہ لوگ ہیں جو (محتاط رہتے ہیں) جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اسراف کرتے ہیں نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ وہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں
وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں : 67۔ اسراف کیا ہے ؟ فضول خرچی کا دوسرا نام ہے یا اس طرح کہیں کہ جس چیز کو اردو میں فضول خرچی کہا جاتا ہے عربی میں اس کو ” اسراف “ کہتے ہیں ۔ اور فضول خرچی یہ ہے کہ انسان اپنی حیثیت اور موقع کی ضرورت سے زیادہ خرچ کرے چونکہ اسلام عرب میں آیا اور عربوں کی فیاضی ‘ فضول خرچی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے اسلام نے فضول خرچی کو روکا اور انسان کو اپنی حد میں رہ کر خرچ کرنے کا حکم دیا کیونکہ فضول خرچی کی عادت سے قومی سرمایہ بہت بری طرح برباد ہو کر فنا ہوتا ہے اور فضول خرچی عموما فخر و غرور اور نمائش کے پردہ میں ظاہر ہوتی ہے اور ان بداخلاقیوں کی برائی کسی سے چھپی نہیں ہے ۔ ہم نے اس کی پوری وضاحت سورة بنی اسرائیل کی آیت 26 کے تحت کردی ہے جہاں اس اسراف کو دوسرے نام ” تبذیر “ سے یاد کیا گیا ہے ۔ خرچ کرنے میں دوسری بڑی بیماری کا نام ” بخل “ ہے اور بخل کو اردو زبان میں کنجوسی کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ، بخل یعنی کنجوسی بھی اساسی بداخلاقیوں میں سے ایک ہے یعنی ایسی بداخلاقی جو بہت سی بداخلاقیوں کی جڑ ہے ۔ خیانت ‘ بددیانتی ‘ بےمروتی ‘ بےرحمی ‘ بدسلوکی اور دناءت بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں اور حرص ‘ طمع ‘ لالچ تنگ نظری ‘ کم ہمتی ‘ پست طبعی اور اس طرح کی بہت سی برائیاں اس کی اولاد در اولاد ہیں بخیل اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ مال و دولت مقصود بالذات چیزیں نہیں بلکہ وہ صرف حصول اشیاء کا ایک ذریعہ ہے ، بخیل اس حقیقت کو بھی تسلیم نہیں کرتا کہ یہ سونا چاندی فرد کی نہیں بلکہ جماعت کی دولت ہے اس کو چلتا پھرتا ہی رہنا چاہئے اس کو ایک جگہ روک رکھنا اللہ تعالیٰ کی مصلحت کے خلاف ہے ۔ بخیل دنیا میں بھی طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلوں میں گرفتار رہتا ہے کہ سب کچھ پاس ہونے کے باوجود بھی اس کو اچھا کھانا ‘ اچھا پہننا کبھی نصیب نہیں ہوا ۔ بخیل اور بخل کی تفصیل ہم پیچھے سورة آل عمران کی آیت 180 ‘ سورة النساء کی آیت 37 ‘ سورة التوبہ کی آیت 76 میں وضاحت سے کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں ۔ اس جگہ (یقتروا) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کی اصل (قتر) ہے جو اسم فعل اور مصدر ہے جس کے معنی ہیں کہ خرچ بہت ہی کم کرنا ‘ کنجوسی ‘ بخل ‘ اسراف کی ضد ہے (قتورا) کے معنی اہل و عیال کو خرچ کم دینے کے ہیں اور یہ بخل کا دوسرا نام ہے ۔
Top