Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور اللہ کے (کامل) بندے وہ ہیں جو زمین پر منکسر المزاجی سے چلتے ہیں (بلاشبہ وہ دھیمی چال ہی ہو سکتی ہے) اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ (ان کو) سلام کردیتے ہیں
جو لوگ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جہالت کو ساتھ سلام کرتے ہیں : 63۔ زیر نظر آیت سے لے کر آخر سورت تک (عباد الرحمن) کے نشانات گنوائے گئے ہیں اور ان آیات میں سے اس پہلی آیت میں ان کی دو نشانیاں ذکر کی گئی ہیں اور قرآن کریم کی بلاغت کا اندازہ کیجئے کہ بندوں کو خاکساری کی تعلیم دینا مقصود تھی تو ان کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا جا رہا ہے کہ ” رحمت والیے اللہ کے بندے “ گویا یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ جب رحمت اور مہروکرم والا ہے تو اس کے بندوں میں خلق خدا کے ساتھ تواضع وملنساری ظاہر ہونا ضروری ہے ، قرآن کریم میں تواضع اور خاکساری کے مختلف مظاہر بتائے گئے ہیں جن میں کچھ اس طرح ہیں کہ لوگوں سے بےرخی نہ کیجئے ۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلئے اور چال ڈھال میں غرور کا شائبہ نہ اپنائیے اور آواز میں سختی اور بھونڈا پن نہ رکھئے اور جا بجا قرآن کریم نے تواضع وخاکساری اور دنائت و پستی کا فرق بھی واضح کیا ہے اس کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے مثلا یہ کہ تواضع وخاکساری کا منشا یہ ہے کہ انسان میں کبر و غرور اور نخوت جیسے رذائل پیدا نہ ہوں اور ہر شخص ایک دوسرے کی عزت کرے اور دنائت و پستی کا مطلب یہ ہے کہ بعض ذلیل اغراض کے لئے انسان اپنی خوداری کھودے ، مختصر یہ کہ زیر نظر آیت میں پہلا نشان جو ان لوگوں کو بتایا گیا ہے اس میں خاکساری اور فروتنی کی صورت یہ بتائی گئی کہ ان کی رفتار دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ وقار ومتانت کا ایک پیکر چلا آرہا ہے جس میں نہ غرور ہے اور نہ رعونت ‘ نہ چال کا اتار چڑھاؤ بلکہ وہ سبک رفتار ہیں اور ان کے گزرنے سے کسی کو ان سے کوئی تکلیف پہنچنے کا اندیشہ نہیں اور بلاشبہ وہ اہلا وسہلا مرحبا کے مستحق ٹھہرتے ہیں کیونکہ انکو ایسے کہنے میں کسی کو کوئی تکلف نہیں کرنا پڑتا۔ عبادالرحمن کی دوسری نشانی یہ بیان فرمائی گئی کہ ان کو جب جاہلوں سے واسطہ پیش آتا ہے اور وہ اپنی جہالت کا کوئی مظاہرہ کردیتے ہیں تو وہ جوابی کاروائی میں غصہ سے لال پیلے نہیں ہوجاتے بلکہ اس کو بڑے دل گردے کے ساتھ برداشت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کی طرف متوجہ ہو کر ان کو ترکی بہ ترکی جواب بھی نہیں دیتے اور ان کو سات سلام کہتے ہوئے اس طرح گزر جاتے ہیں کہ گویا کوئی بات جہالت کی ان کے ساتھ نہیں ہوئی ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خوش گوئی اور خوش کلامی آپس میں میل ملاپ پیدا کرتی ہے اور بدگوئی اور بدکلامی پھوٹ پیدا کرتی ہے اس لئے بدکلامی شیطان کا فعل ہے وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ ونفرت اور حسد وبغض کا بیج بوتا ہے اس لئے اللہ کے بندے ہمیشہ نیک بات کہتے ہیں اور اگر دوسری طرف سے کوئی بری بات سنتے ہیں تو جواب نہیں دیتے بلکہ خاموش اختیار کر جاتے ہیں اگر جواب دینا ضروری ہو تو سختی سے نہیں نرمی سے حقیقت حال کہہ دیتے ہیں اور اس میں بھی ان کا لہجہ نہایت محتاط ہوتا ہے خیال رہے کہ یہ بات جتنی کہنا آسان ہے اتنی ہی کرنا مشکل ہے اس لئے اس میں کہنے سے زیادہ کرنے کا خیال رکھنا اور بھی ضروری ہے اور یہ یاد رکھنا کہ نیکی کے عوض میں کی گئی نیکی نہیں بلکہ برائی کے مقابلہ میں کی گئی نیکی حقیقی تصور کی جاتی ہے ۔
Top