Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 57
قُلْ مَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا
قُلْ : فرما دیں مَآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مِنْ : کوئی اَجْرٍ : کوئی اجر اِلَّا : مگر مَنْ شَآءَ : جو چاہے اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ اختیار کرلے اِلٰى رَبِّهٖ : اپنے رب تک سَبِيْلًا : راستہ
(اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ فرما دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا ہاں ! یہ کہ تم میں جو کوئی چاہے اپنے رب کی راہ اختیار کر لے
اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر تو پیغام پر طلب نہیں کرتا : 57۔ قرآن کریم میں جتنے انبیاء ورسل کا ذکر کیا گیا سب سے اس بات کا اعلان کروایا گیا اور ہر ایک نے اس کا اعلان کیا کہ اے میری قوم کے لوگو ! میں تم سے اس پیغام پر جو تم کو سنا رہا ہوں کوئی عوض طلب نہیں کرتا اور یہی بات نبی اعظم وآخر ﷺ سے بار بار کہلائی گئی چناچہ (ان اجری الا علی اللہ) کے الفاظ قرآن کریم میں 9 بار آئے ہیں یعنی یہ دین اسلام کی باتیں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں اور شب و روز اس میں مصروف ہوں ‘ تمہارے طعنے سن کر خاموش ہوجاتا ہوں ‘ تمہاری اذیت رسائیوں پر صبر کرتا ہوں تمہاری گالیاں سن کر دعائیں دیتا ہوں تو یہ سب کچھ اس لئے برداشت کر رہا ہوں کہ تم مجھے کوئی تنخواہ دیتے ہو اور میں اس لئے اس کو برداشت کر رہا ہوں کہ کہیں میری تنخواہ بند نہ ہوجائے ، غور کرو کہ دنیا کا وہ کونسا دکھ ہے جو تم نے مجھے نہیں دیا اور پھر میں نے اس کو برداشت نہیں کیا کیا میں نے پھر اللہ کا پیغام سنانا بند کردیا ؟ اگر نہیں تو یقینا میں سمجھتا ہوں اور میرا پختہ یقین ہے کہ میرا یہ اجر رب کریم کے ذمہ لازم ہے اور وہ مجھے یقینا عطا فرمائے گا کیونکہ اس کا بھیجا ہوا تمہارے پاس آیا ہوں چناچہ میرا اجر یقینا محفوظ ہے ۔ رہے تم تو تمہارے ہاں مجھے اتنا اجر ہی کافی ہے کہ تم اس پیغام کو قبول کرلو ۔ اس بات کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا : (آیت) ” حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم “۔ (التوبہ 9 : 128) ” وہ تمہاری بھلائی کا بڑا خواہش مند ہے وہ مومنوں کے لئے بڑا شفقت کرنے والا ‘ رحمت والا ہے ۔ “ اس لئے تمہارا حق قبول کرلینا تمہارا راہ ہدایت پر گامزن ہوجانا اور ہر طرف سے منہ موڑ کر تمہارا طالب حق تعالیٰ بن جانا ہی میری ان ساری جانکاہیوں اور جانفشانیوں ‘ دلگدازیوں اور ساری مشقتوں کا بہترین صلہ ہے ، سورة سبا میں اس کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ (آیت) ” قل ما سالتکم من اجر فھو لکم ان اجری الا علی اللہ وھو علی کل شیء شھید “۔ (سباء 34 : 47) ” تمہاری بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا ‘ میرا اجر بس یہی ہے کہ تم درست ہوجاؤ اور اللہ تعالیٰ بلاشبہ ہرچیز پر گواہ ہے ۔ “ اور یہ بات زیر نظر آیت میں ارشاد فرمائی گئی کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ فرما دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا ہاں ! یہ کہ تم میں کوئی چاہے تو اپنے رب کی راہ اختیار کرے ۔ “ مزید وضاحت کے لئے عروۃ الوثقی میں سورة التوبہ کی آیت 128 کی تفسیر دیکھیں مزید وضاحت وہاں مل جائے گی ۔
Top