Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 51
وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیْرًا٘ۖ
وَلَوْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہتے لَبَعَثْنَا : تو ہم بھیجدیتے فِيْ : میں كُلِّ قَرْيَةٍ : ہر بستی نَّذِيْرًا : ایک ڈرانے والا
اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیج دیتے
ہم چاہتے تو ہر بستی کے لئے الگ الگ رسول بھیج دیتے : 51۔ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہم چاہتے تو ہر ایک بستی میں الگ الگ رسول بھیج دیتے جیسا کہ آپ ﷺ سے پہلے ہم ہر ایک بستی اور ہر ایک قوم میں الگ الگ رسول بھیجتے ہی رہے ہیں جیسے کہ پیچھے سورة یونس کی آیت 47 ‘ سورة النحل کی آیت 36 ‘ سورة الرعد کی آیت 7 ‘ سورة ابراہیم کی آیت نمبر 4 میں تفصیل سے بیان کر آئے ہیں اور اس طرح سورة فاطر اور روم میں بھی یہ مضمون آئے گا ۔ اب بھی اگر ہماری حکمت کا تقاضا ایسا ہوتا تو ایسا کرسکتے تھے کہ ہر ایک بستی میں علیحدہ علیحدہ نبی ورسول بھیج دیتے لیکن حکمت کا اب یہ تقاضا نہیں ۔ انسانیت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو یکجا کرنے کا موزوں وقت اب آپہنچا ہے بہت سی امتوں کی نہیں اب ایک امت کی ضرورت ہے جو حق کی امین بنائی جائے اور اس کی یہی ایک صورت ہے کہ ساری اقوام عالم کا ایک ہی ہادی ہو ۔ اب رات گزر گئی جب کہ ہر گھر میں الگ الگ چراغ جلائے جاتے تھے ‘ اب دن طلوع ہوگیا ہے ‘ اب قیامت رسالت محمد رسول اللہ ﷺ ہی شرق وغرب ‘ نشیب و فراز اور دور ونزدیک سب کو منور کرے گا چناچہ اب آفتاب رسالت محمدی طلوع ہونے کے بعد جو بھی کوئی دوسرا چراغ جلائے گا وہ احمق ہی اپنا نام رکھے گا کیونکہ آفتاب کی موجودگی میں کوئی بھی چراغ روشن کرنے والے کو احمق ہی کہا جائے گا خواہ وہ گھی کے چراغ ہی کیوں نہ جلائے ، بلاشبہ کہنے کو تو آج بھی ہم یہی کہتے ہیں اور رہتی دنیا تک یہی کہتے رہیں گے لیکن قابل غور امر تو یہ ہے کہ کیا آج قوم مسلم کا عمل بھی اس عقیدہ کا ساتھ دیتا ہے یا قول وعمل میں تضاد آگیا ہے اور دن بدن تضاد بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ، ہر قاری کا اپنا فرض ہے کہ اس بات پر غور کرے اور اس سوال کا جو جواب وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے دل سے پاتا ہے اس کو اپنی بیاض حق میں نوٹ کر کے اپنے علمائے گرامی قدر سے بھی دریافت کرے کہ وہ کیا ارشاد فرماتے ہیں اور ان کے عمل ورویہ کو بھی دیکھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ازیں بعد ایک بار بس دماغ پر بوجھ ڈال کر معلوم کرے کہ کیا ہم سب دیوبندی ‘ بریلوں ‘ اہلحدیث ‘ شعیہ اور سنی اور پھر ان سارے گروہوں کے اندر جو مزید جماعتیں بن چکی ہیں سب کے سب ملکر ایک ہی امت کہلاسکتے ہیں اگر نہیں تو کیا اس طرح بعثت محمدی کا انکار ثابت نہیں ہوتا ؟ کیا اعتقاد کا انکار جب عمل کر رہا ہو تو اس کا انکار نہیں کہتے ؟ کیا عمل عقیدہ کے اظہار کی تصدیق نہ کرتا ہو تو پھر بھی عقیدہ کو صحیح کہا جاسکتا ہے ؟ اپنے دل ہی دل میں سارے فیصلے نہ کرلیں کچھ ہمیں بھی مطلع کریں ‘ ہم منتظر ہیں جب تک زندہ ہیں ۔
Top