Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
اور بلاشبہ ہم نے اس ( قرآن کریم) کو لوگوں کے درمیان (طرح طرح سے) بیان کیا تاکہ لوگ یاد رکھیں ، لیکن اکثر لوگ ناشکری کیے بنا نہیں رہتے
تصریف آیات کے تحت ہم سمجھاتے ہیں اگر کوئی سمجھنے والا ہوں : 50۔ ” اور بلاشبہ ہم نے اس کو لوگوں کے درمیان بیان کیا تاکہ لوگ یاد رکھیں (صرفنہ) کی ضمیر کو مفسرین نے زیادہ تر بارش کی طرف پھیرا ہے اور بعض نے موسموں کے تغیر وتبدل کا بھی ذکر کیا ہے اور قرآن کریم کی طرف بھی ہمارے خیال اس آخری مرجع کی طرف ہے کیونکہ اس طرح اس مضمون کی طرف بھی اور قرآن کریم کی انقلاب عظیم کی طرف بھی اور بارش کی مضمون کی طرف بھی خود بخود منتقل ہوجائے گا کیونکہ قرآن کریم میں بارش کے مضمون کو بار بار بیان کرکے اور اس کی مثال دے دے کر بات سمجھائی ہے اور قرآن کریم نے جو انقلاب عظیم پیدا کیا ہے یہ تمام مثالیں اس پر بھی فٹ ہوتی ہیں اسی طرح دوسرے تمام تغیرات کا ذکر جگہ جگہ کیا گیا ہے اور مقصود سب کا ایک ہی ہے اور وہ وحی الہی کی اہمیت یاد کرانا ہے اور نزول قرآن کریم کی افادیت کو سمجھانا ہے ۔ اس لئے زیر نظر آیت کو توحید کی دلیل ‘ آخرت کی دلیل ‘ جاہلیت اور وحی ونبوت کی دلیل قرار دیا جاسکتا ہے اور تینوں رخ قرآن کریم کی طرف ہیں کیونکہ وحی تو قرآن کریم ہی قرار پایا ہے۔ 1۔ توحید کی دلیل کے ورطے سے دیکھا جائے تو مفہوم اس طرح ہوگا کہ اگر یہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے اتنے بڑے انتظام ہی میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں اس میں موجود ہیں کہ تنہا انہیں پر غور وفکر کیا جائے تو یہی نشانیاں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی وحدانیت پر اطمینان دلا سکتی ہیں لیکن ہم بار بار ان لوگوں کی اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں لیکن ان لوگوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی اور ہماری ان آیتوں سے ذرا بھی سبق حاصل نہیں کرتے اور شرک کی طرف اندھے ‘ بہرے ہو کر دوڑ رہے ہیں ۔ 2۔ آخرت کی دلیل کے ورطے پر دیکھا جائے تو مفہوم اس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی اپنی زندگی کے مثال بھی موجود تھی جو ہر آن اور لحظہ بدلتی رہتی ہے اور بدلتے بدلتے کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے اور پھر یہ موسموں کا تغیر وتبدل بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہے انکی زندگی میں کتنے موسم بہار آئے ہیں اور کتنی خزائیں انہوں نے دیکھی ہیں ‘ کتنی گرمیوں میں یہ الامان والحفیظ پڑھتے رہے اور کتنی سردیوں میں شل ہو کر رہ گئے ان ساری تبدیلیوں کو دیکھ کر بھی یہ ایک تبدیلی پر ایمان نہیں لائے کیا یہ تبدیلیاں جو وہ روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں ان کے ارادہ سے آتی ہیں یا ان کے ارادہ سے جاتی ہیں ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ تبدیلیاں کون لاتا ہے ؟ کوئی حکومت لاتی ہے ‘ یہ سیاسی لیڈر لاتے ہیں یا یہ مذہبی پیشوا لاتے ہیں ؟ نہیں ! تو آخر لاتا کون ہے ؟ ہم ان کو یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ جو ذات یہ تبدیلیاں لاتی ہے وہی اس دنیوی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی میں تبدیل کر دے گا اور اس جگہ کی موت وہاں کی زندگی سے بدل دے گا یعنی جو یہاں موت لاتا ہے وہی وہاں موت پر موت طاری کر دے گا لیکن یہ خاموش ہو سکتے ہیں اس بات کو مان نہیں سکتے ۔ 3۔ بارش کو گردش دیتے رہنے کے ورطے سے دیکھتے تو بھی ان کو یقین کرنا چاہئے تھا کہ جس طرح بارش ہر جگہ پر یکساں نہیں ہوتی ایک جگہ اتنی برستی ہے کہ ندیاں نالے اس کو برداشت ہی نہیں کرسکتے اور کہیں اتنی ہوتی ہے کہ مقامی ضرورت بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی اور کہیں بالکل خشک سالی ہوتی ہے اور ایک بوند بھی نہیں گرتی کہ لوگ بارش کو ترس ترس جاتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ جہاں بارش ہوتی ہے اس کا اثر ایک جیسا نہیں ہوتا کہیں تو اس سے کھیت لہلہا اٹھتے ہیں اور کہیں جو بیج ڈالا جا چکا ہوتا ہے اس کو بھی وہ بہا کرلے جاتی ہے اور کہیں شور زمین ہوتی ہے جس سے اس کے شور میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور کہیں یہ بارش اس قدر تعفن پیدا کردیتی ہے کہ وہاں سے گزرنا بھیم شکل ہوجاتا ہے ۔ اگر غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوگا کہ یہی عمل وحی الہی سے بھی ہوتا ہے کہ جب تک وحی کا سلسلہ جاری تھا اس وقت پوری دنیا کی مثال ہر جگہ بارش یکساں نہ ہونے کی صادق آتی تھی اور جب پوری انسانیت کے نبی اعظم وآخر ﷺ کی بعثت ہوئی تو بارش کی دوسری مثال کا معاملہ ہوا کہ بلاشبہ آپ ﷺ کی بعثت سارے جہانوں کے لئے یکساں تھی لیکن وحی الہی کے آنے کے بعد جن کے دلوں کی زمین بنجر تھی ان پر وہی اثر ہوا جو بنجر زمین پر ہوتا ہے کہ اس کا شور مزید بڑھ گیا اور بعض جگہ ایسا بھی ہوا کہ اس وحی الہی کی وجہ سے تعفن مزید بڑھ گیا کیونکہ اس جگہ پلیدی اور ناپاکی کے ڈھیر پڑے تھے جہاں یہ بارش ہوتے ہی بدبو اور سڑاند بڑھ گئی اور جن کے دلوں کی زمین زرخیز تھی وہاں ماشاء اللہ اس بارش کے ہوتے ہی پھول اور پتیاں نکلنی شروع ہوگئیں اور یہاں کی زمین اور فضا معطر ہوگئی ‘ جس کی ماشاء اللہ آج تک ہم سونگھ رہے ہیں اور یہ حالت قیامت تک جاری وساری رہے گی کہ جیسی کسی کے دل کی زمین ہوگی ویسا ہی اس پر اثر ہوگا ، قرآن کریم کو کھولتے ہی اس مضمون کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر دیکھنا مقصود ہو تو سورة البقرہ کی آیت 26 کا مطالعہ کریں ۔ اختصار اس کا یہ ہے کہ (صرفنہ) کی ضمیر بارش کی طرف نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے بلکہ قرآن کریم کی طرف ہے اور اس طرح مضمون زیادہ وسیع ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے جو انقلاب عظیم آنے والا تھا اس کو طرح طرح کے پیرایوں میں بیان کیا ہے اور اس جگہ بھی تین مختلف پیرائے اختیار کئے ہیں جن کی وضاحت اوپر بیان کردی گئی ہے ۔
Top