Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 49
لِّنُحْیَِۧ بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّ نُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ كَثِیْرًا
لِّنُحْيِۦ بِهٖ : تاکہ ہم زندہ کردیں اس سے بَلْدَةً مَّيْتًا : شہر مردہ وَّنُسْقِيَهٗ : اور ہم پلائیں اسے مِمَّا : اس سے جو خَلَقْنَآ : ہم نے پیدا کیا اَنْعَامًا : چوپائے وَّاَنَاسِيَّ : اور آدمی كَثِيْرًا : بہت سے
تاکہ ہم اس سے مری ہوئی بستی کو زندہ کردیں اور اپنے پیدا کیے ہوئے چوپایوں اور بہت سے لوگوں کو اس سے سیراب کریں
پانی سے مردہ زمین کا زندہ ہوجانا اور جانوروں اور انسانوں کا پینا کتنی واضح بات ہے : 49۔ تمہارے غور وفکر کی بات ہے اگر تم غور وفکر کرو کہ یہ دنیا جس کے ہر گوشہ میں اتنی حکمتیں اور قدرتیں نمایاں ہیں بغیر کسی خالق کے وجود میں آگئی ہے ؟ آسمان سے لے کر زمین تک ابر ‘ ہوا ‘ بارش اور انسان وحیوانات کی ساری ضروریات میں یہ ربط آپ سے آپ پیدا ہوگیا ہے ؟ کیا اضداد کی اس ہم آہنگی کے مشاہدہ کے بعد بھی یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر مختلف ارادے کار فرما ہیں ؟ کیا رحمت و ربوبیت کا یہ اہتمام انسان پر اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی طرف سے کوئی بھی ذمہ داری عائد نہیں کرتا ؟ کیوں نہیں ‘ یقینا کرتا ہے اور وہ یہی ہے کہ انسان اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی عبادت کرے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرے ‘ اس کو اپنا رب تسلیم کرے اور اس کے سوا کسی کو اپنا رب تسلیم نہ کرے ۔ اس آیت میں مزید وضاحت فرما دی گئی کہ جس طرح بارش سے کسی غیر آباد شہر کو آباد کردیا جاتا ہے بعینہ اسی طرح اس مکہ کی زمین کو اپنی رحمت وحی کی بارش سے مستفید کرنا چاہتا ہے تاکہ یہاں کی مردہ قوم ایک زندہ قوم میں تبدیل ہوجائے اور جس طرح بارش کے پانی سے بہت سے انسان اور جاندار مستفید ہوتے ہیں اسی طرح وحی الہی کی بارش سے حیوان صفت انسان بھی صحیح معنوں میں انسان بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ انسان بننا چاہیں ۔ بلاشبہ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ اس نے اس وحشی قوم کو زیادہ دیر نہیں لگی تھی کہ بام عروج پر پہنچا دیا ایک دنیا جس کی گواہ ہے لیکن افسوس کہ اس وقت ہم اسی قرآن کو دن رات پڑھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری انسانیت دن بدن ختم ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہم حیوانیت کی طرف دوبارہ رواں دواں ہیں ۔
Top