Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
وَقَالَ : اور کہے گا الرَّسُوْلُ : رسول يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِي : میری قوم اتَّخَذُوْا : ٹھہرا لیا انہوں نے ھٰذَا الْقُرْاٰنَ : اس قرآن کو مَهْجُوْرًا : متروک (چھوڑنے کے قابل)
اور رسول فرمائے گا ، اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن (کریم) کو چھوڑ رکھا تھا
قیامت کے روز نبی اعظم وآخر ﷺ کا اپنے رب سے شکوہ : 30۔ اس دنیوی زندگی کو ثبات کب ہے ؟ ایک ایک دن کرکے جب وہ کٹ جاتی ہے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ شاید ابھی کل دنیا میں بھیجے گئے تھے اور آج واپس بھی بلا لئے گئے ہیں اور پھر کیا ہے فرمایا وہ دن جس کا یقین ہی نہیں آتا تھا وہ آجائے گا تو معلوم ہوگا کہ ہم دنیا میں کیا کرتے رہے ؟ اس وقت اپنی بدبختی پر اپنا اپنا سرپیٹیں گے کیوں ؟ اس لئے کہ سب کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ جس کو ہم باہر سے تلاش کرتے رہے تھے وہ تو ہمارے ہی اندر تھا اور دوسری طرف آنکھ اٹھائیں گے تو رسول اللہ ﷺ کی یہ صدا سنائی دے گی کہ اے رب ! میں نے تیری کتاب پوری دل سوزی اور نہایت کوشش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی لیکن ان لوگوں نے اس کی کوئی قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنی چاہئے تھی اس کو تو یہ لوگ مردوں پر پڑھتے رہے اور مذہبی ٹھیکہ داروں نے ان کو یہ سمجھایا کہ اس سے اپنے مرے ہوؤں کو بخشوا لو اور صبح وشام چوملیا کرو اور غلاف میں بند کر کے رکھو اور دیکھو اس کو اپنے سروں سے اونچا رکھو اس لئے یہ لوگ اس کی اصل قدر کی طرف آتے ہی نہیں یا ان کو آنے ہی نہیں دیا گیا اے میرے رب ! یہ لوگ تو اس کی تفہیم سے ہمیشہ دور ہی رہے اور رسول اللہ ﷺ کے اس اعلان کے بعد ان بدبختوں کو اٹھا کر ان کی اصل آرام گاہ میں پھینک دیا جائے گا اور اس میں ان کو رہنا ہوگا چاہے وہ اس میں بےآرام رہیں اور یہی حال دوسری امتوں اور ان کے رسولوں کی شہادت کا ہوگا ۔ تفصیل اس کی سورة المائدہ کی آیت 109 میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیں ۔
Top