Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 80
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّا : سوائے اَيَّامًا : دن مَعْدُوْدَةً : چند قُلْ اَتَّخَذْتُمْ : کہ دو کیا تم نے لیا عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس عَهْدًا : کوئی وعدہ فَلَنْ يُخْلِفَ اللّٰہُ : کہ ہرگز نہ خلاف کرے گا اللہ عَهْدَهُ : اپنا وعدہ اَمْ : کیا تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو عَلَى اللہِ : اللہ پر مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : جو تم نہیں جانتے
اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں کبھی چھونے والی نہیں ، اگر ہم آگ میں ڈالے بھی گئے تو صرف چند گنتی کے دنوں کیلئے ڈالے جائیں گے ، کہیے یہ بات تم کیسے کہتے ہو ؟ کیا تم نے اللہ سے نجات کا کوئی پٹا لکھا لیا ہے کہ اب وہ اس کے خلاف نہیں کرے گا یا پھر تم اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کیلئے تمہارے پاس کوئی صحیح علم نہیں ہے
یہود کے خوش کن عقائد میں ایک عقیدہ نجات : 157: یہود کے خود تراشیدہ عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ یہودی کہلانے والا خواہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو وہ کبھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ ہاں مجرموں کے لئے جو عذاب ہے وہ بھی چند روز کا عذاب ہے پھر چند روز کے متعلق بھی ان کے مختلف اقوال ملتے ہیں۔ بعض سات روز کہتے ہیں اور بعض کا عقیدہ چالیس روز کا ہے اور گیارہ ماہ یا ایک سال سے زیادہ تو کسی کے عقیدہ میں بھی نہیں ہے۔ یہود سے پوچھا جا رہا ہے کہ یہ عقیدہ جو تم نے بنا رکھا ہے کہ ” ہم کو دوزخ کا عذاب نہیں چھوئے گا “ اس کی کوئی دلیل بھی آپ کے پاس ہے یا خالی عقیدہ کے نام سے ایسے ہی تم نے مشہور کر رکھا ہے۔ اس کی سند کا مطالبہ ظاہر ہے کہ تورات ہی سے کیا جاسکتا تھا اور اس کی دلیل طلب کی گئی لیکن کوئی دلیل ہوتی تو وہ پیش کرتے۔ عجب اتفاق ہے کہ آج بھی جب بد عقیدوں سے اس بات کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کی دلیل کتاب و سنت سے بتادو تو وہ جز بز ہونے لگتے ہیں اور کہتے ہیں تو صرف یہ ، کیا آج تک سارے غلط ہی تھے ؟ آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا آج اس کو کیا وحی اتری ہے ؟ حالانکہ یہ سب سوال ہیں جواب نہیں ، ان سے سوال کیا جاتا ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس سوال کا جواب دیں سوال پر سوال کئے جاتے ہیں۔ اس طرح گویا ان کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ اسی طرح کے عقائد مسلمانوں میں بھی راسخ ہوچکے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ جس نے امام حسین ؓ کے عشق میں دو آنسو بہا لئے وہ ایسے گروہ میں داخل ہوگیا جو صرف جنت کا مستحق ہی نہیں بلکہ جنت داخل کرنے والوں کا سرٹیفکیٹ جن کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی کہتا ہے جو شخص شیخ عبدالقادر (رح) کے سلسلہ میں داخل ہوگیا وہ دوزخ میں کبھی نہیں جائے گا۔ دیکھو فلاں دھوبی صرف شیخ عبدالقادر (رح) کے کپڑے دھوتا تھا وہ مرگیا منکر و نکیر اس کے پاس آئے اور پوچھا کہ ” من ربک ؟ “ تیرا رب کون ہے ؟ جواب ملتا ہے ” میں نہیں جانتا “ لیکن اس سے دوسرا سوال کیا جاتا ہے ” ما دینک ؟ “ تیرا دین کیا ہے ؟ جواب ملتا ہے میں نہیں جانتا۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ ” من نبیک ؟ “ تیرا نبی کون ہے ؟ وہ ایک ہی جواب جانتا ہے کہ ” میں نہیں جانتا “ پھر اس سے اصرار کیا جاتا ہے کہ آخر تو بلا کیا ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ میں عبدالقادر (رح) کا دھوبی ہوں۔ انجام کار فرشتے واپس جا کر رب کریم سے پوچھتے ہیں کہ اے اللہ ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ اللہ فرماتا ہے۔ دیکھو جان کی امان مل گئی ہے آپ بخیریت واپس آگئے ہیں۔ اگر وہ روحوں والا تھیلا آپ سے چھین لیتا تو مجھے سب کو دوبارہ دنیا میں بھیجنا پڑتا۔ اب دوبارہ اس کے پاس نہ جان۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ00 اس طرح کے خیالات فاسدہ یہودیوں اور عیسائیوں ہی سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور مسلمانوں نے ان کو حرز جاں بنا لیا ہے اسلام ایسے نظریات کا ہرگز ہرگز حامل نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم نے تو واضح اعلان فرمادیا ہے کہ : لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا خواہ وہ کوئی ہو۔ بلکہ قرآن مجید نے تو وضاحت فرمادی کہ کسی بزرگ کی اولاد میں سے ہونا یا کسی ولی کی طرف منسوب ہونا نجات کا باعث نہیں ہوسکتا۔ نجات کے لئے عمل صالحہ اور ایمان باللہ کی ضرورت ہے تمہیں معلوم ہے کہ نوح جیسے جلیل القدر نبی نے اپنے بیٹے کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو وہاں سے سخت ڈانٹ ملی فرمایا گیا۔ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ 1ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (11 : 46) تم کو یاد ہوگا کہ نوح اور لوط (علیہما السلام) کی بیویوں کو صرف اس لئے جہنم بھیج دیا گیا کہ انہوں نے عمل صالح کو اپنے پاؤں سے ٹھکرا دیا اور پیغمبروں کی رشتہ داری کے گھمنڈ میں مغرور ہوگئیں تم اس کو بھی نہیں بھولے ہوگے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے کوہ صفا پر قبائل کو جمع کر کے ان کے سامنے دعوت حق پیش کی تھی تو اس خطبہ کے آخری الفاظ کیا تھے ؟ کہ اے فاطمہ محمد کی بیٹی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالے اس لئے کہ میں تیرے نفع و ضرر کا ذرہ برابر بھی مالک نہیں ہوں۔ پھر یہ کس درجہ جہل و نادانی ہے کہ بزرگوں کے نام لیوا ہونے کی بنا پر نجات کے دعویدار بنتے ہیں اور دل ہیں کہ ایمان کی دولت سے بالکل خالی ہیں۔ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی بات کہہ دیتا ہے کہ ایسا ہوگا تو گویا یہ اس کا قولی وعدہ ہوگیا اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ ویسا نہ ہو جیسا کہ اس نے ہونے کا کہا ہے لہٰذا اس مضمون کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ” اللہ وعدہ خلافی کرتا ہے اور نہ وعدہ خلافی ہونے دیتا ہے “ یعنی اس کے کہے ہوئے پر کوئی دوسرے خواہ وہ کوئی ہو حاوی نہیں ہوسکتا۔ کاش کہ آج مسلمان بھی یہ بات سمجھ جاتے۔
Top