Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں أُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے الْكِتَابَ : کتاب اِلَّا اَمَانِيَّ : سوائے آرزوئیں وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَظُنُّوْنَ : گمان سے کام لیتے ہیں
اور پھر اس قوم میں وہ لوگ بھی ہیں جو نرے ان پڑھ ہیں اور کتاب الٰہی کو اپنی آرزوؤں کے سوا کچھ نہیں جانتے اور محض وہموں میں مگن ہیں
اَن پڑھ اور جاہل ہونا کیا ہے ؟ 155: مسلمانوں کو خیال تھا کہ اگر عالم ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو شاید جاہل ہی اس طرف رخ کریں اور تکثیر سواد ہی کا فائدہ حاصل ہو ، ایسے لوگوں سے کسی طرح کی توقع رکھنا عبث و بیکار ہے یہ عوام کالانعام نہ پڑھے نہ لکھے۔ باپ داد کی لکیر کے فقیر۔ اپنے دل کی گھڑی ہوئی آرزوؤں اور خوش کن روایتوں اور سنی سنائی باتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تورات پڑھتے ہیں مگر مفہوم و مطلب سے کوئی غرض نہیں۔ صرف الفاظ پر قناعت کرتے ہیں اور طوطے کی طرح رٹ لیتے ہیں اور باوجود اس کے یقین رکھتے ہیں کہ جنت میں داخل ہوں گے ان کے ذہن و دماغ میں کبھی خیال بھی نہیں آیا کہ معنی سمجھے بغیر کتاب الٰہی کس کام آسکتی ہے۔ ” اَمَانِیَّ “ امنیۃ کی جمع ہے جس کے معنی تو یہ ہیں کہ یہ لوگ محض اپنی آرزوؤں کو پالتے رہتے ہیں جنہیں واقعیت اور حقیقت سے اصلاً تعلق نہیں ہے۔ دوسرے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ یہ لوگ جھوٹی روایتوں ، بےثبوت و بےسند باتوں میں الجھے رہتے ہیں جو کچھ علمائے سو سے سن لیا اس کو تقلیداً اور عقیدۃً تسلیم کرلیا ہے اور پھر جو تسلیم کر بیٹھے اس کے خلاف ہزار دلائل ہوں ان کو خس و خاشاک سے زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔ گویا لکھنا پڑھنا جانتے نہیں مگر خواہشات بڑی بڑی ہیں اپنے علماء سوء سے جو کچھ سن رکھا ہے اس کو مایہ ناز و سرمایہ آخرت تصور کرتے ہیں ان کی آرزو ہائے باطلہ پر دھیان دیں کہ : (ا) جنت میں یہودی اور نصرانی کے سوا دوسرا کوئی شخص داخل نہیں ہوسکتا۔ لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى1ؕ ۔ (2 : 111) (ب) اگر بہ فرض محال ہم میں سے یعنی یہود میں سے کوئی جہنم کی طرف گیا بھی تو صرف چند روز کے لئے۔ وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً 1ؕ (2 : 80) اس طرح کے خیالات فاسدہ ہیں جو ان کو خوش رکھتے ہیں حالانکہ جنت میں جانے کا قاعدہ یہ ہے کہ صرف اور صرف ایک اللہ کی غلامی کی جائے اور قلب سلیم لے کر اس کے حضور میں حاضر ہو اس لئے کہ وہاں مال و دولت اور حسب و نسب کام نہیں آئیں گے۔ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ0088 اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ0089 (الشعرا 26 : 88 ، 89) اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : بَلٰى 1ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ 1۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (رح) 00112 (2 : 112) ” ہاں ! نجات کی راہ کھلی ہے مگر وہ خاص کسی گروہ بندی کے لئے نہیں وہ تو ایمان و عمل کی راہ ہے جس کسی نے بھی اپنے رب کے سامنے سر جھکادیا اور وہ نیک عمل بھی ہوا تو وہ اپنے رب سے اپنا اجر ضرور پائے گا نہ اس کے لئے کسی قسم کا کھٹکا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی غمگینی۔ “
Top