Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہاری بات آسانی سے مان جائیں گے حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے اور اس کا مطلب بھی سمجھتا ہے لیکن پھر بھی جان بوجھ کر اس میں تحریف کرلینے کا عادی ہے
جو کتاب اللہ میں تحریف کرنے سے باز نہیں آئے تم ان سے کیا توقع رکھتے ہو ؟ : 151: علماء کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یعنی یہودیت ، عیسائیت یا اسلام سے ان کا اصل فرض تو یہ ہے کہ جس قدر صحیح تعلیم ان کے پاس ہے بغیر ردو بدل اور کمی و اضافہ لوگوں کے سامنے پیش کردیں ۔ یہود کے علماء اس بات سے واقف تھے کہ سر زمین حجاز میں نبی آخر الزمان کی بعثت ہوگی۔ انہیں اوس و خزرج کے مقابلہ میں جب کبھی شکست ہوتی تو ہمیشہ انہیں ڈراتے کہ وہ وقت بھی قریب ہے جب ہم اس نبی کے ساتھ مل کر تمہیں فنا کردیں گے چناچہ یہی تادیبی کلمات اوس و خزرج کے اسلام کا باعث بنے لیکن جس وقت آپ کی بعثت ہوئی تو چونکہ آپ ﷺ بنی اسرائیل میں نہیں پیدا ہوئے تھے انکار کر بیٹھے اور جس قدر پیش گوئیاں نبی کریم ﷺ کے متعلق ان کی کتابوں میں تھیں ان کو لفظاً و معناً بدلنا شروع کردیا۔ قرآن کریم نے تحریف کا لفظ استعمال کیا اور یہ لفظ و معنی دونوں پر مشتمل ہے۔ کتاب مقدس میں تحریف لفظی اور معنوی کا ہونا اس درجہ مسلّم اور متفق علیہ امر ہے کہ اب اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں رہی۔ خود عیسائی محققین تسلیم کرتے ہیں کہ لفظی اور معنوی دونوں تحریفیں عمل میں آئی ہیں۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے اہل کتاب کی اس خرابی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ 1ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ 1ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ (المائدہ 5 : 13) ” یہ لوگ اللہ کی کتاب میں باتوں کو ان کی اصل جگہ سے پھیر دیتے تھے یعنی کلام اللہ میں تحریف کرتے تھے۔ جس بات کی انہیں نصیحت کی گئی تھی اس سے کچھ بھی فائدہ اٹھایا ان کے حصے میں نہ آیا اسے بالکل فراموش کر بیٹھے اور تم ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر اطلاع پاتے رہو گے۔ “ صرف اسی قدر نہیں کہ قرآن کریم نے ان کی اس حرکت کا ذکر کیا ہے لیکن ان کی نشاندہی نہیں کی۔ نہ ہی ان کی بہت سی ایسی اخلاق سوز حرکات کا واضح الفاظ میں بیان کیا ہے تاکہ کوئی شخص یہ نہ کہے کہ صرف مخالفت کی بنا پر ایسا کہہ دیا۔ چناچہ ایک جگہ نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ : ” ان کو کہا گیا کہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرو اور یہ تمہارا خرچ کیا ہوا مال تم کو اضعاف مصاعفہ کر کے واپس کیا جائے گا یعنی : یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ (الحدید 57 : 11) انہوں نے اس کو اس طرح بدلا کہ کہنے لگے : قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ 1ۘ (آل عمران 3 : 181 ) ” اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ “ آپ غور کریں کہ کیا خوبی تھی اللہ کے اس کلام میں کہ ” اللہ کو قرض دو “ لیکن انہوں نے اس کو کیا بنادیا کہ کلام کی ساری خوبی ختم ہو کر رہ گئی بلکہ صرف اس کی خوبی ہی نہ جاتی رہی ایک ٹھٹھہ یا مذاق بن گیا۔ ان کی زندگی کی بیسیوں مثالیں قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں جن کا ذکر اپنے اپنے مقام پر آتا رہے گا۔ مختصر یہ کہ اللہ کے غضب اور اس کی لعنت کا اثر یہ ہوا کہ ایک حصہ کتاب کا بالکل ہی چھوڑ دیا اور جس پر عمل کرنے کا ارادہ ہوا اس میں اپنی مطلب پرستی کے لئے بےجا تاویلات شروع کردیں اور اس طرح عملاً گویا تمام کتاب بیکار ہوگئی۔ اس جگہ قرآن کریم کے اعجاز کا ذکر بھی مفید ہوگا وہ اس طرح کہ قرآن کریم تحریف لفظی سے تو محفوظ رہا گویا یہی قرآن کریم کا اعجاز تھا مگر معنوی تحریف سے وہ بھی نہ بچ سکا۔ قرآن کریم پڑھنے کا قاعدہ یہ ہے کہ ایک شخص خالی الذہن ہو کر اس میں درس و فکر کرے اور شارع (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھے پھر دیکھے کہ قرآن کریم کن عقائد و یقینیات کی تعلیم دیتا ہے اور کن اخلاق و اعمال پر زیادہ زور دیتا ہے مگر اب حالت یہ ہے کہ آئے دنوں نئے نئے عقائد گھڑے جاتے ہیں پھر ان کی تائید کتاب اللہ سے تلاش کی جاتی ہے اور اس طرح اپنی رکیک تاویلات کا اس کو نشانہ بنایا جاتا ہے اسی کو تحریف معنوی کہتے ہیں جس کا ذکر : یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ میں ہوا ہے۔ ایک حنفی اٹھتا ہے اور قرآن کریم کو فقہ حنفی کے مطابق کر دکھاتا ہے۔ ایک شافعی کا کام یہی ہے کہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت مذہب شافعی کی تائید کرتی دکھا دے۔ اسی طرح ہر مکتبہ فکر کے علماء کا کام صرف یہی ہے کہ وہ ثابت کر دکھائیں کہ قرآن کریم ان کی گروہ بندی کی تائید کر ررہا ہے بلکہ اس کے نازل ہونے کے مقصد وحید ہی یہ ہے کہ وہ ہمارے مکتب فکر کی ترجمانی کرے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ00
Top