Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 265
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَمَثَلُ : اور مثال الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمُ : اپنے مال ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : خوشنودی اللّٰهِ : اللہ وَتَثْبِيْتًا : اور ثبات و یقین مِّنْ : سے اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل (جمع) كَمَثَلِ : جیسے جَنَّةٍۢ : ایک باغ بِرَبْوَةٍ : بلندی پر اَصَابَهَا : اس پر پری وَابِلٌ : تیز بارش فَاٰ تَتْ : تو اس نے دیا اُكُلَهَا : پھل ضِعْفَيْنِ : دوگنا فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يُصِبْهَا : نہ پڑی وَابِلٌ : تیز بارش فَطَلٌّ : تو پھوار وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
ہاں ! جو لوگ اپنا مال صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اس بات پر ان کے دل جم چکے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اونچی زمین پر اگایا ہوا باغ ہو کہ اس پر پانی برسے تو پھل پھول پیدا ہوجائیں اور اگر زور سے پانی نہ برسے تو ہلکی بوندیں بھی اسے شاداب کردینے کیلئے کافی ہوں اور یاد رکھو کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے
رضائے الٰہی کی خاطر مال خرچ کرنے والوں کا حال : 460: فرمایا : دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کو محض اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ اللہ کی رضامندی حاصل ہو اور نفس میں پختگی پیدا ہو۔ یہ اصول طے شدہ ہے کہ جس کام میں نفس کو تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے اس کے بار بار کرنے سے عادت ہوجاتی ہے اور پھر طبیعت میں وہی ملکہ راسخ ہوجاتا ہے ، نفس کی مزاحمت جاتی رہتی ہے اور دوسرے اعمال صالح میں بھی دقت نہیں پیدا ہوتی پھر اس پختگی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ چونکہ ہم اپنی عزیز ترین متاع حیات اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو جس چیز کیلئے اس کو خرچ کریں گے خود اس سے بھی ایک قسم کا ربط وتعلق قائم ہوجائے گا۔ اس سے اللہ کی راہ میں زیادہ ثابت قدمی اور وفاداری نوازش ہوگی اور اس سے مزاحمت کی قوت مغلوب و ضعیف ہوجاتی ہے۔ یہی دلیل ہے اس بات کی کہ عمل صالح سے جس طرح حصول اجر مقصود ہوتا ہے اسی طرح اصلاح نفس بھی مقصود ہوتی ہے۔ ” تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ “ کے یہ معنی تو ظاہر ہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں کہ وہ خرچ اس لیے کرتے ہیں کہ کمال ایمان اور ثابت قدمی اور اطمینان حاصل ہو لیکن اب دوسرے معنی بھی اس سے لیے گئے ہیں وہ یہ کہ ان کے دل اللہ کے کرم اور ثواب پر مطمئن ہیں ، وہ صرف مال کو نہ نقصان سمجھتے ہیں ، نہ بوجھ جانتے ہیں۔ اس باغ سے تشبیہ جو کسی اونچے مقام پر لگایا گیا ہو : 461: سائنس نے آج ثابت کیا کہ جوں جوں بلندی کی طرف جائیں ، ہوا لطیف ہوتی جاتی ہے اور موسم معتدل۔ قرآن کریم نے آج سے صدیوں پیشتر اس باغ کی مثال پیش کی جو کسی بلند مقام پر واقع ہو۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اخلاص کے ساتھ صدقہ و خیرات کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بلند اور موزوں مقام پر باغ ہو۔ جب بارش ہوگی تو اس کی شادابی دوگنی ہوجائے گی ، اگر زور سے پانی نہ بھی برسے گا تو ہلکی ہلکی بوندیں بھی اس سے سرسبز و شاداب کردیں گی کیونکہ اس میں شادابی کی استعداد موجود ہے جو اپنی اونچائی والی جگہ کی وجہ سے دوگنی ہوگئی کیونکہ اونچائی کی ہوا قدرۃً بارآور (Fruit full) ہوتی ہے۔ اس جگہ ” زور دار بارش “ سے مراد وہ خیرات ہے جو انتہا جذبہ خیر اور کمال درجے کی نیک نیتی کے ساتھ کی جائے اور ہلکی ہلکی پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے جس کے اندر جذبہ خیر کی اتنی شدت نہ ہو تاہم خیر بہرحال خیر ہی ہے۔ اسی حالت کو دوسری جگہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : ” یاد رکھو اللہ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا اگر ذرہ برابر بھی کسی نے نیکی کی ہے تو وہ اسے دوگنا کر دے گا اور پھر اپنے پاس سے ایسا بدلہ بھی عطا فرمائے گا جو بہت بڑا بدلہ ہوگا۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا 1ۚ (القصص 28 : 84) ” جو نیکی لے کر آئے گا تو اس کو اس سے بہتر اجر ملے گا (کیونکہ نیکی کا بدلہ دس گنا ہے) ۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 0039 (الروم 30 : 39) ” اور جو تم پاک دل سے واپس لینے کے لیے نہیں صرف اللہ کی رضامندی کے لیے دیتے ہو پس وہی لوگ ہیں جو اپنے مال کو دو چند کریں گے (اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا مال دوچند ہوگا) ۔ “ متلاشیانِ رضائے الٰہی سے خطاب : 462: ” جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ دیکھ رہا ہے “ مندرجہ بالا تمثیل کی زبان میں بیان اس حقیقت کا بھی تھا کہ جس درجہ کا اخلاص ہوگا اس درجہ کا اس کا بدلہ بھی ، تاہم اخلاص پھر بھی اخلاص ہے اگر وہ درجہ اعلیٰ میں نہ ہو تب بھی جبکہ احسان نہ جتایا اور اس طرح ایذا نہ پہنچائی تو بھی صدقہ کے مقبول ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہوگی۔ پھر اللہ وہ ذات ہے کہ نسل انسانی میں سے کوئی کافر ، مؤمن ، مخلص اور غیر مخلص سب کے محرکات عملی اور سب کے درجہ اخلاص و عدم اخلاص سے وہ خوب اچھی طرح واقف ہے اور اس کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
Top