Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 257
اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ۬ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓئُهُمُ الطَّاغُوْتُ١ۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ وَلِيُّ : مددگار الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے يُخْرِجُهُمْ : وہ انہیں نکالتا ہے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں (جمع) اِلَى : طرف النُّوْرِ : روشنی وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْٓا : کافر ہوئے اَوْلِيٰٓئُھُمُ : ان کے ساتھی الطَّاغُوْتُ : گمراہ کرنے والے يُخْرِجُوْنَھُمْ : وہ انہیں نکالتے ہیں مِّنَ : سے النُّوْرِ : روشنی اِلَى : طرف الظُّلُمٰتِ : اندھیرے (جمع) اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخی ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اللہ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو ایمان کی راہ اختیار کرتے ہیں وہ انہیں تاریکیوں سے نکالتا اور روشنی میں لاتا ہے مگر جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو ان کے مددگار سرکش اور مفسد ہیں انہیں روشنی سے نکالتے اور تاریکیوں میں لے جاتے ہیں ، سو یہی لوگ ہیں جن کا گروہ پکا دوزخی ہے جو ہمیشہ ہمیشہ عذاب جہنم ہی میں رہے گا
کار ساز حقیقی اللہ ہی کی ذات ہے : 440: فرمایا گیا کہ اہل ایمان کے بگڑے کام بنا نے والی۔ آڑے وقت ان کے کام آنے والی اللہ ہی کی ذات ہے نہ کہ ابن اللہ یا کوئی دیوی دیوتا یا کوئی پیرو فقیر گویا یہ رد ہے نصاریٰ اور مشرکوں کا اور مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ جو لوگ صرف اللہ وحدہ لا شریک کی غلامی کریں گے۔ ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی شیاطین اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ ظلمت چاروں طرف سے گھیرے گی ۔ قوانین الٰہی میں شبہات رونما ہوں گے لیکن ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ“ کی ایک جلوہ نمائی ان تمام طواغیت کو فنا کردے گی۔ شکوک رفع ہوجائیں گے ۔ ہدایت و راہنمائی حاصل ہوگی۔ تمام رکاوٹیں حرف غلط کی طرح مٹ جائیں گی۔ جب کوئی قوت حق کو دبانے کی کوشش کرے گی اس کو فوراً برباد کردیا جائے گا اور مسلم قانت اپنے آگے نور ہی نور دیکھے گا۔ دوسری جگہ فرمایا گیا : قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ0015 یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ 0016 (المائدۃ 5 : 15۔ 16) ” اللہ کی طرف سے تمہارے پاس حق کی روشنی آچکی اور ایسی کتاب آچکی جو ایک روشن کتاب ہے۔ اللہ اس کتاب کے ذریعے ان لوگوں پر جو اللہ کی خوشنودی کے تابع ہوں سلامتی کی راہ کھول دیتا ہے اور اپنے حکم سے انہیں تاریکیوں سے نکالتا روشنی میں لاتا اور سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ “ ” ظلمت “ یعنی تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح وسعادت کی راہ سے دور نکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صرف کرنے لگتا ہے اور ” نور “ سے مراد علم حق ہے جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر علی وجہ البصیرت ایک صحیح راہ عمل پر گامزن ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ ” ظلمات “ کو جمع اور ” نور “ کو واحد استعمال کیا گیا ہے جس سے واضح ہوگیا کہ سیدھا خط تو ایک ہی ہو سکتا ہے اور اسی طرح راہ راست بھی ایک ہی ہے ہوسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی نور کا لفظ آیا ہے صیغہ واحد میں آیا ہے اور کفر و ظلمات کی قسمیں بیشمار ہیں اس لئے ظلمات کو صیغہ جمع لایا گیا۔ یہاں سرکش اور مفسد لوگوں کو طاغوت کہا گیا ہے : 441: ” طاغوت “ اس جگہ ” طواغیت “ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اللہ سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ایک طاغوت تو شیطان ہے جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں میں کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے اور بیشمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں بیوی ، بچے ، اعزہ و اقرباء ، برادری اور خاندان ، دوست اور آشنا ، سوسائٹی اور قوم ، پیشوا اور راہنما حکومت اور حکام یہ سب اس کے لئے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بیشمار آقاؤں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے اور کیسے بچے ؟ اور جب فضا ہی ساری کی ساری ظلماتی ہو تو ظاہر ہے کہ شیطنت اور بدی کے محرکات کتنے بڑھ جاتے ہیں اور ایمان وتقویٰ کے محرکات کتنے کم ہوجاتے ہیں ۔ شیطان بدی کے چہرہ پر طرح طرح کے خوشنما نقاب ڈال کر اس کے نام طرح طرح کے خوبصورت رکھ لیتا ہے اور پھر ان کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگتا ہے یہاں تک کو جو اہل ایمان اور اہل تقویٰ ہیں وہی نکوبن کر رہ جاتے ہیں اسی کو اکبر نے ان الفاظ میں بیان کیا۔ مغوی کو بھی بدنہ کہئے ترغیب ہے یہ کس سے میں کہوں کہ دل کی تخریب ہے یہ شیطان کو رجیم کہہ دیا تھا ایک دن ایک شور مچا خلاف تہذیب ہے یہ ایک سچے مسلم کے لئے طاغوت کا کفر کرنا ضروری ہے : 442: اللہ پر ایمان لانا اسلام ہے لیکن یہ ایمان اسی وقت مقبول ہو سکتا ہے جب طاغوت کا کفر کیا جائے ۔ دنیا کے پاپولر لوگوں کی طرح جو دونوں طرف برابر برابر چلنے کے عادی ہوں ان کو قرآن کریم ” لا الی ھولا ولا الی ھولا “ قرار دیتا ہے کہ وہ نہ ادھر کے رہتے ہیں اور نہ ہی ادھر کے اور دو بیڑیوں پر ٹانگ رکھنے والا ہمیشہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ دعویٰ اسلام وہی سچا ہے جو طاغوت کے کفر کے بعد ہو۔ اللہ کی رضا تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانا ہے اور شیطان کی فطرت میں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی گہرائی میں پہنچانا تم خود ہی فیصلہ کرلو کہ دونوں کا کہا ماننے والا کبھی اپنے دعویٰ میں سچا ہو سکتا ہے ؟ فرمایا پھر ایسے جھوٹوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کی رسوائی ہوگی جو عذاب دوزخ کی صورت میں ان کے سامنے آئے گی اور ایسا ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ قانون الٰہی ہے اور قانون خداوندی کے خلاف ہونا محال ہے۔
Top