Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : سے۔ جو رَزَقْنٰكُمْ : ہم نے دیا تمہیں مِّنْ قَبْلِ : سے۔ پہلے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خُلَّةٌ : اور نہ دوستی وَّلَا شَفَاعَةٌ : اور نہ سفارش وَالْكٰفِرُوْنَ : اور کافر (جمع) ھُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے مسلمانو ! ہم نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے اسے راہ حق میں خرچ کرو قبل اس کے کہ آنے والا دن سامنے آجائے کیونکہ اس دن نہ تو خریدو فروخت ہوگی اور نہ ہی کسی کی دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سعی و سفارش سے کام لیا جائے گا اور جو لوگ منکر ہیں وہی ظالم ہیں
قومی حیات حکومت سے وابستہ ہے اور حکومت کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے : 430: ” رَزَقْنٰكُمْ “ میں ضمیر متکلم لا کر اور رزق کو اپنی طرف منسوب کر کے صاف بتا دیا کہ مال و دولت جو کچھ بھی بندوں کے پاس ہے خودبخود سے نہیں بلکہ اللہ ہی کا بخشا ہوا عطیہ ہے اس لئے اس کو حق حاصل ہے کہ جن کاموں میں چاہے ان میں صرف کرنے کا حکم دے دے۔ فرمایا قومی حیات وابستہ ہے حکومت و خلافت کے ساتھ جس کی بقاء استحکام کے لئے ہر وقت روپیہ کی ضرورت ہے۔ اس لئے زمین میں گاڑنے اور بینکوں میں جمع کرنے کی بجائے اپنی دولت خلافت کی نذر کر دو جو سب سے زیادہ روپیہ صرف کرے گا اس کی اللہ کے ہاں بھی قدر ہوگی اور اس زندگی میں بھی وہ اچھا ہی گنا جائے گا اور اگر دنیا میں اسکا کوئی اجر نہ بھی مل سکا تو آخرت میں تو بہر حال اس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہوجائے گی اور یہی روپیہ تمہیں عذاب ِالیم سے نجات دلائے گا۔ جو لوگ خلافت کی مدد نہیں کرتے وہ نادانی وجہالت میں مبتلا ہیں اور اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اگر مسلمانوں کی حکومت نہ رہے گی تو ان کو زندگی کا کیا لطف آئے گا۔ ذرا الفاظ آیت پر غور کیجئے ” ظلم “ ظلم کے اصلی معنی کسی شئے کو اس کے صحیح مقام پر نہ رکھنے کے ہیں۔ اللہ یا اس کے قانون کونہ ماننے سے بڑھ کر کو نسا ظلم انسان کا اپنے حق میں ہوگا۔ لَّا بَیْعٌ : جاہلی اور نیم جاہلی قوموں کی گمراہیاں ایک سے بڑھ کر ایک عجیب رہی ہیں۔ مشرک قومیں تو سرے سے روز اجر کی قائل ہی نہیں۔ اہل کتاب نے اس کے وقوع کو مانا تو اس میں بھی یہ میخیں لگا دیں کہ وہاں بھی دنیا کی طرح لین دین ہوسکے گا۔ کوئی کسی سے نیکیاں خرید لے گا کوئی کسی کے ہاتھ اپنی بدیاں فروخت کردے گا۔ قرآن کریم نے اس ساری لغو خیالی کا خاتمہ کردیا۔ ” وَ لَا خُلَّةٌ “ خلہ ، گہری اور دلی دوستی کو کہتے ہیں ۔ یہاں مقصود ایسی دوستی کے نافع ہونے کا ابطال ہے جو ایمان کے بغیر کام دے سکے اور کفر کے مجرم کو نجات دلا سکے۔ اہل کتاب نے سمجھ رکھا تھا کہ یہاں کی حسبی نسبی رشتہ داریوں اور ذاتی و خانگی دوستیوں سے وہاں کام چل جائے گا۔ جب گہری اور دلی دوستی کے نافع ہونے کی نفی ہوگئی تو محض زبانی رسمی ظاہری تعلق کا لا حاصل ہونا تو اور زیادہ ظاہر ہے ” وَّ لَا شَفَاعَةٌ 1ؕ “ پہلی دو گمراہیاں بھی نصاریٰ میں تھیں لیکن یہ تیسری گمراہی تو مسیحیت کی خصوصیات میں سے ہے۔ مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ ” ابن اللہ “ کی حیثیت شافع مطلق کی ہے ۔ انسان کے قالب میں انہوں نے اس لئے توجنم لیا تھا کہ اپنی جان کا فدیہ سب گنہگاروں کی طرف سے دے کر اور سب کی طرف سے صیلب پر اپنے خون کا چڑھاواچڑھا کر قیامت میں شافع مطلق کی حیثیت سے ظاہر و نمودار ہوں گے اور ان کی شفاعت سب کے حق میں نجات کا حکم قطعی رکھے گی۔ آج ہمارے ہاں کے عام واعظوں اور نعت گو شاعروں نے شفاعت مصطفویٰ پر حد سے زیادہ زور دینا شروع کر رکھا ہے اس کا دراصل ماخود یہی مسیحیت ہے اسلام نہیں کیونکہ اسلام تو اس کی کھل کر تردید کرچکا ہے اور کر رہا ہے۔
Top