Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 253
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ۘ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ١ؕ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا١۫ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠   ۧ
تِلْكَ : یہ الرُّسُلُ : رسول (جمع) فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی بَعْضَھُمْ : ان کے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض مِنْھُمْ : ان سے مَّنْ : جس كَلَّمَ : کلام کیا اللّٰهُ : اللہ وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَھُمْ : ان کے بعض دَرَجٰتٍ : درجے وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کا بیٹا الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَاَيَّدْنٰهُ : اور اس کی تائید کی ہم نے بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح القدس (جبرائیل) سے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ اقْتَتَلَ : باہم لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ بَعْدِ : بعد ھِمْ : ان مِّنْ بَعْدِ : بعد سے مَا جَآءَتْھُمُ : جو (جب) آگئی ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَلٰكِنِ : اور لیکن اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فَمِنْھُمْ : پھر ان سے مَّنْ : جو۔ کوئی اٰمَنَ : ایمان لایا وَمِنْھُمْ : اور ان سے مَّنْ : کوئی کسی كَفَرَ : کفر کیا وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا اقْتَتَلُوْا : وہ باہم نہ لڑتے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
یہ ہمارے پیغمبر ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے ، ان میں کچھ تو ایسے تھے جن سے اللہ نے کلام کیا ، بعض ایسے تھے جن کے درجے بلند کیے گئے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو روشن دلیلیں عطا فرمائیں اور روح القدس کی تائید سے سرفراز کیا ، اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد پیدا ہوئے وہ ہدایت کی روشن دلیلیں پا لینے کے بعد پھر نہ لڑتے لیکن پیغمبروں کے بعد لوگ آپس میں مخالف ہوگئے کچھ لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی ، کچھ لوگوں نے کفر کا شیوہ پسند کیا ، اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (یعنی کوئی اس کے کاموں کا احاطہ نہیں کرسکتا)
گروہ انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت کا بیان : 422: رسولوں کی فضیلت کا ذکر اس جگہ کس تعلق سے شروع ہوگیا ؟ پچھلی آیت میں فرمایا تھا : ” لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ “ اے پیغمبر اسلام ! تم رسولوں میں سے ایک ہو اور یہاں فرمایا ان رسولوں کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ گویا فرمایا جا رہا ہے کہ تم رسولوں میں سے ایک رسول ہو اور سب پر فضیلت رکھتے ہو اور یہ کوئی بات ایسی نہیں جو خلاف واقعہ ہو اس لئے کہ رسولوں کو ایک دوسرے پر فضیلت ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا 0055 (الاسراء 15 : 55) اور یہ اشارہ یہاں اس لئے کیا کہ متعدد موقعوں پر رسول اکرم ﷺ کی فضیلت کا ذکر ہوچکا تھا مثلاً آپ کل جہانوں کی طرف مبعوث ہونے والے ہیں اور آپ ﷺ کے سوا ایک نبی بھی ایسا نہیں آیا جو تمام جہانوں کے لئے مبعوث ہوا ہو ۔ اس طرح آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم کو سب کتابوں پر فضیلت ہے۔ آپ ﷺ سے پہلے کی شرائع کو لوگوں نے اپنی طرف سے ردو بدل کرلیا تھا آپ ﷺ اس کے منسوخ کرنے والے ہیں نیز یہ کہ آپ ﷺ تمام مذاہب عالم کے جھگڑوں میں فیصلہ کرنے والے ہیں اور دوسرے تمام انبیاء پر گواہی دینے والے ہیں۔ اس جگہ اس تذکرہ کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ یہاں حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت اور نبوت دونوں دینے کا ذکر آیا تھا جو دوسرے انبیائے بنی اسرائیل پر ان کی ایک فضیلت تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ کی فضیلت کا ذکر کیا کیونکہ آپ ﷺ کو بھی نبوت کے ساتھ بادشاہت ملنے والی تھی۔ ہاں ! ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے یہ منشا نہیں کہ وہ دوسرا ناقص ہے نہیں ، ہرگز نہیں بلکہ وہ چیز جو وہ کامل انسانوں کو ایک دوسرے سے تمیز کرتی ہے یا کوئی زائد بلند مرتبہ دیا جاتا ہے وہی اس کی فضیلت ہے۔ اس سے یہ بات ضرور ملتی ہے کہ کمال انسانی کے بھی مختلف مدراج ہیں۔ ایک اور بات اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اس فضیلت کا ذکر سلسلہ موسویہ کے دو عظیم الشان انبیاء داؤد اور عیسیٰ کے درمیان کیا ہے۔ حضرت داود (علیہ السلام) ظاہری شان و شوکت کے لحاظ سے ان انبیاء میں سب سے بڑھ کر ہیں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اخلاقی اور روحانی تعلیم کے لحاظ سے نبی کریم ﷺ ان دونوں پہلوؤں سے دونوں سے بلند تر ثابت ہوئے۔ علاوہ ازیں ان دونوں نبیوں نے آنحضرت ﷺ کے متعلق جو پیشگوئیاں کی ہیں ان میں آپ ﷺ کی آمد کو خدا کی آمد قرار دیا ہے دیکھو زبور 110 اور متی 21 : 43 ، 44 گویا باوجود اپنے اپنے کمالات ظاہری اور باطنی کے انہوں نے نبی کریم ﷺ کے کمالات ظاہری و باطنی کو اس بلند مرتبہ پر پایا کہ آپ ﷺ کی ہر دو شانوں میں خدا کی شان نظر آئی۔ نبی کریم ﷺ کی یہ فضیلت جس کا ذکر اس لطیف پیرایہ میں کلام الٰہی میں پایا یاتا ہے وہ ان احادیث کے برخلاف نہیں جن میں ایسے الفاظ آتے ہیں کہ : ” مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت مت دو یا یہ کہ یونس بن متی پر فضیلت نہ دو “ کیونکہ وہ خاص خاص موقعہ کی باتیں ہیں۔ مثلاً بخاری شریف میں ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی میں کسی بات پر تکرار ہوگئی تو باتوں ہی باتوں میں یہودی نے کہا : ” قسم ہے اس خدا کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ’ مسلمان کو ضبط نہ ہوسکا اس نے اٹھ کر یہودی کو تھپڑ ماردیا کہ اوخبیث ! کیا ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی موسیٰ (علیہ السلام) افضل ہیں ؟ یہودی نے نبی کریم ﷺ کے پاس آکر شکایت کی تو اس وقت آپ ﷺ نے اس مسلمان سے فرمایا کہ : ” مجھے موسیٰ پر فضیلت مت دو “ اسی طرح کے اور واقعات بھی ہیں جن کے متعلق آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ ظاہر ہے کہ یہ جواب آپ نے محض تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ پھر ایسے جھگڑے اور اختلاف کے وقت ایک دوسرے پر فضیلت دینا دوسرے کی شان گھٹانا ہے اور یہ کسی حال میں بھی جائز نہیں ۔ یہ بھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم فضیلت نہ دو یعنی اپنی طرف سے کیونکہ اس میں تعصب کی بُو آتی ہے۔ کیونکہ فضیلت و تکریم کا فیصلہ تم انسانوں کے بس کا کام نہیں ، بلکہ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے وہ جسے فضیلت دے تم مان لو اس لئے کہ تمہارا کام تسلیم کرنا ہے اور ایمان لانا ہے۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا : 423: اب گویا اس فضیلت دینے کی مزید تشریح فرما دی کہ ” ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا “ جیسا کہ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ کے ساتھ ہوا۔ ورنہ ایک معنی کے لحاظ سے تو جس نبی پر بھی وحی آئی اللہ کا مکالمہ اس سے ہوگیا۔ فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی تلاش میں نکلے تھے اور جہاں آگ دکھائی دی اس طرف بڑھتے گئے لیکن جو کچھ دیکھا درحقیقت وہ نہ تھا یعنی آگ نہیں تھی اور وہاں پہنچتے ہی وہ مکالمہ شروع ہوگیا جو ظاہری صورت میں تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑے تھے جو طور سینا کا مشرقی گوشہ تھا لیکن جہاں سے آواز آرہی تھی وہ دراصل دل کے اندر ہی تھا اور خارج ازدل کچھ بھی نہ تھا زیادہ گہرائی میں نہ جائیں یہ مقام بڑا نازک ہے صرف یہ یادرکھیں کہ اس مکالمہ کا مقام دل ہی ہوتا ہے اور کوئی مقام نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ وحی الٰہی کے نزول کا مقام دل ہی ہے اور یہ سننا بھی ظاہری کان کی سماعت کا سننا نہیں بلکہ دل کے کان سے سننا ہے۔ اشارہ ہے جامع کمالات خاتم نبوت ﷺ کی طرف : 424: یہی وہ مقام ہے جس میں دراصل رسول اللہ ﷺ کی فضیلت و برتری کا اظہار کرنا تھا کہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اور آپ ﷺ ہی کے متعلق ارشاد فرمایا کہ : ” ارسل الی الناس کا فۃ بشیرا و نذیرا “ آپ ﷺ ہی وہ رسول ہیں جو تمام انسانیت کی طرف بشیر و نذیر بنا کر مبعوث کئے گئے ۔ یہ مقام کسی اور نبی کو میسر نہ آیا۔ آپ ﷺ کی تعلیم میں گذشتہ تمام صداقتوں کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ۔ آپ کی ذات اقدس میں نوح (علیہ السلام) کی سی سرگرمی ! ابراہیم (علیہ السلام) جیسی نرم دلی ، یوسف (علیہ السلام) جیسی درگزر۔ داؤد (علیہ السلام) کی سی فتوحات۔ یعقوب (علیہ السلام) کا سا صبر۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی خاکساری ، زکریّا (علیہ السلام) کا سازہد اور اسماعیل (علیہ السلام) کی سی سبک روحی و حلاوت کلامی موجود ہے۔ اے کہ برتخت سیادت ز ازل جا داری ۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ابن مریم کی کنیت کا اصل راز : 425: قرآن کریم کا انداز تخاطب معجزانہ ہے اس کے ایک ایک لفظ میں حکمت کے دریا بہتے ہیں اندازہ کیجئے کہ مریم کی شخصیت ہے جس سے یہودیت کو اتنی کد اور اتنا بیر ہے کہ اس کا نام آتے ہی ان کے تیور بدل جاتے ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں قوموں کی زندگی میں ایسی باتیں ہوتی آئی ہیں اور ہو رہی ہیں دورنہ جاؤ کبھی سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا نام نامی کسی غالی قسم کے شیعہ کے سامنے لے کر اندازہ کرلو کہ کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ آخر سیدہ عائشہ ؓ نے ان کا کیا قصور کیا ہے ؟ دوسری طرف عیسائی ہیں کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو انسانوں کی صف سے اٹھا کر اللہ کے ساتھ بٹھا دیا اور برملا کہنے لگے کہ عیسیٰ انسان نہیں بلکہ وہ تو اللہ یا اللہ کا بیٹا اور اللہ کا ایک جز ہیں اور اس عقیدہ کی پختگی کے لئے انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن اللہ “ کا لقب دے دیا اور اب عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو بندہ و انسان کہے اس سے وہ نفرت کرنے لگے۔ اسلام ان دونوں گروہوں کی افراط وتفریط کو قبول نہیں کرتا ان کے ساتھ بحث ومناظرہ میں الجھنا بھی پسند نہیں کرتا اس نے بڑے میٹھے انداز میں سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو کنیت ” ابن مریم “ رکھ دی۔ ان دونوں گروہوں یعنی یہود و نصاریٰ کو کچھ نہ کہا لیکن وہ سب کچھ کہہ دیا جس کو وہ ایک لمحہ بھی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ پھر غور کرو کہ کیا کہا ” ابن مریم “ یعنی مریم نامی اس خاتون اول کے فرزند ارجمند کو یہود اس قدر ناپسند کرتے ہیں کہ اس کا نام نہیں لینا چاہتے عیسیٰ (علیہ السلام) اسی کے بیٹے ہیں اور اللہ کے برگزیدہ نبی و رسول بھی جو نہ خدا تھے نہ ‘ خدا زادہ یعنی ابن اللہ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بایں شرف و سروری بہرحال ایک انسان اور بشری گوشت و پوست رکھنے والی عورت کے گوشت رکھنے والے بیٹے تھے ۔ نہ خدا تھے نہ خدا زادے الوہیت کا کوئی سا بھی جزو ان میں نہ تھا۔ انہیں خدا یا خدا کا بیٹا ٹھہرالینا نری جہالت تھی اور ان ساری باتوں کی وضاحت کے لئے ضرورت تھی انہیں صراحت کے ساتھ ” ابن مریم “ کہنے کی کہ محض اس نشاہدی اور پتہ ہی سے یہودیت اور نصرانیت دونوں پر ضرب لگ جائے ورنہ نام تو اور بھی پیغمبروں کے لئے گئے ہیں کہیں ابن فلاں کر کے تعارف نہیں کروایا گیا۔ نہ ابن داؤد نہ ابن ابراہیم ، نہ ابن اسحاق ، نہ ابن یعقوب ، نہ ابن زکریا اور نہ ابن عمران اس طرح تعارف صرف ابن مریم ہی کے لئے مخصوص ہے کہ انہیں کے لئے الہیت اور ابن الہیت کی تردید کی ضرورت تھی۔ ان کی والدہ ماجدہ کی بزرگی اور طہارت کا اعلان بھی اتنا ہی ضروری تھا۔ ابن مریم کی تائید روح القدوس سے : 426: پوری دنیائے انسانیت کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو کسی کا محتاج نہیں۔ یہودیت ہو یا نصرانیت سب کو اس کا اعتراف ہے اور اس اعتراف کے باوجود پھر ایسے نظریات رکھتے ہیں جس سے ان کے اس نظریہ کی کھلی تردید ہوتی ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کو اللہ یا اللہ کا بیٹا کہنے والے بھی اسی بات کو تسلیم کرتے ہیں اس نظریہ کہ جبرئیل (علیہ السلام) کی تائید مسیح کو حاصل تھی۔ ” اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ “ کے الفاظ کہہ کر بھی اس عقیدہ کا رد کردیا کہ مسیح نہ خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے بلکہ اللہ ہی تو ان کا مددگار ہے اور وہی قادر مطلق ہے یعنی ان الفاظ سے اس حقیقت پر روشنی پڑگئی کہ عیسیٰ مسیح بایں ہمہ کمالات و فضائل کے بہرحال انسان ہی تھے اور وہ دوسرے انسانوں کی طرح دفع ضرر اور حصول نفع دونوں کے محتاج تھے اور اللہ کریم نے جو قادر مطلق ہے اپنی قدرت کا ملہ سے ان کی محافظت وتقویت و رفاقت کے لئے اپنی ایک دوسری مخلوق جو لطیف اور غیر مرئی بھی ہے اس کو مقرر فرمایا کہ اس کی محافظت کرے۔ قرآن کریم اور اسلام کی اصلاح میں اس سے مراد فرشتہ ، اعظم جبرئیل (علیہ السلام) ہیں جو ملکوتی طاقتوں اور قوتوں میں سب سے بڑی طاقت وقوت ہے۔ زیر نظر آیت کے الفاظ نے بھی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق یہ ثابت کردیا کہ وہ رسول برحق اور موید من اللہ تھے نہ کہ نعوذباللہ کوئی مفتری و کذاب جس طرح یہودیت نے سمجھا اور ان کے حق میں تفریط سے کام لیا اور آپ کو ایک بازی گر اور شعبدہ باز قرار دیا اور اس طرح نصاریٰ نے آپ کے حق میں افراط سے کام لیتے ہوئے حد عبدیت و عبودیت میں سے باہر نکال کیا اور اللہ یا اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔ ” الْبَیِّنٰتِ “ بینات کے تحت وہ تمام نشانیاں اور دلیلیں آگئیں جنہیں دیکھ کر ہر ایک عقل سلیم والا منصف مزاج نبوت عیسوی کا قائل ہوجائے کہ استعارات اور محاورات و ضرب الامثال میں باتیں انبیاء (علیہم السلام) ہی کرتے رہے تاکہ لمبی چوڑی تقاریر کرنے اور بات سے بات نکالتے جانے کے بجائے مختصر الفاظ میں اس انداز سے بات کی جائے کہ سامعین کے لئے دلنشیں ہو اور وہ اس سے عبرت و مؤعظت حاصل کریں۔ مشیت ایزدی میں لوگوں کے نہ جھگڑنے کا فیصلہ ہوتا تو وہ کیوں جھگڑتے ؟ 427: مشیت ایزدی کا فیصلہ یہ تھا کہ انسان کو مکلف بنایا جائے اور وہ اپنے کیے کا جواب دہ ہو۔ ایک حد تک اس کو ایک کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ لہٰذا اس نے اپنے فیصلہ مشیت کے مطابق انسان کو تخلیق کیا اور انسانون کو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ اس کے اندر قوائے مختلفہ جمع ہوں جن سے اس کی تمام ترقیاں پیدا ہوتی ہیں اور قوائے مختلفہ کے غلط استعمال سے ہی جھگڑا پیدا ہوتا ہے اس لئے : ” وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا 1۫“ کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایسانہ بناتا اور اس کے قوائے مختلفہ نہ ہوتے مگر اس کی مشیت کا یہی فیصلہ تھا اور اس نے یہی چاہا کہ وہ دوسری مخلوق سے بڑھ کر ترقی کرے اس لئے قوائے مختلفہ اسی کے اندر رکھے اور ” یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ (رح) 00253 “ کے اس جگہ دو مفہوم ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس میں اشارہ ہے کہ ارادہ الٰہی یہی ہے کہ انہیں قویٰ کے اچھے استعمال سے وہ نیک نتیجہ پالیتا ہے اور برے استعمال سے برا۔ دوسرا یہ کہ ارادہ الٰہی یہی ہے کہ کل دنیا کے جھگڑوں اور اختلاقوں کے فیصلے کے لئے ایک رسول کل دنیا کے لئے بھیجا جائے وہ وہی ہے جس کے متعلق دوسری جگہ ارشاد فرمایا : ارسل الی الناس کافۃ بشیرا و نذیرا ‘ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ہی وہ رسول ہیں جو پوری انسانیت کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے۔ انبیاء کے بعد لوگ پھر آپس میں اختلاف کرنے لگے : 428: فطرت انسانی تو محض خیر و نیکی پر ہی پیدا کی گئی تھی مگر خارجی اثرات ضلالت اور باد صر صر کے تیز و تند جھونکوں نے جو مختلف قویٰ کی وجہ سے لازم تھے اس کے آئینہ فطرت کو گرد آلود کردیا۔ تعلیم صحیح ان لوگوں کے پاس آئی کہ اپنی فطرت اصلیہ کو قائم رکھیں مگر ان لوگوں نے اختلاف پیدا کر کے اپنے آپ کو تباہ کردیا دراصل بتایا جا رہا ہے کہ قوم میں فرقہ بندی قومی تباہی کے مترادف ہے اور اس فرقہ بندی میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جو عموماً انبیاء کرام کی تعلیم اور خصوصاً محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم سے انحراف کرتے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو بیان کردیا کہ چونکہ مشیت الٰہی سب کو اضطراراً ایک ہی دین پر جمع کرنے کی نہ تھی اس لئے حکمت کاملہ نے اس عالم کو عالم ابتلاء ہی رکھنا چاہا اس لئے خلقت کا باہم مختلف ہونا بھی ناگزیر رہا کہ اختلاف کرنے والے یہاں بھی اس کا مزہ چکھیں اور آخرت میں عذاب کی لپیٹ میں لپیٹ لئے جائیں۔ ” اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے “ کا مطلب کیا ؟ 429: مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہوجانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رونما ہوئے اور پھر صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ اختلاف سے آگے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بےبس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کی طاقت نہ تھی ، نہیں اگر وہ چاہتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیاء کی دعوت سے سرتابی کرسکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اسکی زمین میں فسادو برپا کرسکتا۔ مگر اس کی مشیت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ واختیار کی آزادی چھین لے اور انہیں ایک خاص روش پر چلنے کے لئے مجبور کر دے۔ اس لئے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا اس لئے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں انتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیاء کرام کو لوگوں پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انہیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں بلکہ اس لئے بھیجا کہ دلائل اور بینات سے لوگوں کو راستی کی طرف بلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے ان لوگوں کو ارادے کی آزادی جو عطا کی تھی اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کرلیں نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کی راستی پر چلانا چاہتا تھا مگر معاذ اللہ اسے کامیابی نہ ہوئی۔
Top