Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 253
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ۘ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ١ؕ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا١۫ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠ ۧ
تِلْكَ
: یہ
الرُّسُلُ
: رسول (جمع)
فَضَّلْنَا
: ہم نے فضیلت دی
بَعْضَھُمْ
: ان کے بعض
عَلٰي
: پر
بَعْضٍ
: بعض
مِنْھُمْ
: ان سے
مَّنْ
: جس
كَلَّمَ
: کلام کیا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَفَعَ
: اور بلند کیے
بَعْضَھُمْ
: ان کے بعض
دَرَجٰتٍ
: درجے
وَاٰتَيْنَا
: اور ہم نے دی
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: مریم کا بیٹا
الْبَيِّنٰتِ
: کھلی نشانیاں
وَاَيَّدْنٰهُ
: اور اس کی تائید کی ہم نے
بِرُوْحِ الْقُدُسِ
: روح القدس (جبرائیل) سے
وَلَوْ
: اور اگر
شَآءَ اللّٰهُ
: چاہتا اللہ
مَا
: نہ
اقْتَتَلَ
: باہم لڑتے
الَّذِيْنَ
: وہ جو
مِنْ بَعْدِ
: بعد
ھِمْ
: ان
مِّنْ بَعْدِ
: بعد سے
مَا جَآءَتْھُمُ
: جو (جب) آگئی ان کے پاس
الْبَيِّنٰتُ
: کھلی نشانیاں
وَلٰكِنِ
: اور لیکن
اخْتَلَفُوْا
: انہوں نے اختلاف کیا
فَمِنْھُمْ
: پھر ان سے
مَّنْ
: جو۔ کوئی
اٰمَنَ
: ایمان لایا
وَمِنْھُمْ
: اور ان سے
مَّنْ
: کوئی کسی
كَفَرَ
: کفر کیا
وَلَوْ
: اور اگر
شَآءَ اللّٰهُ
: چاہتا اللہ
مَا اقْتَتَلُوْا
: وہ باہم نہ لڑتے
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اللّٰهَ
: اللہ
يَفْعَلُ
: کرتا ہے
مَا يُرِيْدُ
: جو وہ چاہتا ہے
یہ ہمارے پیغمبر ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے ، ان میں کچھ تو ایسے تھے جن سے اللہ نے کلام کیا ، بعض ایسے تھے جن کے درجے بلند کیے گئے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو روشن دلیلیں عطا فرمائیں اور روح القدس کی تائید سے سرفراز کیا ، اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد پیدا ہوئے وہ ہدایت کی روشن دلیلیں پا لینے کے بعد پھر نہ لڑتے لیکن پیغمبروں کے بعد لوگ آپس میں مخالف ہوگئے کچھ لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی ، کچھ لوگوں نے کفر کا شیوہ پسند کیا ، اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (یعنی کوئی اس کے کاموں کا احاطہ نہیں کرسکتا)
گروہ انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت کا بیان : 422: رسولوں کی فضیلت کا ذکر اس جگہ کس تعلق سے شروع ہوگیا ؟ پچھلی آیت میں فرمایا تھا : ” لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ “ اے پیغمبر اسلام ! تم رسولوں میں سے ایک ہو اور یہاں فرمایا ان رسولوں کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ گویا فرمایا جا رہا ہے کہ تم رسولوں میں سے ایک رسول ہو اور سب پر فضیلت رکھتے ہو اور یہ کوئی بات ایسی نہیں جو خلاف واقعہ ہو اس لئے کہ رسولوں کو ایک دوسرے پر فضیلت ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا 0055 (الاسراء 15 : 55) اور یہ اشارہ یہاں اس لئے کیا کہ متعدد موقعوں پر رسول اکرم ﷺ کی فضیلت کا ذکر ہوچکا تھا مثلاً آپ کل جہانوں کی طرف مبعوث ہونے والے ہیں اور آپ ﷺ کے سوا ایک نبی بھی ایسا نہیں آیا جو تمام جہانوں کے لئے مبعوث ہوا ہو ۔ اس طرح آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم کو سب کتابوں پر فضیلت ہے۔ آپ ﷺ سے پہلے کی شرائع کو لوگوں نے اپنی طرف سے ردو بدل کرلیا تھا آپ ﷺ اس کے منسوخ کرنے والے ہیں نیز یہ کہ آپ ﷺ تمام مذاہب عالم کے جھگڑوں میں فیصلہ کرنے والے ہیں اور دوسرے تمام انبیاء پر گواہی دینے والے ہیں۔ اس جگہ اس تذکرہ کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ یہاں حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت اور نبوت دونوں دینے کا ذکر آیا تھا جو دوسرے انبیائے بنی اسرائیل پر ان کی ایک فضیلت تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ کی فضیلت کا ذکر کیا کیونکہ آپ ﷺ کو بھی نبوت کے ساتھ بادشاہت ملنے والی تھی۔ ہاں ! ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے یہ منشا نہیں کہ وہ دوسرا ناقص ہے نہیں ، ہرگز نہیں بلکہ وہ چیز جو وہ کامل انسانوں کو ایک دوسرے سے تمیز کرتی ہے یا کوئی زائد بلند مرتبہ دیا جاتا ہے وہی اس کی فضیلت ہے۔ اس سے یہ بات ضرور ملتی ہے کہ کمال انسانی کے بھی مختلف مدراج ہیں۔ ایک اور بات اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اس فضیلت کا ذکر سلسلہ موسویہ کے دو عظیم الشان انبیاء داؤد اور عیسیٰ کے درمیان کیا ہے۔ حضرت داود (علیہ السلام) ظاہری شان و شوکت کے لحاظ سے ان انبیاء میں سب سے بڑھ کر ہیں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اخلاقی اور روحانی تعلیم کے لحاظ سے نبی کریم ﷺ ان دونوں پہلوؤں سے دونوں سے بلند تر ثابت ہوئے۔ علاوہ ازیں ان دونوں نبیوں نے آنحضرت ﷺ کے متعلق جو پیشگوئیاں کی ہیں ان میں آپ ﷺ کی آمد کو خدا کی آمد قرار دیا ہے دیکھو زبور 110 اور متی 21 : 43 ، 44 گویا باوجود اپنے اپنے کمالات ظاہری اور باطنی کے انہوں نے نبی کریم ﷺ کے کمالات ظاہری و باطنی کو اس بلند مرتبہ پر پایا کہ آپ ﷺ کی ہر دو شانوں میں خدا کی شان نظر آئی۔ نبی کریم ﷺ کی یہ فضیلت جس کا ذکر اس لطیف پیرایہ میں کلام الٰہی میں پایا یاتا ہے وہ ان احادیث کے برخلاف نہیں جن میں ایسے الفاظ آتے ہیں کہ : ” مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت مت دو یا یہ کہ یونس بن متی پر فضیلت نہ دو “ کیونکہ وہ خاص خاص موقعہ کی باتیں ہیں۔ مثلاً بخاری شریف میں ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی میں کسی بات پر تکرار ہوگئی تو باتوں ہی باتوں میں یہودی نے کہا : ” قسم ہے اس خدا کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ’ مسلمان کو ضبط نہ ہوسکا اس نے اٹھ کر یہودی کو تھپڑ ماردیا کہ اوخبیث ! کیا ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی موسیٰ (علیہ السلام) افضل ہیں ؟ یہودی نے نبی کریم ﷺ کے پاس آکر شکایت کی تو اس وقت آپ ﷺ نے اس مسلمان سے فرمایا کہ : ” مجھے موسیٰ پر فضیلت مت دو “ اسی طرح کے اور واقعات بھی ہیں جن کے متعلق آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ ظاہر ہے کہ یہ جواب آپ نے محض تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ پھر ایسے جھگڑے اور اختلاف کے وقت ایک دوسرے پر فضیلت دینا دوسرے کی شان گھٹانا ہے اور یہ کسی حال میں بھی جائز نہیں ۔ یہ بھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم فضیلت نہ دو یعنی اپنی طرف سے کیونکہ اس میں تعصب کی بُو آتی ہے۔ کیونکہ فضیلت و تکریم کا فیصلہ تم انسانوں کے بس کا کام نہیں ، بلکہ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے وہ جسے فضیلت دے تم مان لو اس لئے کہ تمہارا کام تسلیم کرنا ہے اور ایمان لانا ہے۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا : 423: اب گویا اس فضیلت دینے کی مزید تشریح فرما دی کہ ” ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا “ جیسا کہ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ کے ساتھ ہوا۔ ورنہ ایک معنی کے لحاظ سے تو جس نبی پر بھی وحی آئی اللہ کا مکالمہ اس سے ہوگیا۔ فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی تلاش میں نکلے تھے اور جہاں آگ دکھائی دی اس طرف بڑھتے گئے لیکن جو کچھ دیکھا درحقیقت وہ نہ تھا یعنی آگ نہیں تھی اور وہاں پہنچتے ہی وہ مکالمہ شروع ہوگیا جو ظاہری صورت میں تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑے تھے جو طور سینا کا مشرقی گوشہ تھا لیکن جہاں سے آواز آرہی تھی وہ دراصل دل کے اندر ہی تھا اور خارج ازدل کچھ بھی نہ تھا زیادہ گہرائی میں نہ جائیں یہ مقام بڑا نازک ہے صرف یہ یادرکھیں کہ اس مکالمہ کا مقام دل ہی ہوتا ہے اور کوئی مقام نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ وحی الٰہی کے نزول کا مقام دل ہی ہے اور یہ سننا بھی ظاہری کان کی سماعت کا سننا نہیں بلکہ دل کے کان سے سننا ہے۔ اشارہ ہے جامع کمالات خاتم نبوت ﷺ کی طرف : 424: یہی وہ مقام ہے جس میں دراصل رسول اللہ ﷺ کی فضیلت و برتری کا اظہار کرنا تھا کہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اور آپ ﷺ ہی کے متعلق ارشاد فرمایا کہ : ” ارسل الی الناس کا فۃ بشیرا و نذیرا “ آپ ﷺ ہی وہ رسول ہیں جو تمام انسانیت کی طرف بشیر و نذیر بنا کر مبعوث کئے گئے ۔ یہ مقام کسی اور نبی کو میسر نہ آیا۔ آپ ﷺ کی تعلیم میں گذشتہ تمام صداقتوں کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ۔ آپ کی ذات اقدس میں نوح (علیہ السلام) کی سی سرگرمی ! ابراہیم (علیہ السلام) جیسی نرم دلی ، یوسف (علیہ السلام) جیسی درگزر۔ داؤد (علیہ السلام) کی سی فتوحات۔ یعقوب (علیہ السلام) کا سا صبر۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی خاکساری ، زکریّا (علیہ السلام) کا سازہد اور اسماعیل (علیہ السلام) کی سی سبک روحی و حلاوت کلامی موجود ہے۔ اے کہ برتخت سیادت ز ازل جا داری ۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ابن مریم کی کنیت کا اصل راز : 425: قرآن کریم کا انداز تخاطب معجزانہ ہے اس کے ایک ایک لفظ میں حکمت کے دریا بہتے ہیں اندازہ کیجئے کہ مریم کی شخصیت ہے جس سے یہودیت کو اتنی کد اور اتنا بیر ہے کہ اس کا نام آتے ہی ان کے تیور بدل جاتے ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں قوموں کی زندگی میں ایسی باتیں ہوتی آئی ہیں اور ہو رہی ہیں دورنہ جاؤ کبھی سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا نام نامی کسی غالی قسم کے شیعہ کے سامنے لے کر اندازہ کرلو کہ کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ آخر سیدہ عائشہ ؓ نے ان کا کیا قصور کیا ہے ؟ دوسری طرف عیسائی ہیں کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو انسانوں کی صف سے اٹھا کر اللہ کے ساتھ بٹھا دیا اور برملا کہنے لگے کہ عیسیٰ انسان نہیں بلکہ وہ تو اللہ یا اللہ کا بیٹا اور اللہ کا ایک جز ہیں اور اس عقیدہ کی پختگی کے لئے انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن اللہ “ کا لقب دے دیا اور اب عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو بندہ و انسان کہے اس سے وہ نفرت کرنے لگے۔ اسلام ان دونوں گروہوں کی افراط وتفریط کو قبول نہیں کرتا ان کے ساتھ بحث ومناظرہ میں الجھنا بھی پسند نہیں کرتا اس نے بڑے میٹھے انداز میں سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو کنیت ” ابن مریم “ رکھ دی۔ ان دونوں گروہوں یعنی یہود و نصاریٰ کو کچھ نہ کہا لیکن وہ سب کچھ کہہ دیا جس کو وہ ایک لمحہ بھی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ پھر غور کرو کہ کیا کہا ” ابن مریم “ یعنی مریم نامی اس خاتون اول کے فرزند ارجمند کو یہود اس قدر ناپسند کرتے ہیں کہ اس کا نام نہیں لینا چاہتے عیسیٰ (علیہ السلام) اسی کے بیٹے ہیں اور اللہ کے برگزیدہ نبی و رسول بھی جو نہ خدا تھے نہ ‘ خدا زادہ یعنی ابن اللہ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بایں شرف و سروری بہرحال ایک انسان اور بشری گوشت و پوست رکھنے والی عورت کے گوشت رکھنے والے بیٹے تھے ۔ نہ خدا تھے نہ خدا زادے الوہیت کا کوئی سا بھی جزو ان میں نہ تھا۔ انہیں خدا یا خدا کا بیٹا ٹھہرالینا نری جہالت تھی اور ان ساری باتوں کی وضاحت کے لئے ضرورت تھی انہیں صراحت کے ساتھ ” ابن مریم “ کہنے کی کہ محض اس نشاہدی اور پتہ ہی سے یہودیت اور نصرانیت دونوں پر ضرب لگ جائے ورنہ نام تو اور بھی پیغمبروں کے لئے گئے ہیں کہیں ابن فلاں کر کے تعارف نہیں کروایا گیا۔ نہ ابن داؤد نہ ابن ابراہیم ، نہ ابن اسحاق ، نہ ابن یعقوب ، نہ ابن زکریا اور نہ ابن عمران اس طرح تعارف صرف ابن مریم ہی کے لئے مخصوص ہے کہ انہیں کے لئے الہیت اور ابن الہیت کی تردید کی ضرورت تھی۔ ان کی والدہ ماجدہ کی بزرگی اور طہارت کا اعلان بھی اتنا ہی ضروری تھا۔ ابن مریم کی تائید روح القدوس سے : 426: پوری دنیائے انسانیت کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو کسی کا محتاج نہیں۔ یہودیت ہو یا نصرانیت سب کو اس کا اعتراف ہے اور اس اعتراف کے باوجود پھر ایسے نظریات رکھتے ہیں جس سے ان کے اس نظریہ کی کھلی تردید ہوتی ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کو اللہ یا اللہ کا بیٹا کہنے والے بھی اسی بات کو تسلیم کرتے ہیں اس نظریہ کہ جبرئیل (علیہ السلام) کی تائید مسیح کو حاصل تھی۔ ” اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ “ کے الفاظ کہہ کر بھی اس عقیدہ کا رد کردیا کہ مسیح نہ خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے بلکہ اللہ ہی تو ان کا مددگار ہے اور وہی قادر مطلق ہے یعنی ان الفاظ سے اس حقیقت پر روشنی پڑگئی کہ عیسیٰ مسیح بایں ہمہ کمالات و فضائل کے بہرحال انسان ہی تھے اور وہ دوسرے انسانوں کی طرح دفع ضرر اور حصول نفع دونوں کے محتاج تھے اور اللہ کریم نے جو قادر مطلق ہے اپنی قدرت کا ملہ سے ان کی محافظت وتقویت و رفاقت کے لئے اپنی ایک دوسری مخلوق جو لطیف اور غیر مرئی بھی ہے اس کو مقرر فرمایا کہ اس کی محافظت کرے۔ قرآن کریم اور اسلام کی اصلاح میں اس سے مراد فرشتہ ، اعظم جبرئیل (علیہ السلام) ہیں جو ملکوتی طاقتوں اور قوتوں میں سب سے بڑی طاقت وقوت ہے۔ زیر نظر آیت کے الفاظ نے بھی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق یہ ثابت کردیا کہ وہ رسول برحق اور موید من اللہ تھے نہ کہ نعوذباللہ کوئی مفتری و کذاب جس طرح یہودیت نے سمجھا اور ان کے حق میں تفریط سے کام لیا اور آپ کو ایک بازی گر اور شعبدہ باز قرار دیا اور اس طرح نصاریٰ نے آپ کے حق میں افراط سے کام لیتے ہوئے حد عبدیت و عبودیت میں سے باہر نکال کیا اور اللہ یا اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔ ” الْبَیِّنٰتِ “ بینات کے تحت وہ تمام نشانیاں اور دلیلیں آگئیں جنہیں دیکھ کر ہر ایک عقل سلیم والا منصف مزاج نبوت عیسوی کا قائل ہوجائے کہ استعارات اور محاورات و ضرب الامثال میں باتیں انبیاء (علیہم السلام) ہی کرتے رہے تاکہ لمبی چوڑی تقاریر کرنے اور بات سے بات نکالتے جانے کے بجائے مختصر الفاظ میں اس انداز سے بات کی جائے کہ سامعین کے لئے دلنشیں ہو اور وہ اس سے عبرت و مؤعظت حاصل کریں۔ مشیت ایزدی میں لوگوں کے نہ جھگڑنے کا فیصلہ ہوتا تو وہ کیوں جھگڑتے ؟ 427: مشیت ایزدی کا فیصلہ یہ تھا کہ انسان کو مکلف بنایا جائے اور وہ اپنے کیے کا جواب دہ ہو۔ ایک حد تک اس کو ایک کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ لہٰذا اس نے اپنے فیصلہ مشیت کے مطابق انسان کو تخلیق کیا اور انسانون کو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ اس کے اندر قوائے مختلفہ جمع ہوں جن سے اس کی تمام ترقیاں پیدا ہوتی ہیں اور قوائے مختلفہ کے غلط استعمال سے ہی جھگڑا پیدا ہوتا ہے اس لئے : ” وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا 1۫“ کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایسانہ بناتا اور اس کے قوائے مختلفہ نہ ہوتے مگر اس کی مشیت کا یہی فیصلہ تھا اور اس نے یہی چاہا کہ وہ دوسری مخلوق سے بڑھ کر ترقی کرے اس لئے قوائے مختلفہ اسی کے اندر رکھے اور ” یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ (رح) 00253 “ کے اس جگہ دو مفہوم ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس میں اشارہ ہے کہ ارادہ الٰہی یہی ہے کہ انہیں قویٰ کے اچھے استعمال سے وہ نیک نتیجہ پالیتا ہے اور برے استعمال سے برا۔ دوسرا یہ کہ ارادہ الٰہی یہی ہے کہ کل دنیا کے جھگڑوں اور اختلاقوں کے فیصلے کے لئے ایک رسول کل دنیا کے لئے بھیجا جائے وہ وہی ہے جس کے متعلق دوسری جگہ ارشاد فرمایا : ارسل الی الناس کافۃ بشیرا و نذیرا ‘ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ہی وہ رسول ہیں جو پوری انسانیت کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے۔ انبیاء کے بعد لوگ پھر آپس میں اختلاف کرنے لگے : 428: فطرت انسانی تو محض خیر و نیکی پر ہی پیدا کی گئی تھی مگر خارجی اثرات ضلالت اور باد صر صر کے تیز و تند جھونکوں نے جو مختلف قویٰ کی وجہ سے لازم تھے اس کے آئینہ فطرت کو گرد آلود کردیا۔ تعلیم صحیح ان لوگوں کے پاس آئی کہ اپنی فطرت اصلیہ کو قائم رکھیں مگر ان لوگوں نے اختلاف پیدا کر کے اپنے آپ کو تباہ کردیا دراصل بتایا جا رہا ہے کہ قوم میں فرقہ بندی قومی تباہی کے مترادف ہے اور اس فرقہ بندی میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جو عموماً انبیاء کرام کی تعلیم اور خصوصاً محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم سے انحراف کرتے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو بیان کردیا کہ چونکہ مشیت الٰہی سب کو اضطراراً ایک ہی دین پر جمع کرنے کی نہ تھی اس لئے حکمت کاملہ نے اس عالم کو عالم ابتلاء ہی رکھنا چاہا اس لئے خلقت کا باہم مختلف ہونا بھی ناگزیر رہا کہ اختلاف کرنے والے یہاں بھی اس کا مزہ چکھیں اور آخرت میں عذاب کی لپیٹ میں لپیٹ لئے جائیں۔ ” اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے “ کا مطلب کیا ؟ 429: مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہوجانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رونما ہوئے اور پھر صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ اختلاف سے آگے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بےبس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کی طاقت نہ تھی ، نہیں اگر وہ چاہتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیاء کی دعوت سے سرتابی کرسکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اسکی زمین میں فسادو برپا کرسکتا۔ مگر اس کی مشیت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ واختیار کی آزادی چھین لے اور انہیں ایک خاص روش پر چلنے کے لئے مجبور کر دے۔ اس لئے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا اس لئے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں انتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیاء کرام کو لوگوں پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انہیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں بلکہ اس لئے بھیجا کہ دلائل اور بینات سے لوگوں کو راستی کی طرف بلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے ان لوگوں کو ارادے کی آزادی جو عطا کی تھی اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کرلیں نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کی راستی پر چلانا چاہتا تھا مگر معاذ اللہ اسے کامیابی نہ ہوئی۔
Top