Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 248
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓئِكَةُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا لَهُمْ : انہیں نَبِيُّهُمْ : ان کا نبی اِنَّ : بیشک اٰيَةَ : نشانی مُلْكِهٖٓ : اس کی حکومت اَنْ : کہ يَّاْتِيَكُمُ : آئے گا تمہارے پاس التَّابُوْتُ : تابوت فِيْهِ : اس میں سَكِيْنَةٌ : سامان تسکیں مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَبَقِيَّةٌ : اور بچی ہوئی مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا اٰلُ مُوْسٰى : آل موسیٰ وَ : اور اٰلُ ھٰرُوْنَ : آل ہارون تَحْمِلُهُ : اٹھائیں گے اسے الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : نشانی لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
پھر ان کے نبی نے کہا اس کی اہلیت کی نشانی یہ ہے کہ مقدس تابوت جو تم کھو چکے ہو وہ تمہارے پاس واپس آجائے گا اور فرشتے اسے اٹھا لائیں گے اسی تابوت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے تسکین ہے اور جو کچھ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے گھرانے چھوڑ گئے ہیں ان کا بقیہ ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو تو یقینا اس واقعے میں تمہارے لیے بڑی ہی نشانی ہے
415: ” التَّابُوْتُ “ کے معنی تو صندوق کے ہیں جو مشہور و معروف ہیں اسے ” توب “ سے مشتق کہا گیا ہے۔ چونکہ چیزیں یعنی کپڑے وغیرہ اس میں لوٹ لوٹ کر یعنی تہہ لگا کر رکھے جاتے ہیں اسی نسبت سے اس کو تابوت کہتے ہیں۔ ” تابوت “ کے معنی دل کے بھی ہیں جس کو عربی زبان میں ” قلب “ کہتے ہیں اور مثل مشہور ہے کہ : ” ما اودعت تابوتی شیئا فقدتہ “ میں نے اپنے دل کے سپرد کبھی کوئی شے نہیں کی جسے اس نے گم کردیا ہو۔ لغت کی تمام کتابوں میں تابوت کو دل بتایا گیا ہے جیسے لسان العرب اور مفردات امام راغب وغیرہ۔ اس جگہ ” تابوت “ دل مراد لے کر بھی معنی بیان کئے جاسکتے ہیں اور آیت قرآنی کے سارے الفاظ اس کے موید ہیں لیکن ہم اس جگہ ” صندوق “ ہی مراد لیں گے کیونکہ مفسرین نے یہ معنی مراد لئے ہیں اور تورات بھی ان کی تصدیق کرتی ہے۔ تابوت کیا تھا ؟ گویا ایک صندوق تھا جس میں بنی اسرائیل نے کچھ قومی نشانیاں بند رکھی تھیں اور اس کو متبرک خیال کرتے تھے اگرچہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کوئی دی گئی چیز نہ تھی لیکن ان کے ہاں ایک ” قومی نشان “ ضرور سمجھا جاتا تھا۔ جس طرح آج پوری دنیا میں ” پرچم “ ایک قومی نشان کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ہر قوم کا ایک الگ الگ نشان ہے جس سے ملک وقوم کی شناخت ہوجاتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں کچھ ایسی علامات ہوتی ہیں جن کا باقی رہنا قومی زندگی کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے اگر وہ نہ رہے تو گویا ملی موت واقع ہوجانے کے مترادف خیال کیا جاتا ہے ایسے ہی بنی اسرائیل میں ایک تابوت تھا جو قومی زندگی کی گویا علامت سمجھا جانے لگا۔ کتاب سموئیل سے پایا جاتا ہے کہ تابوت سکینہ بمقام شیلوہ تھا جہاں عیلی بنی اسرائیل پر حاکم تھا اس کے عہد میں بنی اسرائیل اور فلسطینیوں میں بمقام ” ابن عیذر ‘ ‘ جنگ ہوئی اور بنی اسرائیل کو شکست فاش ہوئی۔ تب بنی اسرائیل نے اس ” تابوت سکینہ “ کو شیلوہ سے لشکر گاہ میں منگایا اور دوبارہ لڑے لیکن اس بار بھی شکست عظیم ہوئی اور عیلی حکمران کے دونوں بیٹے مارے گئے اور تابوت سکینہ کو فلسطینی چھین لے گئے۔ عیلی بھی یہ خبر سن کر اپنی کرسی پر سے گر پڑا اور مر گیا اس زمانہ میں سموئیل نبی پیدا ہوچکے تھے لیکن ابھی چھوٹے تھے یا یہ کہ وہ ابھی نبی نہیں ہوئے تھے۔ فلسطینی اس ” تابوت سکینہ “ کو مقام ابن عیذر سے اٹھا لے گئے اور اپنے ہاں کے ایک مقام اشدود لے گئے اور واگون بت کے مندر میں لے جا کر رکھا پھر وہاں سے مقام ” گٹ “ لے گئے اور پھر وہاں سے انہوں نے اس کو مقام عقرون جا رکھا۔ ان مختلف مقامات پر اس تابوت کو کیوں لے جایا گیا ؟ وہ چیز جو بنی اسرائیل کے لئے برکت کا باعث تھی وہ ان کے لئے گویا و بال جان بن گئی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو یقین تھا جہاں صندوق ہوگا وہاں ہی سب سے پہلے بنی اسرائیل حملہ آور ہونگے وہ اس حکمت عملی کو اپناتے رہے کہ بنی اسرائیل کو اس جگہ کی نشاندہی نہ ہونے پائے۔ ایک مدت گزر گئی۔ سموئیل بنی اسرائیل کے نبی ہوئے۔ بنی اسرائیل نے ان سے درخواست کی کہ ہمارے لئے کوئی سپہ سالار یا امیر الجیش مقرر کیا جائے تاکہ ان کی کمان میں ہم لڑیں اور اپنا علاقہ اور تبرکات قومی یعنی ” تابوت سکینہ “ کو واپس لائیں ۔ خصوصاً تابوت سکینہ کا دشمنوں کے ہاتھ میں چلا جانا بلاشبہ ان کو بہت رنج دیتا تھا ان کی نہایت آرزو تھی کہ یہ اس کو پھر اپنے دشمنوں سے واپس لیں گے۔ اس شکست کے تقریباً بیس برس بعد وہ اپنی گروہی اور فرقہ وارانہ حیثیت کو چھوڑ کر سموئیل نبی کے ہاں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے تو ان کی وہ قوت جو عیلی کے مرنے کے بعد منتشر ہوگئی تھی دوبارہ منظم ہوئی اور اس طرح بنی اسرائیل کو اب کافی قوت مل گئی۔ اگرچہ اب بھی ان کے بعض لوگوں کو طالوت کے امیر الجیش ہونے پر اعتراص تھا لیکن وہ فی الوقت قومی ضرورت کے مطابق نہ چاہنے کے باوجود اکٹھے ہوئے اس طرح سے انہوں نے خاصی قوت حاصل کرلی اور ادھر فلسطینی بھی دن بدن کمزور ہوتے گئے اس لئے کہ فاتح قوم فتح حاصل کرنے کے بعد ان بداعتدالیوں کا شکار ہو ہی جاتی ہے جن کے عوض اس کو ایک بار پھر شکست سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ بنی اسرائیل کا منظم ہوجانا اور جنگ کی تیاری کرنا ان کے لئے خوف کا باعث ہوا تو انہوں نے یعنی فلسطینیوں نے پہلا قدم یہی اٹھایا کہ بنی اسرائیل کا وہ ” تابوت سکینہ “ خود بخود واپس کردیا کہ شاید اس طرح مصیبت جنگ سے حفاظت ہوجائے۔ انہوں نے جگہ بجگہ منتقل کرنے کے بعد آخر کار ایک بیل گاڑی پر لاد کر مع تحائف کے بیت الشمس کی سرحد میں جو بنی اسرائیل کا ایک شہر تھا اور فلسطین کی سرحد سے ملا ہوا تھا چھوڑ آئے اور یہ وہ وقت تھا جب کہ طالوت کے متعلق سموئیل نبی کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کا سپہ سالار اعظم ہے۔ تابوت سکینہ کا اس طرح بغیر کسی لڑائی اور بغیر کسی عہد معاہدہ کے حسن اتفاق سے واپس جانا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا گویا یہ طالوت امیر الجیش بنائے جانے کی پہلی نیک فال تھی جس سے ظاہر ہے کہ طالوت کے اور سموئیل نبی اور ان کے ہم خیال لوگوں کے لئے مزید تقویت کا باعث ہوئی اور اس طرح طالوت کے عہدہ کی مخالفت کی تحریک مزید دب گئی جو ان حالات کا قدرتی اور منطقی نتیجہ تھا۔ یہی وہ بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر اپنا فضل و کرم کرنا چاہتا ہے تو ان کو سوچ مثبت ہوجاتی ہے اور ان کے حالات ساز گار ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی حالات کے موقع پر لوگ کہتے ہیں کہ فلاں قوم اگر مٹی پر ہاتھ رکھے تو وہ سونا ہوجاتی ہے۔ پہاڑ ان کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں اور دریا ان کے راستوں میں حائل نہیں ہوتے وہ عزم کے اتنے پختہ ہوجاتے ہیں کہ ان کا ایک ایک آدمی سینکڑوں پر بھاری ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تابوت سکینہ کے اس طرح واپس آنے کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کو اٹھالائے اور اس طرح اس تابوت کے واپس آجانے میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے دلجمعی یعنی تسکین قلب ہے اور اس طرح اس الٰہی مدد کا آنا اس بات کی تصدیق ہے کہ طالوت کا امیر لشکر بنایا جانا اللہ نے پسند فرمایا ہے جس میں پوری قوم کے لئے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔
Top