Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 191
وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ١ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى یُقٰتِلُوْكُمْ فِیْهِ١ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ١ؕ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
وَاقْتُلُوْھُمْ
: اور انہیں مار ڈالو
حَيْثُ
: جہاں
ثَقِفْتُمُوْھُمْ
: تم انہیں پاؤ
وَاَخْرِجُوْھُمْ
: اور انہیں نکال دو
مِّنْ
: سے
حَيْثُ
: جہاں
اَخْرَجُوْكُمْ
: انہوں نے تمہیں نکالا
وَ
: اور
الْفِتْنَةُ
: فتنہ
اَشَدُّ
: زیادہ سنگین
مِنَ
: سے
الْقَتْلِ
: قتل
وَلَا
: اور نہ
تُقٰتِلُوْھُمْ
: ان سے لڑو
عِنْدَ
: پاس
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
: مسجد حرام (خانہ کعبہ)
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يُقٰتِلُوْكُمْ
: وہ تم سے لڑیں
فِيْهِ
: اس میں
فَاِنْ
: پس اگر
قٰتَلُوْكُمْ
: وہ تم سے لڑیں
فَاقْتُلُوْھُمْ
: تو تم ان سے لڑو
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
جَزَآءُ
: سزا
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
انہیں جہاں کہیں پاؤ قتل کرو اور جس جگہ سے انہوں نے تم کو نکالا ہے تم بھی انہیں نکال باہر کرو کیونکہ فتنہ کا قائم رہنا قتل و خونریزی سے بڑھ کر ہے جب تک وہ خود مسجد حرام کی حدود میں تم سے لڑائی نہ کریں تم بھی ان سے لڑائی نہ کرو ، ہاں ! اگر انہوں نے اس مقام پر لڑائی شروع کردی تو تمہارے لیے اس مقام پر لڑنا ضروری ہوجائے گا ، منکرین حق کا یہی بدلہ ہے
جنگ جاری کرنے والوں کو اب جہاں پاؤ قتل کرو یہاں تک کہ وہ جنگ سے باز آجائیں : 327: ایسے مخالفین اور معاندین اسلام کو جو ہر وقت تمہارے فنا کرنے کی تیاریاں کرتے رہتے ہیں ۔ جہاں پاؤ قتل کردو کیونکہ ان کو چھوڑ دینا اور مخالفت کا موقع دینا ہرگز قرین عقل و انصاف نہیں ہے ۔ جب وہ تمہارے قتل کے لئے ہر مناسب موقع کی تلاش میں رہتے ہیں تو تم انہیں آخر کیوں چھوڑو گے ؟ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً 1ؕ (التوبہ 9 : 10) ” کسی مؤمن کے لئے نہ تو قرابت کا پاس کرتے ہیں ، نہ عہدو قرار کا یہی لوگ ہیں کہ ظلم میں حد سے گزر گئے ہیں “۔ اور ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ ہَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ ہُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ 1ؕ (التوبہ 9 : 13) ’ ’ اے مسلمانو ! کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں۔ جنہوں نے اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبہ بنائے اور پھر تمہارے خلاف لڑائی میں بھی پہل انہی کی طرف ہوئی۔ ‘ ‘ بیت اللہ الجلیل کے اصل وارث مسلمان تھے ۔ اس لئے کہ یہی ابراہیمی ملت کے پابند تھے چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا 1ؕ (آل عمران 3 : 68) ” فی الحقیقت ابراہیم (علیہ السلام) سے نزدیک تر لوگ تو وہ تھے جو اس کے قدم بقدم چلے نیز اللہ تعالیٰ کا یہ نبی ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائے ہیں “۔ مشرکین کی جسارت کا اندازہ لگاؤ : 328: قرآن کریم کہتا ہے کہ ان مشرکین کی جسارت کا ذرا اندازہ لگاؤ کہ یہ کس قدر بڑھ چکے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ انہوں نے اپنا رکھا ہے۔ جو ابراہیم (علیہ السلام) کے اصل وارث ہیں ان ہی کو ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر سے نکال دیا ہے ۔ غور تو کرو کہ کفار نے ان کو یعنی مسلمانوں کو اور نبی کریم ﷺ کو وہاں سے نکال دیا اور خود اس پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ اب مسلمانوں کا بھی فرض ہے کہ اس مرکز اسلام سے ان کو الگ کردیں اور اس مرکز کو ان سے خالی کرالیں اور واپس لے لیں۔ مگر مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف بیت اللہ پر قبضہ کر کے ان کا فرض ختم نہیں ہوجاتا۔ وہ اب شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ کے درجہ پر فائز کئے گئے ہیں : ” وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا “ ان کا طغرائے امتیاز ہے اور ” خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ “ ان کی خصوصیت کبریٰ ہے۔ اس دنیا میں جس قدر انبیاء کرام آئے ہیں ان سب کے وارث اصلی اب مسلمان ہی ہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں ۔ ان رسولوں نے اپنی اپنی امتوں کے لئے مرکز قائم کئے مگر کچھ مدت کے بعد ناخلف ان پر قابض ہوگئے۔ اس لئے بیت اللہ کو اب اپنے قبضہ میں لینے کے بعد ان کا دوسرا فرض یہ ہوگا کہ دنیا بھر میں جس قدر بھی مذہبی مراکز ہیں ان پر قبضہ کرلیں تاکہ حکمۃ اللہ بلند ہو اور صحیح معنوں میں وہ ” شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ “ کے مصداق بن سکیں۔ یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر یاد بھی رکھیں کہ ” وَ اقْتُلُوْهُمْ “ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قتال و جہاد فریضہ انفرادی نہیں بلکہ امام کی معیت میں ہے۔ لشکر کا وجود و وجوب بطور عبارۃ النص کے نکلا اور امام کا بہ طور اقتضاء النص کے کہ لشکر کا انتظام و اجتماع بغیر ایک امام کے ممکن نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو آج امت مسلمہ بالکل بھول چکی ہے جس کے نتیجہ میں مسلمان خود ہی ایک جماعت نہیں رہے بلکہ مختلف جماعتوں اور گروہ میں تقسیم ہوگئے اور یہ چیز بذاتہٖ شریک ہے۔ جب تک مسلمان مل کر ایک امیر کو منتخب نہیں کرتے اس وقت تک جہاد کوئی جہاد نہیں بلکہ اس کو جہاد کے نام سے موسوم کرنا اسلام کے ماتھے پر ایک داغ کے مترادف ہے جس نے اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر بالکل اسلامی نہیں رہنے دیا۔ اس وقت جو صورت حال اس ملک پاکستان کے اندر ہے کہ ایک جماعت مسلمہ کئی جماعتوں میں تقسیم ہوگئی پھر ایک ایک تقسیم شدہ جماعت کے کئی کئی گروہ بن گئے اور ہر گروہ نے ایک دوسرے پر تلوار سونت لی اس طرح ایک لڑائی اپنے گھر کے اندر جاری ہے اور ملک کے باہر بھی بالکل اس طرح کی لڑائی کو جہاد کے نام سے جاری رکھا ہوا ہے اور اسی طرح ایک ایک جماعت کے کئی کئی سرغنوں نے اپنی اپنی جماعتوں اور اپنے اپنے گروہوں کے نام سے صرف اپنے اپنے پیٹ کی خاطر جہاد کا نام بدنام کر رکھا ہے دراصل اسلامی نکتہ نظر کے مطابق یہ سب ایک نہ ہوں تو واجب القتل ٹھہریں گے اور اس سلسلہ میں رسول اکرم ﷺ کے کھلے اور واضح ارشادات موجود ہیں کہ ایک کی موجودگی میں جب کوئی دوسرا خلافت و امارت کی کوشش کرے گا تو اس کو قتل کردیا جائے ۔ کم ازکم فقہ حنفیہ کی بار بار رٹ لگانے والوں کو پہلے اس مسئلہ پر غور کرنا چاہئے ۔ والی اللہ المشتکی۔ فتنہ کا قائم رہنا خونریزی سے بھی بڑھ کر جرم ہے : 329: مشرکوں کی شرارت جسے اس جگہ فتنہ سے موسوم کیا گیا ہے وہی تو اصل جڑ تھی اور اخراج و قتل وغیرہ اس کی سزائیں تو محض فروع ہیں۔ ” الْفِتْنَةُ “ سے مراد شرک یا اس کی ترغیب و تحریص اور اہل توحید کی تخویف ہے۔ کفر اور ترغیب کفر کو فتنہ سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ نظام کفر آخر دنیا کو فتنہ و فساد ، کشت و خونریزی اور غدر وبدامنی ہی کی طرف لے جاتا ہے۔ پھر ” وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ 1ۚ“ یعنی فتنہ اتنی بری شے ہے کہ حرم میں قتل و خون سے بھی اپنی برائی میں بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس مرکز توحید و ایمان میں شرک ، اشاعت شرک و تبلیغ شرک کا فتنہ بپا کر رکھا ہے اور یہ معنی بھی درست و صحیح ہیں کہ مکہ والوں کی یہ مسلسل وغیر منقطع تعدیاں اور مظالم قتل سے بھی کہیں زیادہ سخت و ناقابل برادشت ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جنگ کوئی اچھی چیز نہیں بلکہ ایک ناگزیر حالت ہے لیکن فتنے کا قائم رہنا بذاتہ برائی ہے پس مجبوری ہے کہ فتنے کے ازالہ کے لئے جنگ کی حالت گوارا کرلی جائے۔ اب رہی یہ بات کہ اس وقت خصوصا قریش مکہ کا فتنہ کیا تھا ؟ وہ یہ تھا کہ وہ جبر و قہر سے لوگوں کو مجبور کرتے تھے کہ جس بات کو حق سمجھتے ہیں اسے حق نہ سمجھیں یعنی دین و اعتقاد کی آزادی مفقود ہوگئی تھی قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ برائی جنگ سے بھی زیادہ سخت اور نازک ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کا انسداد کیا جائے اور اس کے انسداد کے لئے جنگ کو قبول کرلیا جائے۔ جب کبھی انفرادی و اجتماعی اغراض کا تصادم ہو تو ہمیشہ انفرادی فوائد کو قومی مقاصد پر قربان کیا جاتا ہے کل مصلحت کے مقابلہ میں جزئی مصلحت کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ اگر ایک انسان یا چند انسانوں کا قتل ہونا ملک کے حق میں مفید ثابت ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں ۔ پس قتل و قتال اس قدر مذموم نہیں جتنا فتنہ و فساد اور یہ فتنہ بغیر قتال کے فرو نہیں ہو سکتا۔ مسجد حرام کی حدود میں لڑائی جائز نہیں لیکن مجبوری اور شے ہے : 330: مسجد حرام یعنی بیت اللہ بلکہ اس سے مراد دیوار حرم ہے گویا حرم میں لڑائی کی ابتداء کرنا جائز نہیں کہ کرہ ارضی میں صرف یہی ایک مقام ہے جس کو امن و سلامتی کا گھر بنایا گیا ہے : ” وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ “ البتہ اگر کفار کی طرف سے جنگ کی ابتداء ہوجائے تو اس وقت مسلمانوں کو بھی مجبوراً تلوار ہاتھ میں لینا پڑے گی اور پھر یہ استثناء باقی نہ رہے گا۔ حرم مکہ میں انسان کیا کسی شکاری جانور کو بھی شکار کرنا جائز نہیں لیکن اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر حرم محترم میں کوئی آدمی دوسرے کو قتل کرنے لگے تو اس کو بھی مدافعت میں قتال جائز ہے۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہوگئی کی ابتداء جہاد و قتال کی ممانعت صرف مسجد حرام کے اندر یا باہر آس پاس حرم مکہ کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے مقامات میں جیسے دفاعی جہاد ضروری ہے اسی طرح اعلان جنگ کے ساتھ ابتدائی طور پر بھی درست ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ گذشتہ آیات سے دو باتیں ثابت ہوگئیں کہ دین اسلام میں امت مسلمہ کا ایک امیر ہے اور مسلمانوں پر جہاد فرض ہے۔ 1: کوئی جگہ قتال فی سبیل اللہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ سوائے حرم مکہ کے لیکن اگر فریق کفار وہاں لڑائی شروع کردے تو مدافعانہ طور طور پر ان سے قتال کی اجازت ہے۔ 2: کوئی مسلمان اپنے آپ کو جہاد سے مستثنیٰ نہیں کرسکتا۔ جو لوگ بیت اللہ میں گوشہ گیر ہیں ، ذکر الٰہی ان کا مقصد وحید ہے اور شب و روز اسی کی عبادت میں مصروف ہیں۔ تزکیہ نفس و تہذیب اخلاق ان کے پیش نظر ہو وہ بھی عند الضرورۃ جنگ کی شرکت سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے کیونکہ جب خود بیت اللہ ہی میں جنگ شروع ہوجائے گی تو کون ان کی اعانت کے لئے آئے گا بلکہ انہیں خود ہی اس کے لئے تیاری کرنا پڑے گی۔ ایسے وقت میں تسبیح و تہلیل پر ہی اکتفانہ کرنا ہوگا بلکہ جہاد میں شرکت ضروری ہوگی۔ باقی واقعات کو چھوڑ کر تم خود لسان الٰہی کی غیر مشتبہ آواز ہی پر غور کرو تو بات سمجھ میں آجائے گی فرمایا گیا : اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ؕ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ 1ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۘ00 (التوبہ 9 : 19) ” کیا تم لوگوں نے یوں ٹھہرا رکھا ہے کہ حاجیوں کیلئے سبیل لگا دینا اور مسجد حرام کو آباد رکھنا اسی درجہ کا کام ہے جیسا اس شخص کا کام جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ظلم کرنے والوں پر کامیابی کی راہ نہیں کھولتا۔ ‘ ‘ اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری سے کسی مسلمان کو مفر نہیں ہے ۔ ہاں ! جب مخالفین اپنی شرارتوں سے باز آجائیں اسلام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ترک کردیں اور قرآن کریم کی فنا سامانی کے لئے خفیہ تیاریاں کرنی چھوڑ دیں تو پھر جنگ کی ضرورت نہیں۔ قتل و قتال کا فتویٰ اس صورت میں دیا گیا ہے جبکہ اسلام کے بچاؤ کی کوئی صورت نہ رہی ، وسری جگہ حکم قتال اور جواز جنگ کی اصل علت بیان فرما دی : حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا 1ۛ۫ۚ(74 : 4) ” یہاں تک کہ لڑائی موقوف ہوجائے “ یعنی دنیا میں عالمگیر صلح و امن قائم ہوجائے۔ ساری دنیا ایک قوم اور تمام نوع انسانی ایک گھرانے کی طرح زندگی بسر کرے۔ ذرا غور کرلو کہ قریش مکہ کو خانہ کعبہ کی مجاوری اور حاجیوں کے کاروبار کے منصرم ہونے کا بڑا غرور تھا اور جب ایک جماعت اعتقاد و عمل کی حقیقت سے محروم ہوجاتی ہے تو اس طرح کے رسوم و مظاہر کو ہر طرح کی بزرگی وسعادت کا ذریعہ سمجھنے لگتی ہے۔ چناچہ آج کل مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے کہ کسی بزرگ کی سجادہ نشینی ، کسی مزار کی مجاوری ، کسی زیارت گاہ کا متولی ہونا جو اثر و رسوخ رکھتا ہے وہ بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر مؤمن و متقی کو بھی حاصل نہیں ؟ کیوں یہی گمراہی پھیلی ہوئی ہے دیکھو ایک صالح و متقی مسلمان کو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ایک فاسق وفاجر مجاور یا متولی درگاہ کی ہزاروں آدمی قدم بوسی کریں گے۔ سورة توبہ کی آیت انیس میں اس گمراہی کا ازالہ کیا ہے۔ فرمایا کہ اصل نیکی یہ نہیں کہ ہاجیوں کو پانی پلانے کی سبیل لگا دی جائے یا خانہ کعبہ میں روشنی کردی جائے بلکہ اصل ن کی تو اس کی ہے جو ایمان لایا اور جس نے اعمال حسنہ انجام دیئے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔
Top