Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
یہ بات بھی تم پر فرض کردی گئی ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی محسوس کرے کہ اس کے مرنے کی گھڑی آگئی اور وہ اپنے بعد مال و متاع میں سے کچھ چھوڑ جانے والا ہو تو چاہیے کہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کیلئے اچھی وصیت کر جائے جو متقی انسان ہیں ان کیلئے تو ایسا کرنا اور بھی ضروری ہے
وصیت کرنے کا حکم منسوخ نہ ہونے کی دلیل : 309: علمائے اسلام نے جن آیتوں کے احکام کو منسوخ بتایا ہے ان آیتوں میں یہ آیت بھی شامل ہے اور تعجب ہے کہ جن پانچ آیتوں کو شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی (رح) نے منسوخ تسلیم فرمایا ہے ان میں سے پہلی آیت بھی یہی ہے۔ ان حضرات کا خیال یہ ہے کہ چونکہ سورة نساء میں وارثوں کے حصے معین کردیئے گئے ہیں اس لئے وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور آیت یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ 1ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ 1ۚ (النساء 4 : 11) کو ناسخ قرار دیتے ہیں اور حدیث ” لا وصیۃ لوارث “ یعنی وارث کے لئے وصیت نہیں ہے اس نسخ کو اور زیادہ واضح کرتی ہے ۔ لیکن ہماری سمجھ کے مطابق یہ آیت منسوخ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی دوسری آیت منسوخ ہے۔ بلکہ یہ آیت اب بھی واجب العمل ہے اور اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔ ! قرآن کریم نے جس موقع پر وارثوں کے حصے معین کئے ہیں وہاں ” مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ “ کے الفاظ بھی ساتھ ساتھ آتے جاتے ہیں دیکھئے کہ بھائیوں کے ہوتے ہوئے جب ماں کا چھٹا حصہ مقرر کیا تو یہ شرط لگا دی کہ ان حصوں کے مطابق تقسیم اسی وقت ہوگی جب وصیت پر عمل ہوچکا ہوگا اگر مرنے والے نے کوئی وصیت کی ہے تو اور دوسری بات یہ کہ اس کا کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد مثلاً فرمایا : فَاِنْ کَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ 1ؕ(النساء 4 : 11) ” یعنی اگر ماں باپ کے علاوہ میت کے ایک سے زیادہ بھائی یا بہنیں ہوں تو ماں کا حصہ چھٹا ہوگا۔ لیکن یاد رہے کہ میت نے جو کچھ وصیت کردی ہو یا جو کچھ اس پر قرض رہ گیا ہو اس کی تعمیل اور ادائیگی کے بعد یہ حصے تقسیم ہوں گے۔ “ دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ : فَاِنْ کَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ 1ؕ(النساء 4 : 12) ” اور اگر ان عورتوں کے لئے کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے یعنی خاوند کے لئے چوتھائی حصہ ہوگا لیکن تقسیم اس کے بعد ہوگی کہ جو کچھ وہ وصیت کرگئی ہوں اور جو کچھ اس پر قرض ہو جب اس کی ادائیگی ہوجائے۔ “ سورة نساء میں جہاں وارثوں کے حصے متعین کئے گئے ہیں وہاں ہی ہر بار یہ بات بھی ساتھ ساتھ دہرائی گئی ہے اور بےتکرار اس کو بیان کیا گیا ہے یعنی ان تمام آیات میں حصص بیان کئے گئے ہیں مگر ہر آیت کے آخر میں ” مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ “ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ وصیت جائز قرار دی گئی ہے اور اس کو منسوخ نہیں سمجھا گیا۔ " پھر نزول کے اعتبار سے سورة مائدہ سب سورتوں کے آخر میں نازل کی گئی ہے اس میں ارشاد الٰہی ہے کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ (المائدہ 5 : 106) مسلمانو ! جب تم میں کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو اور وہ وصیت کرنے لگے تو وصیت کے وقت گواہی کے لئے تم میں سے دو آدمی معتبر گواہ ہونا چاہئیں اگر ایسا ہو کہ تم سفر میں ہو اور تم کو مسلمان گواہ نہ میسر ہو سکیں تو غیر مسلم بھی گواہ بنائے جاسکتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورة بقرہ کے حکم وصیت کو سورة مائدہ میں بدستور قائم رکھا گیا۔ # بخاری نے کتاب الوصایا میں سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے کہ وہ قیام مکہ کے دوران بیمار ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور رسول اللہ ﷺ اس امر کو ناپسند فرماتے تھے کہ ایک مسلمان مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد پھر اسی جگہ یعنی مکہ میں مر جائے ۔ آپ ﷺ نے سعد کے حق میں دعا کی تو سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر جائوں یعنی اللہ کی راہ میں صرف کر دوں۔ اس طرح سعد بار بار آپ ﷺ سے دریافت کرتے ہیں کے اپنا تمام مال و متاع اللہ کی راہ میں صرف کر دوں مگر آپ ﷺ روکتے ہیں تاآنکہ تہائی مال کی وصیت کی اجازت مل جاتی ہے۔ اس کی وجہ نبی کریم ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ وارثوں کو غریب و تنگدست چھوڑنے سے دولت مند رہنے دینا زیادہ بہتر ہے۔ اس حدیث میں چند باتیں قابل غور ہیں : ! مکہ مبارکہ ہجرت کے آٹھویں سال فتح ہوا ہے۔ " سورة بقرہ کی آیت زیر بحث اور نساء کی آیت توریث 8 ہجری سے قبل نازل ہوچکی تھیں۔ # فتح مکہ تک وصیت والی آیت پر مسلمان برابر عمل کرتے تھے۔ کوئی شخص بھی اس کو منسوخ تسلیم نہ کرتا تھا کیونکہ اگر یہ آیت اس وقت منسوخ ہوگئی ہوتی تو سب سے پہلے خود حامل نبوت سعد کو وصیت کرنے سے روکتے کہ جب آیت وصیت منسوخ ہوچکی ہے تو تمہیں وصیت کرنے کا یا حق ہے ؟ مگر آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ آپ کا امر یہ ہے کہ ثلث میں وصیت کرو کیونکہ اگر تمام مال فی سبیل اللہ خرچ کردیا تو عزیز رشتہ دار بھوکے رہیں گے یعنی ورثاء کو کچھ نہیں ملے گا۔ پس ان تمام باتوں سے معلوم ہوگیا کہ زمانہ رسالت میں یہ آیت منسوخ نہ تھی اور تمام صحابہ کرام اس کو قابل عمل خیال کرتے تھے البتہ اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جب شریعت نے وارثوں کے حصے مقرر کردیئے ہیں تو پھر یہاں والدین اور رشتہ داروں کے ذکر کی کیا ضرورت تھی ؟ سو عرض یہ ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین اور رشتہ داروں کو شریعت کے مطابق حصہ مل گیا مگر وہ ان کے لئے بالکل کافی نہیں ہے بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے تو اس صورت میں اگر مرنے والا ان میں سے کسی کے لئے وصیت کر جائے تو شریعت اس کو پسند کرتی ہے یا بعض اوقات یہ لوگ وارث نہیں بن سکتے مثلاً وہ کافر ہیں تو ایسی حالت میں بھی ان کے لئے وصیت کر جانا شرعی نظر سے پسندیدہ ہے اور بعض اوقات کسی قریبی کو بالکل دوسرے قریبی محروم کردیتے ہیں اور وصیت اس خلا کو پر کرسکتی جیسے اولاد کی موجودگی میں پوتے پوتیاں وغیرہ چناچہ ابن عباس ، حسن ، مسروق ، طائوس ، ضحاک اور مسلم بن یسار کا یہی بیان ہے۔
Top