Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِب : فرض کیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْقِصَاصُ : قصاص فِي الْقَتْلٰي : مقتولوں میں اَلْحُرُّ : آزاد بِالْحُرِّ : آزاد کے بدلے وَالْعَبْدُ : اور غلام بِالْعَبْدِ : غلام کے بدلے وَالْاُنْثٰى : اور عورت بِالْاُنْثٰى : عورت کے بدلے فَمَنْ : پس جسے عُفِيَ : معاف کیا جائے لَهٗ : اس کے لیے مِنْ : سے اَخِيْهِ : اس کا بھائی شَيْءٌ : کچھ فَاتِّبَاعٌ : تو پیروی کرنا بِالْمَعْرُوْفِ : مطابق دستور وَاَدَآءٌ : اور ادا کرنا اِلَيْهِ : اسے بِاِحْسَانٍ : اچھا طریقہ ذٰلِكَ : یہ تَخْفِيْفٌ : آسانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت فَمَنِ : پس جو اعْتَدٰى : زیادتی کی بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اے مسلمانو ! جو لوگ قتل کردیئے جائیں ان کے لیے تمہیں قصاص [ لینے کا حکم دیا جاتا ہے ، اگر آزاد نے قتل کیا ہے تو اس کے بدلہ میں وہی آزاد قتل کیا جائے گا ، اگر غلام قاتل ہے تو وہی غلام قتل کیا جائے گا ، عورت نے قتل کیا ہے تو وہی قتل کی جائے گی اور ہاں ! اگر کسی قاتل کو مقتول کے بھائی سے معافی مل جائے تو مقتول کے وارث کیلئے دستور کے مطابق مطالبہ ہے اور قاتل کیلئے خوش معاملگی کے ساتھ ادا کردینا ہے اور یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے اس کی رحمت ہے ، اب اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے تو وہ اپنے رب کے ہاں دردناک عذاب کا سزاوار ہے
قانونِ فوجداری کی شق اوّل کا ذکر : 306: قصاص کے اصل معنی ہیں : تتبع الدم بالقود ، یعنی خون کا پیچھا کرنا اس طرح پر کہ قاتل کو قتل کیا جائے۔ اور ایک حدیث کے الفاظ یہ بھی کہ : من قتل عمدافھو قود ، یعنی جس شخص نے عمداً قتل کیا اس شخص کو مقتول کے بدلے میں قتل کیا جائے۔ پس قصاص فی القتلی یہ ہے کہ جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہے اسے قتل کیا جائے۔ اب قصاص کا مطلب سمجھ میں آجانے کے بعد پوری آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے اور کوئی دقت باقی نہیں رہتی۔ زیر نظر آیت میں مقتول کے بارے میں قصاص کا حکم دیا ہے یعنی قاتل کو قتل کردیا جائے اور اس کا ذکر اس جگہ اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں اپنے دکھ دینے والوں اور قتل کرنے والوں سے بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتاب یعنی قرآن کریم میں قاتل کے لئے قتل کی سزا ہی کو ضروری قرار دیا ہے اور یہی سزا فوجداری کی پہلی سزا ہے جس سے قتل و غارت کا دنیا سے صفایا کیا جاسکتا ہے۔ اصل اس کی یوں سمجھنی چاہیے کہ انسان بحیثیت کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ قتل و غارت کی ہرچیز سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے اور کوئی انسان بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو کسی دوسری جان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھے۔ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ اس سزا کو دنیا سے اٹھانے کے لئے جتنی کوششیں کی گئیں ہیں سب ناکام ہوئی ہیں کیوں ؟ اسلئے کہ جب قاتل کو یہ علم ہو کہ کسی انسان کو قتل کرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہ سکتا ہے تو اس کا دل بڑھ جاتا ہے اور وہ کسی کو قتل کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے اور جب اسکو یقین ہو کہ میں کسی کو قتل کرلینے کے بعد کسی صورت بھی زندہ نہیں بچ سکتا تو وہ کسی طریقہ سے بھی قتل کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا اگر یہ ناممکن نہیں تو بہر حال بہت ہی مشکل ہے ۔ اس آیت نے یہ بتا دیا کہ قتل میں قصاص تمدن و تہذیب کی ضروریات میں سے ہے۔ اور اس آیت نے یہ بات بھی ثابت کردی کہ اسلام اپنے پیروئوں سے دنیوی سر بلندی ہی کی توقع رکھتا ہے اور اسے بطور ایک مسلمہ کے فرض کئے رہتا ہے کہ امت مسلمہ ہی دراصل دنیوی اقتدار کی بھی مالک ہوگی۔ مسلمانوں کا ایک عرصہ تک مسلسل کافروں کے تسلط اقتدار میں رہنا اسلام کے مفروضات اولیٰ میں گویا داخل نہیں ہے کیونکہ قانون فوجداری اور قانون دیوانی دونوں کی دفعات کا نفاذ نظام حکومت کے اسلامی ہونے پر معلق ہے یعنی امت کو ان قوانین الٰہی کی تنفیذ کی باقاعدہ قدرت بھی تو ہو۔ گویا قصاص قانون فوجداری کے ماتحت سزا کی منظم و مہذب و منضبط ترین شکل کا نام ہے۔ امت کا ایک قانونی اور اجتماعی حق ہے اور اس کے اجراء کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے۔ قصاص ہر فرد دوسرے فرد سے ازخود نہیں لے سکتا اس لئے مومنین سے خطاب اجتماعی حیثیت سے ہے انفرادی حیثیت سے نہیں۔ قتل عمد کی سزا دنیا کی ہر مہذب قوم میں موجود ہے۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ طاقتور قومیں کمزوروں سے حقیقی قصاص لے کر بھی راضی نہ ہوتی تھیں اور نہ ہی قصاص دینے والے شرافت اور دیانت کا خیال رکھتے تھے۔ اگر ایک آزاد اور شریف آدمی کو غلام مار ڈالتا تو وہ اس کی جگہ شریف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرتے۔ قاتل اگر عورت ہوتی تو پھر بھی عورت کے قتل پر قناعت نہ کرتے بلکہ اس کا سلسلہ دراز تر ہوجاتا ۔ اسلام نے آکر اس قسم کی تفریق کو بالکل مٹا دیا اور فرمایا کہ مساوات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ قرآن کریم کا دستور یہ ہے کہ وہ ایک قانون کلی بیان کردیتا ہے اور عام طور پر جزئیات کو ذکر نہیں کرتا۔ مگر بعض اوقات قانون آسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتا اس لئے اس کو اور زیادہ واضح کرنے کے لئے محض ضروری مسائل کا قانون ذکر کردیتا ہے کہ کسی قسم کا اخفاباقی نہ رہے۔ چناچہ اس جگہ بھی مقتولین کے بارے میں مساوات کا قانون ذکر کر کے اس کے بعض اصولی جزئیات کو بیان کردیا کہ قاتل آزاد ہے تو اس سے قصاص لیا جائے ۔ غلام نے قتل کیا تو وہی سزا کا مستحق ہے اور اگر قاتل عورت ہے تو وہی عقوبت کی مستوجب ہوگی۔ عرب تو ایک نا خواندہ اور جاہل قوم تھی لیکن تاریخ دوسرے ملکوں میں بھی ایسی مثالوں سے خالی نہیں اور امریکہ میں تو آج تک ایک گورے کا خون ایک کالے کے خون سے زیادہ قیمت رکھتا ہے اور فرنگی حکومتیں اپنے ایک ایک مقتول کے عوض قاتل قوم کی کئی کئی شخصوں کی جانیں بےتکلف لیتی رہتی ہیں جس کی زندہ شہادت عراقی اور کو یتی صانع میں فرنگیوں نے قائم کر دکھائی تھی۔ اسلام نے ان ظالمانہ دستوروں کو مٹایا اور اعلان کردیا کہ زندگی ہر مؤمن کی امت کے ہر فرد کی یکساں قابل احترام ہے اور مرد ہو ، عورت ہو ، آزاد ہو یا غلام ہو کوئی ہو جس کا جو قاتل ہوگا وہی سزا پائے گا۔ شیطانی حکومتیں ہر دور میں اپنی شیطنت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں اور اسلام کے اساسی اصولوں کو مٹانے کے لئے ہر ممکن کوشش ان کی جاری رہتی تھی اور اب بھی جاری ہے۔ غورکریں کہ شاہ فیصل شہید جیسا مبارک انسان انہی ریشہ دوانیوں کی نذر ہوگیا ایک شیطانی حکومت نے ایک سازش کے تحت ایک ادنیٰ سے فرد سے اگرچہ وہ شاہی خاندان ہی کا تھا شاہ فیصل کو قتل کروا دیا ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ شخص چونکہ شاہ فیصل شہید کے مقابلہ کا نہیں ہے اس سے قتل کروا کر شاہی خاندان میں بدامنی پھیلا دیں گے اور اسی مقتول کے بدلے میں قاتل جو نہایت ادنیٰ حیثیت رکھتے ہے اس پر اکتفانہ کر کے ایک اسلامی اصول کی بیخ کنی کرا دیں گے۔ اور اس طرح دو باتوں میں ایک تو لازمی ہوگی یا شاہی خاندان میں بدامنی اور جنگ و قتال یا مقتول کے عوض میں صرف قاتل کے قتل کے اصول کی خلاف ورزی لیکن اللہ نے ان شیطانوں کی سازش کو ناکام بنوا دیا اور امت مسلمہ نے ایک بار ان کی اس سازش کو سبو تاژ کردیا جب کہ قاتل کو مقتول شاہ فیصل کے قصاص میں پوری دنیا کو دکھاتے ہوئے قتل کردیا۔ شریعت موسوی کی جو تصریحات اس باب میں درج ہیں وہ قابل ملاحظہ ہیں۔ ” اور وہ جو انسان کو مار ڈالے گا۔ “ (احبار 24 : 17) ” جو انسان کو مار ڈالے جان سے مارا جائے۔ “ (احبار 24 : 21) اور ” توڑنے کے بدلہ توڑنا ، آنکھ کے بدلہ میں آنکھ ، دانت کے بدلہ میں دانت ، جیسا کوئی کسی کا نقصان کرے اس سے ویسا ہی کیا جائے۔ “ (احبار 24 : 20) اگر مقتول کے ورثادیت پر راضی ہوجائیں تو خون بہا ادا کردیا جائے : 307: قانون تو وہی تھا جو اوپر بیان کردیا گیا مگر بعض اوقات مقتول کے وارث اس مقدمہ کو قابل معافی خیال کرتے ہیں یا اس جرم کو اتنا خفیف سمجھتے ہیں کہ بجائے قصاص کے صرف فدیہ پر راضی ہوجاتے ہیں تو اسلام اس وقت نرمی کرنے پر تیار ہے۔ قاتل کو خون بہا ادا کرنا ہوگا مگر اس میں شرط یہ ہے کہ فدیہ وصول کرتے وقت سختی سے کام نہ لیا جائے اور قاتل کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریفانہ طور پر تمام رقم ادا کر دے ، نہ تو مقدار میں کمی کرے اور نہ خواہ مخواہ ٹالتا رہے۔ قرآن کریم کی بلاغت پر نظر کریں کہ ” مِنْ اَخِیْهِ “ یعنی مقتول کے فریق کی طرف سے یا مدعی و مستغیث کی طرف سے یہ لفظ ادا کرنا سیاق کلام میں سردھننے کے قابل ہے کہ شدید ہیجان جذبات انتقام و اشتعال پزیری کا موقع قتل سے بڑھ کر اور کون سا ہوسکتا ہے اس انتہائی حساس موقع پر بھی یہ لفظ بول کر بتا دیا کہ قاتل باوجود سنگین جرم کے اخوت اسلامی سے خارج نہیں ہوجاتا۔ مقتول کا ولی و وارث قاتل کا دینی بھائی اس وقت بھی رہتا ہے۔ دوسرا لفظ ” شَیْءٌ “ بھی قابل غور ہے کہ سزائے واجب کا کچھ حصہ چھوڑ دیا جائے نہ کہ تمام تر معاف کردیا جائے۔ مطلب یہ ہوا کہ مقتول کے عزیز اور وارث اگر قاتل کو سزائے قتل نہ دینا چاہیں بلکہ اسے ہلکی کوئی سزا دے کر یا خون بہا کی پوری رقم میں سے کچھ حصہ اسے معاف کر کے چھوڑ دینے پر آمادہ ہوں۔ مشرک قوموں میں قتل تمام تر ایک جرم قانون فوجداری کا تھا۔ قانون دیوانی سے اسے کوئی علاقہ ہی نہ تھا اور فرنگی قانون بھی چونکہ تمام تر رومن لا پر مبنی ہے اسلئے اس میں بھی قتل محض ایک فوجداری کا جرم ہے۔ شریعت اسلامی کی نظر فطرت بشری کی گہرائیوں اور مصالح اجتماعی کی باریکیوں پر اس سے کہیں زائد ہے اس نے اپنے اصول قانون میں یہ بات رکھی کہ قتل جس طرح فوجداری کا جرم ہے دیوانی کا بھی ہے اس جرم سے محض اسٹیٹ یعنی حکومت اور ہیت اجتماعیہ ہی کے ایک قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی بلکہ یہ فرد پر بھی اس کی شخصی حیثیت میں ایک حملہ ہے گویا یہ جرم ایک پبلک حیثیت رکھتا ہے اور ایک پرائیویٹ اور جب اسکی یہ دو گونہ حیثیت ہے تو مقتول کے وارثوں یا خون کے مدعیوں کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ چاہیں تو مجرم کو پوری سزا حکومت سے دلائیں اور چاہیں تو خود مالی معاوضہ لے کر انتہائی سزا سے دستبردار ہوجائیں۔ اسی مالی معاوضہ کو اصطلاح شریعت میں دیت یا خون بہا کہتے ہیں اور اس میں گھٹ بڑھ برابر ہو سکتی ہے۔ دیت کا لفظ خود قرآن کریم میں آگے آ رہا ہے۔ آج بھی انٹرنیشنل قانون میں یہ بالکل جائز ہے کہ جب ایک حکومت ملک کی رعایا کا خون دوسرے ملک یعنی حکومت کے باشندوں کے ہاتھ سے ہوجائے تو غیر ملک میں فوجداری کا مقدمہ چلانے میں دقتیں اور دشواریاں محسوس ہوں تو بجائے فوجداری استغاثہ اور اس کی پیروی کے صرف ” ہر جانہ “ کی رقم پر کفایت کرلی جائے تو یہ ” ہر جانہ “ اسی خون بہا کیلئے ایک خوش نما اور جدید اصطلاح ہے۔ خون بہا سے فائدہ یہ ہوگا کہ مقتول کے ورثا کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اس کی ایک حد تک تلافی ہوجائے گی اور وہ فقر و تنگدستی سے بچ جائیں گے پھر فرمایا کہ اگر اس قدر رعایت کے بعد بھی کسی نے ظلم وعدوان سے کام لیا قتل کا جھوٹا دعویٰ کردیا یا معاف کرنے کے بعد دوبارہ خون کا مطالبہ کیا تو اس سے قانونی مواخذہ ہوگا اور حکومت مداخلت کرے گی۔ دیکھو ایک مسلمان کی ترقی کا راز اسی مساوات میں پوشیدہ ہے جو قوم سپاہیانہ زندگی کی خوگر ہو جسے دنیا کی امامت و پیشوائی کیلئے منتخب کیا گیا ہو جو دنیا اور آخرت میں اعمال و اخلاق کے اعتبار سے فضیلت و برتری کے لتے چن لی گئی ہو۔ وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کے تمام افراد کو برابر کے حقوق نہ دیئے جائیں کہ ہر ادنی ترین مسلمان انتہائی ترقی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرسکے دوسرے سے آگے بڑھنے کی غرض سے بہترین اخلاق و اعمال کی عادت ڈال سکے۔ جب تمام افراد ملت میں یہ جوش و ولولہ عمل پیدا ہوجائے گا تو کوئی قوم ان کا مقابلہ نہ کرسکے گی۔
Top