Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ
: نہیں
الْبِرَّ
: نیکی
اَنْ
: کہ
تُوَلُّوْا
: تم کرلو
وُجُوْھَكُمْ
: اپنے منہ
قِبَلَ
: طرف
الْمَشْرِقِ
: مشرق
وَالْمَغْرِبِ
: اور مغرب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور دن
الْاٰخِرِ
: آخرت
وَالْمَلٰٓئِكَةِ
: اور فرشتے
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
وَالنَّبِيّٖنَ
: اور نبی (جمع)
وَاٰتَى
: اور دے
الْمَالَ
: مال
عَلٰي حُبِّهٖ
: اس کی محبت پر
ذَوِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنَ
: اور مسکین (جمع)
وَابْنَ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
وَالسَّآئِلِيْنَ
: اور سوال کرنے والے
وَفِي الرِّقَابِ
: اور گردنوں میں
وَاَقَامَ
: اور قائم کرے
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتَى
: اور ادا کرے
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالْمُوْفُوْنَ
: اور پورا کرنے والے
بِعَهْدِهِمْ
: اپنے وعدے
اِذَا
: جب
عٰھَدُوْا
: وہ وعدہ کریں
وَالصّٰبِرِيْنَ
: اور صبر کرنے والے
فِي
: میں
الْبَاْسَآءِ
: سختی
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
وَحِيْنَ
: اور وقت
الْبَاْسِ
: جنگ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
صَدَقُوْا
: انہوں نے سچ کہا
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُتَّقُوْنَ
: پرہیزگار
نیکی اور بھلائی صرف [ یہی نہیں ہے کہ تم نے خاص عبادت میں اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلیا ، نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی ہے جو اللہ پر ، آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، آسمانی کتابوں پر اور اللہ کے تمام فرستادوں پر ایمان لاتے ہیں ، اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانے کیلئے خرچ کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں جب قول وقرار کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں ، تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ، ہر حال میں صبر کرنے والے اور سیدھی راہ میں ثابت قدم ہوتے ہیں ، بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو نیکی کی راہ میں سچے ہوئے اور یہی ہیں جو صحیح معنوں میں برائیوں سے بچنے والے ہیں
نیکی اور بھلائی کی پہچان کہ وہ کیا ہے ؟ 305: ظہور اسلام سے قبل دنیا کی بیشمار گمراہیوں میں ایک گمراہی یہ تھی کہ سمت پرستی ہوتی تھی یعنی بےجان دیوتائوں ، دیویوں ، مورتیوں ، پتھروں ، درختوں ، پہاڑوں اور دریائوں کے علاوہ خود سمتوں یا جہتوں کی بھی پرستش جاری ہوگئی تھی اور مختلف جاہلی قوموں نے یہ اعتقاد جما لیا تھا کہ فلاں مخصوص سمت مثلاً مشرق مقدس ہے اور فلاں متعین جہت مثلاً مغرب قابل پرستش ہے۔ قرآن کریم یہاں شرک کی اس خاص صورت کی تردید کر رہا ہے اور ارشاد کر رہا ہے کہ کسی جہت میں کیا تقدس رکھا ہوا ہے ؟ اور کوئی سمت بےحیثیت سمت ہرگز قابل تقدیس نہیں ہے اور خصوصاً طاعت (البر) سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اسلام نے ظاہر ہے کہ نماز کے لئے کوئی سمت بےحیثیت سمت ہرگز متعین نہیں کی ہے۔ اس نے تو صرف ایک متعین مکان یعنی خانہ کعبہ کو ایک مرکزی حیثیت دی ہے اسے قبلہ توجہ ٹھہرایا ہے خواہ وہ کسی سمت میں پڑجائے۔ نہ کسی سمت یا طرف کی اس میں خصوصیت ہے اور نہ ہی بیت اللہ کی پرستش کے لئے اس کی طرف منہ کیا جاتا ہے جو شخص قبلہ کی پرستش کے لئے ایسا کرے گا وہ مشرک ہی ہوگا اور اس کے مشرک ہونے میں کیا شبہ رہ جائے گا۔ کوئی مسلمان بھی بیت اللہ کی پرستش کا قائل نہیں ہے قبلہ کو ایک جہت یا طرف مقرر کرنا خالصتاً انتظامی معاملہ ہے جو گویا قومی یکجہتی کی علامت ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ آپ مشاہدہ کر کے کبھی دیکھیں تو حقیقت آپ پر بالکل واضح ہوجائے گی کی کعبہ مصر ، طرابلس و حبشہ سے مشرق میں پڑتا ہے۔ ہند و پاک ، افغانستان اور چین سے مغرب میں شام و فلسطین اور مدینہ سے جنوب میں یمن اور بحر قلزم کے جنوبی ساحلوں سے شمال میں اس لحاظ سے آپ خود غور کریں کہ کسی سمت کی کیا خصوصیت رہی ؟ علاوہ ازیں جو کچھ ہے اور جہاں کہیں بھی ہے وہ سب جہالت ہی جہالت ہے دین اسلام کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ قطب ستارہ کا احترام ، بغداد کا احترام وغیرہ کہ ان کی طرف ٹانگیں نہ ہوں۔ ان کی طرف قضائے حاجت میں رخ نہ ہو اور اسی طرح کی دوسری باتیں سب جہالت کی رسوم ہیں۔ سورئہ بقرہ کے شروع میں صرف ذکر ، شکر ، صبر اور دعا پر زور دیا گیا تھا کہ افرادی طور پر تہذیب و شائستگی کے لئے یہی صفات حسنہ کافی تھیں۔ جب ترقی کر کے ایک قدم آگے رکھا تو فرائض میں بھی گویا اضافہ ہوگیا اس کو اس طرح سمجھ لو کہ ابتدائی جماعتوں میں کتابیں کم ہوتی ہیں اور طالب علم پر بھی ذمہ داری کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ مگر جب وہ ثانوی تعلیم کے لئے کسی درسگاہ میں داخل ہوگا تو اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں کے لئے تو صرف مشرق و مغرب کی طرف منہ کرلینا یکجہتی کی علامت کے طور پر کافی تھا مگر اب صرف اس پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا بلکہ فرائض میں اضافہ ہوجائے گا لیکن تہذیب اخلاق کے لئے جن امور کو ضروری قرار دیا گیا تھا وہ اب بھی بدستور ثابت و قائم رہیں گے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ تم اپنے اندر خرچ کرنے کی عادت پیدا کرو اور مال و دولت کی محبت پر غالب آئو۔ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا : ” أَیُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ “ اجر وثواب کے اعتبار سے بہترین صدقہ کس قسم کا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیحٌ شَحِیحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَی وَلَا تُمْهِلُ حَتَّی إِذَا بَلَغَتَ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ “ (بخاری : 1360) ایسے وقت میں تو صدقہ کرے کہ تندرست و توانا ہو۔ مال کی محبت دل میں اور فقرکا اندیشہ دماغ میں ہو۔ اگر جانکنی کے وقت خیرات کرنی شروع کی تو اس کا کچھ فائدہ نہیں یعنی مرتے وقت یہ کہے کہ یہ فلاں کو دے دینا یہ فلاں کو دے دینا۔ اس لئے کہ اس وقت وہ خود فلاں ہونے والا ہے اور جب یہ فلاں ہوگا تو مال خود بخود تقسیم ہوجائے گا۔ مال کی تقسیم کرنے کی ترغیب کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ ان صدقات و خیرات کے مستحق سب سے پہلے تمہارے عزیز و رشتہ دار ہیں کہ حمیت و عصبیت قومی کی وجہ سے وہ تمہارے دست وبازو بن جائیں گے۔ جہاں تمہارا پسینہ گرے گا وہ اپنا خون بہانے کو تیار ہوجائیں گے۔ قرآن کریم نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت زیادہ تاکید کی ہے فرمایا ” وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ “ دیکھو جو لوگ تمہارے قرابتدار ہیں ان کا حق ادا کرو (بنی اسرائیل 17 : 26) ” عَلٰى حُبِّهٖ “ فرما کر مزید یہ اطلاع کردی کہ اپنے مال کو خرچ کرتے وقت اصل مدعا اللہ کی رضا ہونی چاہئے جب مال اللہ کی محبت میں خرچ کیا جائے گا تو یہی اس کی رضا ہے۔ گویا بتا دیا کہ صرف مال فی نفسہٖ ہرگز محمود و مطلوب نہیں مطلوب و مقصود صرف اور صرف وہ مال ہے جو اللہ کی راہ میں اللہ تعالیٰ ہی کی رضا کی طلب کے لئے اور اللہ ہی کے دین کے فروغ کے لئے ہو۔ دوسرے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ صرف مال مال کی محبت کے باوجود ہو یعنی ضمیر غائب کا مرجع بجائے اللہ کے لفظ قریب مال قرار دیا گیا ہے۔ اس میں بھی ایک پختہ مؤمن کی تصویر آگئی کہ مال و زر کی محبت اور قدر اس کے دل میں ہے۔ خواہشیں اس کی زندہ ہیں۔ اپنی ذات پر ، اپنے محبوبات پر اور مرغوبات پر وہ خرچ کرنا چاہتا ہے لیکن امر الٰہی کے آگے اپنی گردن جھکا دیتا ہے اپنی ذاتی خواہشات کو دبا دیتا ہے اپنے شوق کو حکم خداوندی پر قربان کردیتا ہے۔ وہ عمل اس پر کرے گا جو حکم ربانی ہے اور خرچ وہیں کرے گا جہاں شریعت حکم دیتی ہے۔ غور کرو کہ مصارف خیر کی اسلام نے یہ کتنی مناسب اور حکیمانہ ترتیب قرار دے دی ہے ۔ آیت کے اس جزو میں امت کا پورا نظام معاشی ایک خلاصہ کی شکل میں آگیا ہے۔ مالی اعانت سب سے پہلے عزیزوں ، غریبوں کی کرنا چاہئے یہ نہ ہو کہ ایک بھائی کی کو ٹھیاں تیار ہو رہی ہیں اور بہن کو جھونپڑی بھی نصیب نہیں۔ چچا کے پاس کاریں اور ہوائی جہاز ہوں اور بھتیجے کو تانگہ کا کرایہ بھی میسر نہ آئے۔ ہر زر دار کو سب سے پہلے خبر گیری اپنے نادار عزیزوں ، کنبہ والوں ، بھائیوں ، بہنوں ، بھتیجوں ، بھانجوں اور دوسرے قریبوں کی کرنا چاہئے اور اس کے بعد نمبر محلّہ ، بستی اور شہر کے یتیم بچوں ، بچیوں کا آتا ہے جن کا کوئی والی وارث یا سرپرست باقی نہیں رہا ہے۔ فرمایا کہ ماں باپ کے بعد قرابت داروں کے حقوق بھی ہیں چناچہ ایک جگہ ارشاد ہوا : فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ 1ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِٞ وَ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ 0038 (الروم 30 : 38) ” پس (اے مسلم ! ) تو قرابتدار کو اس کا حق دیا کر اور مسکینوں اور مسافروں کو بھی ، یہ بات ان لوگوں کے حق میں بہت بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ (صحیح معنوں میں) فلاح پانے والے ہیں۔ “ حدیث شریف میں اس کی وضاحت یوں فرمائی کہ دیکھو مسکین کو خیرات دینا صرف صدقہ ہی ہے مگر ایک رشتہ دار کو خیرات دینے میں دو حیثیتوں سے ثواب ملے گا جو یقیناً دو ہرا ہی ہوگا ایک صدقے کے اعتبار سے اور دوسرا صلہ رحمی کی بنا پر۔ ” یَتٰمٰى “ وہ ہیں جن کا کوئی نگران کار نہیں اگر ان کی تعلیم و تربیت کا خیال نہ کیا گیا تو نا تربیت یافتہ کی کثرت قوم کو برباد کر دے گی اور ان کی تھوڑی سی مدد نہایت ہی مفید نتائج پیدا کرے گی سورة الضحیٰ میں ارشاد فرمایا : فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ009 یعنی یتیم کو مت ڈانٹ ڈپٹ ، مبلغین اور دعوت حق دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم کے یتامی کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ تھوڑی سی تربیت بےانتہا مفید ثابت ہوگی۔ ادھر لڑائیوں کی وجہ سے جس قدر یتامی ہوں گے قوم کے لئے بار دوش ثابت ہونے کی بجائے بہترین افراد بن جائیں گے۔ ان اسرار و مصالح کی بنا پر حامل نبوت نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے اس طرح اکٹھے ہوں گے جیسے یہ میری دو انگلیاں آپ اکھٹی دیکھ رہے ہو اور یہ کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں جدا جدا نہیں ہو سکتیں کہ نیچے سے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اسی طرح وہ بھی میرے سے الگ نہیں ہوں گی ۔ ان کے علاوہ مساکین ، مسافر اور سائل ہیں۔ مسکین سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی حاجت دوسروں کے پاس نہ لے جاتا ہو اور اس کے ظاہری حالات فقر و تنگ دستی کا اظہار کرتے ہیں جس کو ہماری زبان میں سفید پوش کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ بلکہ دیکھنے والوں کو اس کے دولت مند ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ چناچہ خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : لیس المسکین الذی تردہ تمرۃ والتمرتان واللقمۃ واللقمتان ولکن المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیصدق علیہ ...... مسکین وہ نہیں ہے جو دربدر بھیک مانگتا پھرتا ہے بلکہ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس اتنا سامان نہیں کہ اپنی ضروریات پوری کرسکے اور نہ لوگوں کو اس کی خبر ہے کہ صدقات اور خیرات ہی کا مستحق سمجھا جائے۔ مساکین کے بعد درجہ بدرجہ غیر امت کے عام مفلسوں ، محتاجوں اور پھر ان مسافروں ، راہ گیروں کا آنا ہے جو زاد راہ سے محروم ہیں اور اپنے ضرری سفروں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں پھر فرمایا کہ گردنوں کے آزاد کرنے میں بھی روپیہ صرف کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ عام مفسرین نے اس کے معنی صرف غلاموں کے آزاد کرنے تک محدود کردیئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا مطلب عام ہے اور اس کی عمومیت میں نہ صرف غلام ہیں بلکہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرض لے کر سود در سود میں مبتلا ہیں پھر اس سے بھی بڑھ کر اس کا اعلیٰ ترین مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان جب شہید علی الناس کی فضیلت کبریٰ کے لئے محصوص کیا گیا ہے تو اس کا فرص ہے کہ دنیا کی ہر غلام و محکوم قوم کو آزاد کر کے اس کو حق آزادی نوازش کرے اور یہ حق صرف مسلمان ہی کو پہنچتا ہے۔ اسی کو سورة بلد میں مشکل ترین گھاٹی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فَكُّ رَقَبَةٍۙ0013 (90 : 13) اور پھر اس سے سیاسی آزادی ہی مراد نہیں بلکہ تمدنی ، اخلاقی ، عمرانی ، اجتماعی اور علمی سب افراد غلامی اس میں شامل ہیں اور سب کو آزاد کرنا فرزندان اسلام کا فرض ہے۔ پھر فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ اوروں کو تیار کرتے کرتے اپنے آپ کو بھول جائو اور روپیہ خرچ کرنے پر قناعت کر بیٹھو بلکہ خود بھی نماز اور زکوٰۃ کے پابند رہو تاکہ جانی و مالی قربانی کی مشق ہوتی رہے۔ اس کے ساتھ پابندی عہد ضروری ہے ورنہ دوسروں کو تمہارے عہد و پیمان پر اعتماد نہ ہوگا۔ قرآن کریم نے ایفائے عہد پر بےانتہا زور دیا ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا : وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ008 (المؤمنون 23 : 8) وہ لوگ کہ اپنی امانتوں اور عہدوں کو پاس رکھتے ہیں۔ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ 1ۚ اِنَّ الْعَهْدَ کَانَ مَسْـُٔوْلًا 0034 (بنی اسرائیل 17 : 34) اور اپنا عہد پورا کیا کرو عہد کے بارے میں تم سے باز پرس کی جائے گی۔ فرمایا مصیبت اور تنگدستی میں کہ اصل تعلق مالی پریشانی سے ہے۔ بیماری کی تکلیفوں میں جن کا تعلق جسمانی آزار ہے اور جنگ کے وقت دشمنان دین کے مقابلہ میں ثبات و صبر کے ظاہر کرنے اور اور ہر سیرت و مرادنگی کی چمک دکھانے کے یہ تین مواقع ایک مومن کے لئے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی ہر آیت بجائے خود معظم ، محترم اور واجب العمل ہے لیکن اس آیت کے باب میں تو حدیث نبوی ﷺ میں یہاں تک صراحت موجود ہے کہ : من عمل بھذہ الا یۃ فقد استکمل ال ایمان ، یعنی جس نے اس آیت پر عمل کرلیا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا اور محققین نے کہا ہے کہ یہ آیت اہم ترین آیتوں میں سے ہے اور اس کے اندر دین و شریعت کے سولہ احکامات آگئے ہیں۔ جن کی تفصیل آگے بیان ہوتی رہے گی۔
Top