Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 169
اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
اِنَّمَا : صرف يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے بِالسُّوْٓءِ : برائی وَالْفَحْشَآءِ : اور بےحیائی وَاَنْ : اور یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
وہ تو تمہیں بری اور قبیح باتوں ہی کیلئے حکم دے گا اور یہ کہ اللہ کے نام سے جھوٹی باتیں کہو جن کیلئے تمہارے پاس کوئی علم نہیں
شیطان سے ہمیشہ شیطنت ہی کا ظہور ہوگا : 296: ” اِنَّمَا “ کلمہ حصر ہے جس کے صاف صاف معنی یہ ہوئے کہ شیطان سے ہمیشہ شیطنت ہی کا ظہور ہوگا کسی نیکی کے صدور کا اس سے امکان ہی کب ہے ؟ شعبی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نذرمانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق کے علم میں جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک بھیڑ ذبح کر دے یہ نذر خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ 1ؕ سے ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ایک دن بکری کا کھر پکا ہوا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا۔ آپ نے فرمایا کھائو اس نے کہا میں نہیں کھائو گا آپ نے پوچھا کیا روزے سے ہو ؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کرچکا ہوں آپ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنی قسم کا کفارہ دو اور کھالو اور اس طرح ہر کفر و بدعت کی بات شیطنت ہی ہوگی اور شیطان کا کام ہے کہ وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال انسانوں سے کراتا ہی رہتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ 1ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ00116 (النحل 16 : 116) ” اور ایسا نہ کرو کہ تمہاری زبانوں پر جو جھوٹی بات آجائے بےدھڑک نکال دیا کرو اور حکم لگا دو ، یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے ، اس طرح حکم لگانا اللہ پر افتراء پردازی کرنا ہے جو لوگ اللہ پر افتراء پردازیاں کرتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآىِٕبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ 1ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ 1ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ 00103 (المائدہ 5 : 103) ” { بحیرۃ ، سائبۃ ، وصیلۃ } اور { حام } میں سے کوئی چیز بھی اللہ نے نہیں ٹھہرائی ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی وہ اللہ پر افتراء کرتے ہیں اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے محروم ہیں۔ “ مشرکین عرب بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیتے اور انہیں مقدس سمجھتے اور طرح طرح کے توہم پرستانہ عقائد ان سے وابستہ ہوگئے تھے چناچہ اس جگہ ان جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ” بحیرۃ “ اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کے کان علامت کے لئے شق کر دئے گئے ہوں اور بتوں کی نیاز میں چھوڑ دی گئی ہو۔ یہ وہ اونٹنی ہوتی تھی جس سے پانچ بچے پیدا ہوجاتے تھے۔ ” سائبہ “ اس اونٹنی کو کہتے تھے جسے دیوتائوں کے نام پر چھوڑ دیا ہو نہ تو کوئی اس پر سوار ہو سکتا تھا۔ نہ اس کے بال کاٹ سکتا تھا۔ نہ اس کا دودھ اپنے کام میں لاسکتا تھا۔ ” وصیلہ “ اس بکری کو کہتے تھے جس کے پہلوٹھے کے اوپر تلے دو بچے مادہ ہوتے تھے اور وہ اسے متبرک سمجھتے تھے اس لئے اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ ” حام “ اس اونٹ کو کہتے تھے جس کی نسل سے دس بچے پیدا ہوگئے ہوں اسے بھی چھوڑ دیتے تھے اور سمجھتے تھے اس ذبح کرنا یا کام میں لانا جائز نہیں۔ فرمایا یہ سب خرافات اور توہم پرستی ہے اللہ نے ان باتوں میں سے کچھ بھی نہیں ٹھہرایا ہے یعنی کسی کو بھی حرام نہیں کیا یہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے حلت و حرمت کا مسئلہ نکالا ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ قَالُوْا ہٰذِهٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ 1ۖۗ لَّا یَطْعَمُهَاۤ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِهِمْ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَ اَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا افْتِرَآءً عَلَیْهِ 1ؕ سَیَجْزِیْهِمْ بِمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ 00138 وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ہٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰۤى اَزْوَاجِنَا 1ۚ وَ اِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَهُمْ فِیْهِ شُرَكَآءُ 1ؕ سَیَجْزِیْهِمْ وَصْفَهُمْ 1ؕ اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ 00139 قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِ 1ؕ قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا کَانُوْا مُهْتَدِیْنَ (رح) 00140 (الانعام 6 : 138 تا 140) ” اور کہتے ہیں یہ کھیت اور چارپائے ممنوع ہیں انہیں اس آدمی کے سوا کوئی نہیں کھا سکتا جسے ہم اپنے خیال کے مطابق کھلانا چاہیں اور کچھ جانور ہیں کہ ان کی پیٹھ حرام ہے اور کچھ جانور ایسے ہیں کہ ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے کیونکہ اللہ پر افتراء کر کے انہوں نے یہ طریقہ نکال لیا ہے پھر جیسی کچھ افتراء پردازیاں یہ کرتے رہتے ہیں قریب ہے کہ اللہ بھی انہیں اس کی سزا دے۔ اور کہتے ہیں ان چارپایوں کے پیٹ میں سے جو زندہ بچہ نکلے وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال ہے ہماری عورتوں کیلئے حلال نہیں اور اگر وہ مردہ ہو تو پھر سب اس میں شریک ہیں ، قریب ہے کہ اللہ انہیں ان کی ان تقسیموں کی سزا دے ، بلاشبہ وہ حکمت رکھنے والا اور جاننے والا ہے۔ یقیناً وہ لوگ تباہ و برباد ہوئے جنہوں نے جہالت سے اپنی اولاد مار ڈالی اور جو کچھ اللہ نے ان کیلئے روزی پیدا کی اسے اللہ پر افتراء پردازی کر کے حرام ٹھہرایا ، بلاشبہ وہ گمراہ ہوئے اور بلاشبہ وہ سیدھی راہ پر چلنے والے نہیں تھے۔ “ بے دلیل بات کبھی سچی نہیں ہوتی : 297: علم سے یہاں مراد علم یقینی یا علم ثابت بالوحی ہے مطلب یہ ہوا کہ اپنے پاس سے گھڑی ہوئی باتیں جن کی دلیل کتاب و سنت میں نہ ہو۔ پس اس وعید کے تحت صرف کفر ہی نہیں آتا بلکہ بدعت کے اقوال بھی داخل ہیں اور قرآن کریم نے اس کی بڑی تفصیل کی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ 1ؕ کَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 1ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ 0035 (النحل 16 : 35) ” اور مشرکوں نے کہا ، اگر اللہ چاہتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا کہ ہم یا ہمارے باپ دادا اس کے سوا دوسری ہستیوں کی پوجا کرتے اور نہ ایسا ہوتا کہ بغیر اس کے حکم کے کسی چیز کو (اپنے جی سے) حرام ٹھہرا لیتے ایسی ہی روش ان لوگوں نے بھی اختیار کی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے پھر (تم ہی بتاؤ ) پیغمبروں کے ذمے اس کے سوا اور کیا ہے کہ صاف صاف پیغام حق پہنچا دیں ؟ “ ایک جگہ فرمایا : ” جن لوگوں نے شرک کا ڈھنگ اختیار کیا ہے وہ کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ کسی چیز کو حرام ٹھہراتے سو اس طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں یہاں تک کہ ان کو ہمارے عذاب کا مزہ چکھنا پڑا ، تم کہو کیا تمہارے پاس کوئی علم کی روشنی ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکتے ہو ؟ اصل بات یہ ہے کہ تم پیروی نہیں کر رہے مگر محض وہم اور اٹکل کی اور تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بےسمجھے بوجھے باتیں بنانے والے ہو۔ تم کہہ دو اللہ ہی کے لیے پہنچی ہوئی اور پکی دلیل ہے اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ دکھا دیتا۔ ان سے کہو کہ بلاؤ ان کو جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ نے یہ چیز حرام کردی ہے ، پھر اگر ان کے گواہ اس بات پر گواہی بھی دے دیں جب بھی تم ان کے ساتھ ہو کر اس کا اعتراف نہ کرو تم ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائی ہیں اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور دوسری ہستیوں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ “ (الانعام 6 : 148 تا 150) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور وہ اللہ ہی ہے جس نے باغ پیدا کیے چھپروں پر چڑھائے ہوئے اور کھجوروں کے درخت اور کھیتیاں جن کے پھل مختلف قسموں کے ہوتے ہیں نیز زیتون اور انار کے درخت شکل و صورت میں ایک دوسرے سے ملتے ہوئے اور ایک دوسرے سے الگ الگ سو ان کے پھل شوق سے کھاؤ جب وہ پھل تیار ہوجائیں اور چاہیے کہ جس دن فصل کاٹو تو اس کا حق بھی دے دیا کرو اور اسراف نہ کرو اللہ انہیں دوست نہیں رکھتا جو اسراف کرنے والا ہوں۔ اور چارپایوں میں سے کچھ تو بوجھ اٹھانے والے پیدا کردیئے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے سو جو کچھ اللہ نے تمہاری روزی کیلئے پیدا کردیا ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو وہ بلاشبہ تمہارا آشکارا دشمن ہے۔ چارپایوں میں آٹھ قسمیں پیدا کیں : بھیڑ میں سے دو قسم اور بکری کی دو قسم ! ان لوگوں سے پوچھو اللہ نے ان میں سے کس جانور کو حرام کیا ہے ؟ دونوں قسموں کے نروں کو یا مادہ کو یا پھر اس کے بچے کو جسے دونوں قسم کی مادہ اپنے پیٹ میں لیے ہوئے ہیں ؟ اگر تم سچے ہو تو مجھے علم کے ساتھ اس کا جواب دو ۔ اور دیکھو اونٹ میں سے دو قسمیں ہیں اور گائے میں سے دو قسمیں (یعنی نر اور مادہ) تم ان سے پوچھو کیا ان میں سے نر کو حرام کیا ہے یا مادہ کو یا اس کو جو ان دونوں کی مادہ اپنے پیٹ میں لیے ہوتی ہیں ؟ پھر بتلاؤ اس آدمی سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہوا جو لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے اللہ پر افتراء پردازیاں کرے اور اس کے پاس کوئی علم نہ ہو ؟ بلاشبہ اللہ ان لوگوں پر راہ نہیں کھولتا جو ظلم کرنے والے ہوں۔ “ (الانعام 6 : 141 تا 144)
Top