Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے افراد نسل انسانی ! زمین میں جس قدر حلال اور پاکیزہ [ چیزیں تمہاری غذا کیلئے مہیا کردی گئی ہیں شوق سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے
مسلمانوں کو حلال و طیب چیزیں کھانے کی ہدایت : 295: مسلمانوں کو خلافت ارضی حاصل کرنا ہے اس لئے انہیں صرف ان چیزوں کا استعمال کرنا چاہئے جن کی طہارت و پاکیزگی کا انہیں یقین ہو جن کو ناجائز ذرائع سے حاصل نہ کیا گیا ہو اور جن اشیاء کی قانون الٰہی نے اجازت دے دی ہو۔ اس مقصد عظیم کے کسب و حصول کے لئے ضرورت ہوگی بہترین دل و دماغ کی اور یہ تر و تازگی نہیں پیدا ہو سکتی جب تک عمدہ سے عمدہ پاکیزہ چیزیں استعمال میں نہ ہوں پس دنیا کی ہر اچھی چیز ایک مسلمان ہی کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ کھائے اور حکومت کے لئے تیار ہو۔ البتہ ان چیزوں سے پرہیز لازم ہے جو روحانی و جسمانی صحت کے لئے مضر ہوں جن سے جذبات خبیثہ اور اخلاق فاسقہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو جن سے ارادوں میں ضعف و کمزوری آجائے۔ یہ خصوصیت صرف اور صرف نبی کی تعلیم کو حاصل ہے کہ اس سے انسانی ارادہ میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ ترجمان القرآن حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے مستجاب الد عوات بنا دے۔ نبی کریم ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ لقمہ حلال کا التزام کرلو خود بخود مستجاب الدعوات ہو جائو گے۔ یہ ہے اسلام میں اکل حلال کی اہمیت۔ اور شیطان ہمیشہ بےحیائی اور بد خلقی کی تعلیم دیتا ہے جس کا انتہائی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نبی کی تعلیم سے نفرت ہوجاتی ہے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے لئے قانون بنایا جاتا ہے اور پھر اس کو اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔
Top