Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 167
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا١ؕ كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْا : پیروی کی لَوْ اَنَّ : کاش کہ لَنَا : ہمارے لیے كَرَّةً : دوبارہ فَنَتَبَرَّاَ : تو ہم بیزاری کرتے مِنْهُمْ : ان سے كَمَا : جیسے تَبَرَّءُوْا : انہوں نے بیزاری کی مِنَّا : ہم سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُرِيْهِمُ : انہیں دکھائے گا اللّٰهُ : اللہ اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال حَسَرٰتٍ : حسرتیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَا ھُمْ : اور نہیں وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنَ النَّار : آگ سے
جب وہ لوگ جنہوں نے پیروی کی تھی پکار اٹھیں گے کہ کاش ! ہم کو ایک دفعہ پھر دنیا میں لوٹنے کی مہلت مل جائے تو ہم ان سے اسی طرح بیزاری ظاہر کردیں جس طرح یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں ، اللہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کی حقیقت دکھا دے گا کہ سرتاسر حسرت و پشیمانی کا منظر ہوگا اور وہ آگ سے چھٹکارا پانے والے نہیں ہوں گے
مریدین کی حسرت کہ کاش ایک بار ہم کو دوبارہ دنیا میں لوٹا دیا جائے : 294: فرمایا پھر وہ عذاب دیکھ لیں گے اور تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے نہ کوئی بھاگنے کی جگہ رہے گی اور نہ چھٹکارے کی کوئی صورت نظر آئے گی۔ دوستیاں کٹ جائیں گی اور رشتے ٹوٹ جائیں گے۔ بلا دلیل باتیں ماننے والے اور بےوجہ اعتقاد رکھنے والے اور پوجا پاٹ اور اطاعت کرنے والے جب اپنے پیشوائوں کو اس طرح بری الذمہ ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو نہایت حسرت و یاس سے کہیں گے کہ اگر اب ہم دنیا میں پھرجائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہوجائیں جیسے یہ ہم سے ہوئے نہ ان کی طرف التفات کریں گے نہ ان کی بات مانیں گے نہ انہیں شریک خدا سمجھیں گے بلکہ اللہ وحدہ کی خالص عبادت کریں گے۔ فرمایا لوٹایا تو جا نہیں سکتا کیونکہ یہ قانون الٰہی کے خلاف ہے اور اللہ اپنے قانون کے خلاف ہرگز نہیں کرتا۔ لیکن بالفرض ان کو لوٹا بھی دیا جائے تو وہی کریں گے جو اس سے پہلے کرتے رہے : وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ ۔ فرمایا : انہیں اللہ تعالیٰ ان کے کرتوت اس طرح دکھائے گا ان پر حسرت و افسوس ہے یعنی اعمال جو نیک تھے وہ تو ویسے ہی ضائع ہوگئے کیونکہ ان کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جسے تند ہوائیں اڑا دیں۔ ان کے اعمال ریت کی طرح ہیں جو دور سے پانی دکھائی دیتا ہے مگر پاس جائو تو ریت کا تودہ ہوتا ہے اور آخر میں یہ فرما دیا کہ اب یہ لوگ آگ سے نکلنے والے نہیں کیونکہ مشرکین کے لئے دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے اور یہاں سے نجات کی اب کوئی صورت نہیں۔ مختصر یہ کہ دنیا کی زندگی میں بھی بارہا تجربہ ہوتا ہے کہ ایک جھوٹے انسان کی تقلید آنکھیں بند کر کے شروع کی جاتی ہے۔ حکو مت کے آگے اندھا دھند سجدہ کیا جاتا ہے مگر عین وقت پر آ کر ان میں سے کوئی چیز بھی کام نہیں آتی۔ ہر ایک اپنی براءت و پاک دامنی کا اظہار کرتا ہے اور وہ شخص بےیارومددگار رہ جاتا ہے ، یہ تو دنیا کا حال ہے۔ قیامت کی کیفیت اس سے زیادہ دردانگیز ہے جن لوگوں کو آج خدا بنایا جا رہا ہے ان کے سامنے نذرو نیاز پیش کی جاتی ہے مرنے کے بعد ان کی قبروں کے گرد طواف کیا جاتا ہے اور انہیں سجدہ گاہ بنا لیا جاتا ہے وہ اس روز صاف صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے اپنی عبادت کے لئے کبھی نہیں کہا تھا۔ حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی قیامت کے روز سوال ہوگا کہ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود بنا لو تو وہ جواب دیں گے میرے اللہ ! میں نے تو ان کو وہی کہا جو تو نے مجھے حکم دیا تھا یعنی یہ کہ اللہ کی عبادت کرو وہی میرا اور تمہارا رب ہے یہ مضمون سورة المائدہ کی آیت ایک سو سترہ میں بیان کیا گیا۔ یہ تو ایک پیغمبر معصوم کا حال تھا اب ان معبود انِ باطل کی کیفیت بھی ملاحظہ ہو : ” جس روز اللہ کافروں کو اور ان معبودوں کو جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اپنے حضور میں جمع کرے گا پھر پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی رستے سے بھٹک گئے تھے ان کے معبود عرض کریں گے کہ تو پاک ہے ہم کو یہ بات کسی طرح زیبا ہی نہ تھی کہ تیرے سوا اپنے لئے دوسرے کار ساز بناتے بلکہ بات یہ تھی کہ تو نے ان کے بڑوں کو آسودگیاں دیں یہاں تک کہ تیری یاد بھلا بیٹھے اور یہ آپ ہی ہلاک ہونے والے لوگ تھے ، ،۔ یہ مضمون سورة الفرقان کی آیت 19` 18 میں بیان کیا گیا۔ جب ان مشرکین کے اسباب شفاعت ناکام ثابت ہوں گے تو غصہ و انتقام کے مارے دنیا میں دوبارہ جانے کی کوشش کریں گے یعنی آرزو کریں گے کہ اے اللہ ! ایک بار دنیا میں لوٹا دے کہ ان معبودان باطل سے ہم بھی اپنی علیحدگی کا اظہار حقیقتاً کرسکیں مگر ان کی یہ آرزو بےسود ہوگی۔ قرآن کریم نے اس مسئلہ کی اتنی وضاحت کی ہے کہ اگر اس کا احصا کیا جائے تو شاید ممکن ہی نہ ہو۔ تاہم معین مقامات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں پڑھتے جائیں اور غور کرتے جائیں۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَ لْنَحْمِلْ خَطٰیٰكُمْ 1ؕ وَ مَا ہُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰهُمْ مِّنْ شَیْءٍ 1ؕ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ 0012 وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْٞ وَ لَیُسْـَٔلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ (رح) 0013 (العنکبوت 29 : 12 تا 13) ” اور جو لوگ کافر ہیں وہ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری پیروی کرو اور ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان کے کچھ بھی گناہ نہ اٹھا سکیں گے وہ تو (بالکل) جھوٹے ہیں۔ اور یہ لوگ یقینا اپنے بوجھ اٹھائے ہوں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی ، اور قیامت کے روز ان سے اس بہتان کی ضرور ہی پرسش ہوگی جو وہ (بطور) جھوٹ باندھتے رہے۔ “ ایک جگہ فرمایا گیا : ” اور جب ان لوگوں سے پوچھا جاتا ہے وہ کیا بات ہے جو تمہارے پروردگار نے اتاری ہے ؟ تو کہتے ہیں کچھ نہیں محض اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ قیامت کے روز یہ لوگ اپنا پورا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں کے بوجھ کا ایک حصہ بھی جنہیں یہ بغیر علم و روشنی کے گمراہ کر رہے ہیں تو دیکھو کیا ہی برا بوجھ ہے جو وہ اپنے اوپر لادے چلے جا رہے ہیں “ (النحل 16 : 24 تا 25) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور اس دن کیا ہوگا جب اللہ ان سب کو جمع کرے گا اے گروہ جِنّ تم نے انسانوں میں سے بڑی تعداد اپنے ساتھ لے لی اور انسانوں میں سے جو لوگ ان کے ساتھی رہے ہیں وہ کہیں گے اے پروردگار ! ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور میعاد کی اس منزل تک پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے ٹھہرا دی تھی اللہ فرمائے گا تمہارا ٹھکانا آتش دوزخ ہے اس میں ہمیشہ رہو گے بجز ان کے جنہیں ہم نجات دینا چاہیں ، بلاشبہ تمہارا پروردگار جاننے والا ہے۔ اور اس طرح ہم بعض ظالموں کو بعض ظالموں پر مسلط کردیتے ہیں ان کی اس کمائی کی وجہ سے جو وہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ “ (لانعام 6 : 128 تا 129) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور (بعض) منکرین ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نہ اس (قرآنِ کریم) کو مانتے ہیں نہ اس سے پہلی (الہامی کتابوں) کو اور آپ ﷺ اگر ان ظالموں کو کبھی اس وقت دیکھیں جب یہ اللہ کے روبرو کھڑے کیے جائیں گے (اور وہ) ایک دوسرے کو مورد الزام بنا رہے ہوں گے جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے وہ متکبرین سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم یقینا صاحب ایمان ہوتے۔ اور (قیامت کے دن جب سب کا آمنا سامنا ہوگا) متکبرین ان کمزوروں کو کہیں گے کیا ہم نے تم کو ہدایت سے روکا جب وہ تمہارے پاس آئی تھی بلکہ تم تو خود ہی گنہگار تھے۔ اور کمزور لوگ متکبرین سے کہیں گے ، بلکہ تمہارے رات دن کے مکرو فریب نے (ہم کو حق سے روکا) جب کہ تم ہم کو حکم کرتے رہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرائیں اور (ان کی یہ رد و کد جاری رہے گی) کہ وہ عذاب کو آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو اپنی ندامت کو چھپائیں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ہم ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے اور جیسے کچھ وہ اعمال کرتے تھے ویسا ہی ان کو بدلہ دیا جائے گا۔ “ (سبا 34 : 31 تا 33) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” یہی وہ فیصلے کا دن ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (حکم ہوگا) گھیر لاؤ ان ظالموں کو اور ان کے ہم مشربوں کو اور ان کے معبودوں کو۔ (سب کو) اللہ کے سوا پھر ان سب کو دوزخ کی راہ پر ڈال دو ۔ اور ان کو ذرا ٹھہرائے رکھو ان سے (کچھ) پوچھ گچھ کی جائے گی۔ تم کو کیا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ بلکہ اس دن وہ سب (سرجھکائے) فرمانبردار (کھڑے) ہوں گے۔ اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال و جواب کرنے لگیں گے۔ وہ (اپنے پیروں سے) کہیں گے کہ تم ہی تھے جو ہمارے پاس دا ہنی طرف سے آیا کرتے تھے۔ (پیر) کہیں گے بلکہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے۔ اور (پیر مریدوں سے کہیں گے کہ) ہمارا تم پر کچھ زور تو تھا نہیں در حقیقت تم خود سرکش لوگ تھے۔ پس ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوگئی کہ ہم کو بہرحال مزہ چکھنا ہے۔ پس ہم نے تم کو گمراہ کیا (اور) ہم خود بھی گمراہ تھے۔ غرض وہ (سب) اس روز عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔ “ (الصافات 37 : 21 تا 33) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جس روز (اللہ) ان کو پکارے گا اور فرمائے گا (پوچھے گا) کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں ؟ جن کو تم (میرا شریک) خیال کرتے تھے۔ وہ لوگ کہیں گے جن پر (عذاب کا) فرمان ثابت ہوجائے گا کہ اے ہمارے رب ! یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا ، ہم نے ان کو گمراہ کیا کہ ہم خود گمراہ ہوئے تھے ، ہم تیرے روبرو ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ، یہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے (یہ خود اپنی خواہشوں کے پرستار تھے) ۔ اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو ، پس وہ ان کو پکاریں گے تو وہ ان کو کچھ جواب نہ دیں گے اور (جب) وہ عذاب کو دیکھ لیں گے (تو تمنا کریں گے کہ) کاش ! وہ راہ ہدایت پر ہوتے۔ “ (القصص 28 : 62 تا 64) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور وہ دن جب اللہ فرمائے گا جن ہستیوں کو تم سمجھتے تھے کہ وہ میرے ساتھ شریک ہیں اب انہیں بلاؤ ، وہ پکاریں گے مگر کچھ جواب نہیں پائیں گے ، ہم نے ان دونوں کے درمیان آڑ کردی ہے۔ اور مجرم دیکھیں گے کہ آگ بھڑک رہی ہے اور سمجھ جائیں گے اس میں انہیں گرنا ہے ، وہ کوئی گریز کی راہ نہیں پائیں گے۔ اور ہم نے اس قرآن کریم میں لوگوں کی ہدایت کے لیے ہر طرح کی مثالیں لوٹا لوٹا کر بیان کردیں مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ “ (الکہف 18 : 52 تا 54) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” جن لوگوں نے ظلم کیا ہے جب وہ عذاب اپنے سامنے دیکھیں گے تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ ان پر عذاب ہلکا کردیا جائے ، نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ اور جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے ہیں جب اپنے بنائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو پکار اٹھیں گے اے پروردگار یہ ہیں ہمارے شریک جنہیں ہم تیرے سوا پکارتے تھے اس پر وہ ان کی طرف اپنا جواب بھیجیں گے نہیں تم سراسر جھوٹے ہو۔ اور اس دن سب اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیں گے وہ ساری افتراء پردازیاں ان سے کھوئی جائیں گی جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ (النحل 16 : 85 : 87) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” پھر قیامت کا دن ہے جب وہ انہیں رسوائی میں ڈالے گا اور پوچھے گا بتلاؤ آج وہ ہستیاں کہاں گئیں جنہیں تم نے میرا شریک بنایا تھا اور جن کے بارے میں تم لڑا کرتے تھے ؟ جنہیں علم دیا گیا تھا پکار اٹھیں گے ، بیشک آج کے دن کی رسوائی اور خرابی سرتاسر کافروں کیلئے ہے۔ ان کافروں کے لیے کہ فرشتوں نے جب ان کی روحیں قبض کی تھیں تو اپنی جانوں پر خود اپنے ہاتھوں ظلم کر رہے تھے ، تب وہ اطاعت کا اظہار کریں گے ہم نے تو کوئی برائی کی بات نہیں کی تھی ، ہاں تم جو کچھ کرتے رہے ہو اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ پس اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ تمہیں ہمیشہ کے لیے اسی میں رہنا ہے تو دیکھو گھمنڈ کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ “ (النحل 16 : 27 تا 29) ایک جگہ فرمایا گیا : ” اور اللہ کے حضور سب لوگ حاضر ہوگئے پس ناتوانوں نے سرکشوں سے کہا ہم تمہارے پیچھے چلنے والے تھے پھر کیا آج تم ایسا کرسکتے ہو کہ ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا دو ؟ اُنہوں نے کہا اللہ ہم پر بچاؤ کی کوئی راہ کھولتا تو ہم بھی تمہیں کوئی راہ دکھاتے ، اب خواہ جھیل لیں خواہ روئیں پیٹیں ہمارے لیے دونوں حالتیں برابر ہوگئیں ہمارے لیے آج کسی طرح چھٹکارا نہیں۔ اور جب فیصلہ ہوچکا تو شیطان بولا بلاشبہ اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا ، سچا وعدہ اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر اسے پورا نہ کیا مجھے تم پر کسی طرح کا تسلط نہ تھا جو کچھ پیش آیا وہ صرف یہ ہے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا بلاوا قبول کرلیا پس اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو ، آج کے دن نہ تو میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو ، تم نے اب سے پہلے جو مجھے شریک ٹھہرا لیا تھا تو میں اس سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں بلاشبہ ظلم کرنے والوں کے لیے بڑا ہی دردناک عذاب ہے “ (ابراہیم 14 : 21 تا 22) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اس پر حکم الٰہی ہوگا انسانوں اور جنوں کی ان امتوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں تم بھی آتش دوزخ میں داخل ہوجاؤ جب کبھی ایسا ہوگا کہ ایک امت دوزخ میں داخل ہو تو وہ اپنی طرح کی دوسری امت پر لعنت بھیجے گی پھر جب سب اکٹھی ہوجائیں گی تو پچھلی امت پہلی امت کی نسبت کہے گی اے ہمارے پروردگار ! یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا توُ انہیں آتش دوزخ کا دوگنا عذاب دیجیو ، اللہ فرمائے گا تم میں سے ہر ایک کے لیے دوگنا عذاب ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں۔ (ان کی بات سن کر) پہلی امت پچھلی امت سے کہے گی دیکھو تمہیں (عذاب کی کمی میں) ہم پر کوئی بزرگی نہ ہوئی تم جیسی کچھ کمائی کرچکے ہو اس کے عذاب کا مزہ چکھ لو۔ جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی تو ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی کھلنے والے نہیں ، ان کا جنت میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا اسی طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیتے ہیں۔ “ (الاعراف 7 : 38 تا 40) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” جس دن وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں گے (اس وقت) وہ کہیں گے کہ کاش ! ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول (a) کی فرمانبرداری کی ہوتی۔ اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں کا اور اپنے بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہم کو (سیدھی) راہ سے بہکا دیا۔ اے ہمارے رب ! تو (ہمارے ان سرداروں) کو دوگنا عذاب دے اور بڑی پھٹکار ان پر ڈال دے۔ “ (الاحزاب 33 : 66 تا 68) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” جو لوگ (اللہ اور اس کے رسول کے) منکر ہیں ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے وہاں نہ ان کو قضا (یعنی موت) آئے گی کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اسی طرح ہم ہر کافر کو سزا دیتے ہیں۔ اور وہ اس میں چیخیں گے چلائیں گے کہ اے ہمارے رب ! (اس عذاب سے نکال اب) ہم نیک کام کریں گے وہ کام نہیں (کریں گے) جو ہم کرتے رہے (ان سے کہا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ اس میں جس کو سوچنا ہوتا سوچ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے (لیکن تم نے ان کی ایک نہ مانی) اب مزہ چکھو کہ ظالموں کا (اس وقت) کوئی مددگار نہیں۔ “ (فاطر 35 : 36 تا 37) ایک جگہ ارشاد ہوا : ” پھر کیا یہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ اس کا مطلب وقوع میں آجائے جس دن اس کا مطلب وقوع میں آئے گا اس دن وہ لوگ کہ اسے پہلے بھولے بیٹھے تھے بول اٹھیں گے بلاشبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر ہمارے پاس سچائی کا پیام لے کر آئے تھے ، کاش ! شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہو جو آج ہماری شفاعت کرے یا کاش ! ایسا ہو کہ ہم پھر دنیا میں لوٹا دیئے جائیں اور جیسے کچھ کام کرتے رہے ہیں اس کے برخلاف کام انجام دیں ، بلاشبہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہی میں ڈالا اور دنیا میں جو کچھ افتراء پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے کھوئی گئیں۔ “ (الاعراف 7 : 53) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ وہ کہاں گئے جن کی تم پرستش کیا کرتے تھے ؟۔ اللہ کے سوا ، کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا بدلہ لے سکتے ہیں۔ پھر اس میں وہ اور گمراہ لوگ اوندھے ڈالے جائیں گے۔ اور شیطان کے سارے لشکر بھی۔ اور جب وہ وہاں باہم جھگڑنے لگیں گے ، کہیں گے۔ اللہ کی قسم ! ہم تو صریح گمراہی میں تھے۔ جب کہ ہم تم کو تمام جہانوں کے رب کے برابر ٹھہراتے تھے۔ اور ہم کو ان مجرموں ہی نے بہکایا۔ پس اب نہ ہمارا کوئی سفارش کرنے والا ہے۔ اور نہ کوئی غم خوار دوست ہے۔ کاش ! ہم کو پھرجانے کا موقع ملتا تو ہم مسلمان ہوجاتے۔ “ (الشعراء 26 : 91 تا 102) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور تُو تعجب کرے اگر انہیں اس حالت میں دیکھے جب یہ آتش دوزخ کے کنارے کھڑے ہوں گے اس وقت کہیں گے اے کاش ! ایسا ہو کہ ہم پھر دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں اور اپنے پروردگار کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور ان میں سے ہوجائیں جو ایمان والے ہیں۔ جو کچھ یہ پہلے چھپایا کرتے تھے اس کا بدلہ ان پر نمودار ہوگیا اگر یہ دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں تو پھر اس بات میں پڑجائیں جس سے انہیں روکا گیا تھا اور کچھ شک نہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہوں گے۔ “ (الانعام 6 : 27 تا 28) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” آگ کے شعلوں کی لپٹ ان کے چہروں کو جھلستی ہوگی وہ ان پر منہ بگاڑے پڑے ہوں گے۔ کیا ایسا نہیں ہوچکا ہے کہ میری آیتیں تمہارے آگے پڑھی جاتی تھیں ؟ اور تم انہیں جھٹلاتے رہتے تھے۔ وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! ہماری بدبختی ہم پر چھا گئی تھی ہمارا گروہ گمراہوں کا گروہ تھا۔ اب ہمیں اس حالت سے نکال دے اگر ہم پھر ایسی گمراہی میں پڑیں تو بلاشبہ نافرمان ہوئے۔ اللہ فرمائے گا ، جہنم میں جاؤ اور زبان مت کھولو۔ “ (المؤمنون 23 : 105 تا 108) ایک جگہ فرمایا : ” اور بالآخر تم ہمارے حضور اکیلی جان آگئے جس طرح تم کو پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا گیا تھا اور جو کچھ تمہیں دیا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ، ہم تمہارے ساتھ ان ہستیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم نے شفاعت کا وسیلہ سمجھا تھا اور جن کی نسبت تمہارا زعم تھا کہ تمہارے کاموں میں وہ اللہ کے شریک ہیں تمہارے سارے رشتے ٹوٹ گئے جو کچھ تم زعم رکھتے تھے سب کے سب تم سے کھو گئے۔ “ (الانعام 6 : 94) ایک جگہ فرمایا : ” اور کافر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں وہ جن اور انسان دونوں دکھا دے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا تاکہ ہم ان دونوں کو ذلیل کرنے کے لیے انہیں اپنے پیروں کے نیچے روند ڈالیں “ (حم السجدہ 41 : 29) ایک جگہ فرمایا : ” اور اپنے رب کی طرف رجوع ہوجاؤ اور اس کی فرمانبرداری کرو اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے پھر (اس وقت) تمہاری مدد نہ کی جائے گی۔ اور (اے لوگو ! ) اس بہترین (کتاب) کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے قبل اس کے کہ تم پر اچانک آفت آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو کہ یہ آفت کہاں سے آگئی ؟۔ (باخبر کیوں کیا جاتا ہے ؟ اس لیے کہ) کہیں کوئی متنفس یہ (نہ) کہنے لگے کہ افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے بارے میں کرتا رہا اور میں تو صرف ہنسی ہی اڑاتا رہا (اور میں کتنا ناسمجھ نکلا ؟۔ یا کوئی کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھ کو راہ (حق) دکھاتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں ہوتا (اور انعام پاتا) ۔ یا عذاب کو دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ کاش مجھے (دُنیا میں) پھر ایک بار واپس جانا ہو تو میں (بڑے) نیک کام کرنے والوں میں ہوجاؤں۔ ہاں ! (کچھ نہیں تیرے پاس میرے احکام پہنچے تھے پھر تو نے ان کو جھٹلایا اور گھمنڈ کیا اور تو کافر کا کافر ہی رہا (تیرا شیطان تجھ پر غالب آیا) ۔ “ (الزمر 39 : 54 تا 59)
Top