Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
یہ وہی لوگ ہیں جب کبھی مصیبت ان پر آپڑتی ہے تو ان کی صدا یہ ہوتی ہے کہ { اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ }
آزمائش کی گھڑیوں میں اللہ کو یاد رکھنا صبر ہے : 279: مُّصِیْبَةٌ 1ۙ : کے لغوی معنی افتاد کے ہیں اور حدیث میں اس کی حقیقت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ : کل شی وسام المؤمن فھو مصیبۃ ، یعنی جو شے بھی مسلمان کو ناگوار گزرے بس وہی اس کے حق میں مصیبت ہے گویا اس کا اطلاق نہایت وسیع اور عام ہے اور اس کے تحت میں چھوٹا بڑا ہر ناخوشگوار واقعہ تکوینی آگیا ۔ بیماری ہو ، مالی نقصان ہو ، دوستوں ، عزیزوں کی مفارقت کا صدمہ ہو ، موت کا غم ہو ، اولاد اور خصوصاً نرینہ اولاد نہ ہو ، توہین و بےعزتی ہو۔ زبان سے اس آیت کی تلاوت کا دستور بحمد للہ اب بھی اکثر مسلمان گھروں میں پایا جاتا ہے لیکن تحصیل صبر کے لئے محض زبانی اعادہ ہرگز کافی نہیں ہوتا قلب کے سامنے بھی استحضار پوری طرح ہونا چاہئے۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ 1ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ 1ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ 00214 (البقرہ 2 : 214) ” پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ محض ایمان کا دعویٰ کر کے تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم کو وہ آزمائشیں پیش ہی نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آچکی ہیں۔ ہر طرح کی سختیاں اور محنتیں انہیں پیش آئیں ۔ شدتوں اور ہولناکیوں سے ان کے دل دہل گئے یہاں تک کہ اللہ کا رسول اور جو لوگ ایمان لائے تھے پکار اٹھے ۔ عام لوگوں کی زبان پر یہ تھا کہ اے نصرت ِالٰہی ! تیرا وقت کب آئے گا ؟ اور اللہ کے رسول نے اللہ تعالیٰ سے پیغام پا کر جواب دیا کہ گھبراؤ نہیں اللہ کی نصرت بالکل قریب ہے۔ اور ایک مقام پر اس طرح ارشاد فرمایا : ا لٓمّٓۚ001 اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ ہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ 002 وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ 003 (العنکبوت 29 : 1 ، 3) ا لٓمّٓ! کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان سے ایمانداری اور راست بازی کا دعویٰ کریں گے تو بغیر آزمائے چھوڑ دیئے جائیں گے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں اللہ نے انہیں بھی آزمائش میں ڈالا تھا اور یہ ضروری ہے بس عنقریب اللہ ان لوگوں کو ظاہر کر کے رہے گا جو اپنے دعویٰ صداقت میں سچے ہیں اور انہیں بھی جو اپنے اندر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں رکھتے۔ پھر جو لوگ ان مصائب و تکالیف سے پریشان خاطر نہیں ہوتے بلکہ انا اللہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ ان کی زبانوں پر جاری ہوتے ہیں اور انکے دل اس کے اثر کو قبول کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو فتح و کامرانی کے مستحق ہیں اور جو بزبان حال کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اب غور کرو کہ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَکے الفاظ کس درجہ حقیقت صبر کو ظاہر کرنے والے ہیں کہ ان مصیبتوں کو برداشت کرتے ہیں مگر راہ حق میں دعوت الی الخیر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور انجام کاریہی لوگ رحمت عامہ اور خاصہ کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
Top