Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 151
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ
كَمَآ : جیسا کہ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا فِيْكُمْ : تم میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَتْلُوْا : وہ پڑھتے ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِنَا : ہمارے حکم وَيُزَكِّيْكُمْ : اور پاک کرتے ہیں تمہیں وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتے ہیں تم کو الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَيُعَلِّمُكُمْ : اور سکھاتے ہیں تمہیں مَّا : جو لَمْ تَكُوْنُوْا : تم نہ تھے تَعْلَمُوْنَ : جانتے
ہم نے تم میں سے ایک شخص کو اپنی رسالت کیلئے چن لیا ، وہ ہماری آیتیں تمہیں سناتا ہے تمہارے دلوں کو صاف کرتا ہے ، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ باتیں سکھلاتا ہے جن سے تم یکسر نا آشنا تھے
اہل اسلام کے لئے ساری نعمتوں سے بڑی نعمت رسول عربی (a) ہیں : 274: اب اللہ تعالیٰ اپنی بہت بڑی نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری ہی جنس کا ایک نبی مبعوث فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی روشن اور نورانی کتاب کی آیتیں ہمارے سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفسی شرارتوں اور جاہلیت کے کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت و کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے اور کتاب و حکمت یعنی قرآن کریم اور حدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ بستہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے۔ پس آپ کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جہل چھایا ہوا تھا جنہیں مدتوں سے تاریکی نے گھیر رکھا تھا جن پر عرصہ ہوا کہ بھلائی کا پر تو بھی نہیں پڑا تھا ۔ دنیا کی زبردست ہستیوں کے استاد بن گئے۔ وہ علم میں گہرے تکلف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے ۔ دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بجائے خود حضور ﷺ کی تصدیق کا ایک شاہد عدل ہے ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ 1ۚ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ 00164 (آل عمران 3 : 164) ” بلاشبہ یہ اللہ کا مؤمنوں پر بڑا ہی احسان تھا کہ اس نے ایک رسول ان میں بھی دیا جو انہی میں سے ہے وہ اللہ کی آیتیں سناتا ہے۔ ہر طرح کی برائیوں سے انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ “ یعنی ایسے اولو العزم پیغمبر کی بعثت مؤمنوں پر اللہ کا ایک بڑا زبردست احسان ہے اس نعمت کی قدر نہ کرنے والوں کو قرآن کہتا ہے : اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ کُفْرًا ، کیا تُو نے انہیں نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی اس نعمت کے بدلے کفر کیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالا۔ یہاں نعمت اللہ سے مراد خود محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اس لئے اس زیر نظر آیت میں بھی اپنی نعمت کا ذکر فرما کر لوگوں کو اپنی یاد اور اپنے شکر کا حکم دیا ہے کہ جس طرح میں نے یہ احسان تم پر کیا تم بھی میرے ذکر اور میرے شکر سے غفلت نہ کرو۔ تاریخ گواہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے پہلے عرب خانہ جنگی اور خونریزی میں مبتلا تھے ۔ نظام صالح اور قومیت متحدہ سے بہت دور جا پڑے تھے اب ان کو ایسی تعلیم دی گئی جس نے ان شتربانوں کو جہاں ہاں بنا دیا اور رسول امّی ﷺ کی گود میں تاجداران عالم نے پرورش پائی۔ تحویل قبلہ کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا اب اس کا اختتام ہو رہا ہے ۔ اہل کتاب کے اعتراضات کے جواب اگرچہ دیئے گئے تاہم ان کی کتابوں کی طرف ایک بار پھر مراجعت کرتے ہیں اور پھر آگے بڑھیں گے۔ اہل کتاب اپنے آئینہ کتاب میں اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ جو مسجد آخر میں قبلہ قرار پائے گی وہ درجہ میں بھی پہلی مسجد سے برتر ہوگی دیکھئے ان بیانات میں مکہ کی کس طرح تعریف کی گئی۔ ! ” سمندر کی فراوانی تیری طرف پھرے گی اور قوموں کی دولت تیرے پاس فراہم ہوگی ۔ اونٹوں کی قطاریں اور مدیان و عیفا کی سانڈھنیاں آگے تیرے گرد بیشمار ہوں گی ۔ وہ سب جو سبا کے ہیں آویں گے وہ سونا اور لوبان لاویں گے اور خداوند کی تعریفوں کی بشارتیں سناویں گے۔ قیدار کی ساری بھیڑیں تیرے پاس جمع ہوں گی نبی ط کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے ۔ وہ میری منظوری کے واسطے میرے مذبح پر چڑھائے جائیں گے اور میں اپنی شوکت کے گھر کو بزرگی دوں گا۔ “ (یسعیاہ 6 ، 5 ، 6 ، 7) مدیان ، عیفا ، سبا ، قیدار اور نبی ط پانچوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے یا پوتے ہیں جو عرب میں آکر آباد ہوگئے تھے ۔ ان کی نسل کے قبائل رسول اللہ ﷺ کے دین میں داخل ہوئے۔ یہ لوگ نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی ان سب نے مل کر صرف ایک مذبح منیٰ پر اپنی قربانیاں پیش کی تھیں۔ قوموں کے نام ، منیٰ کا پتہ ، عرب کے قبائل کا مسلمان ہونا ، حجۃ الوداع میں سب کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا یہ تمام کے تمام تاریخی واقعات بتا رہے ہیں کہ شوکت کا گھر دراصل بیت الحرام ہی ہے۔ " حجی نبی کی کتاب میں ہے : ” اس پچھلے گھر کا جلال پہلے گھر کے جلال سے زیادہ ہوگا۔ رب الافواج فرماتا ہے اور میں اس مکان میں سلامتی بخشوں گا۔ “ (حجی 2 : 9) # مکاشفات یوحنا میں ہے کہ : ” جو غالب آئے ہیں اسے اپنے خدا کے مقدس میں ایک ستون بناؤں گا ، وہ پھر کبھی باہر نہ نکلے گا اور میں اپنے خدا کا نام اور اپنے خدا کے شہر یعنی اس نئے یر و شلم کا نام جو میرے خدا کے پاس سے آسمان سے اترنے والا ہے اور اپنا نیا نام اس پر لکھوں گا جس کے کان ہوں وہ سنے کہ روح کلیساؤں سے کیا کہتا ہے۔ “ (مکاشفات یوحنا 3 : 12 ، 13) عارف یو حنا نے اپنے مکاشفہ میں دو باتوں کا ذکر کیا ہے ۔ نیا یروشلم نیانام ، نئے یروشلم سے مراد کعبہ ہے آسمان سے اترنے کے یہ معنی ہیں کہ کعبہ کو قبلہ بنانے کے لئے آسمان سے حکم نازل ہوگا۔ قرآن کریم میں ہے : قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ 1ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا 1۪ (البقرۃ 2 : 144) صلح حدیبیہ کے وقت عہد نامہ میں اسم رحمٰن لکھا گیا تو ہسیل سفیر کفار نے کہا : واما الرحمٰن فو اللہ مانعرفہ ، اللہ کی قسم ہم نہیں جانتے رحمٰن کون ہے۔ قرآن کریم میں آیا ہے : وَ ہُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ 0036 (الانبیاء 21 : 36) ان کا حال یہ ہے کہ خدائے رحمٰن کے ذکر سے یک قلم منکر ہیں۔ اور ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ 1ۗ (الفرقان 25 : 6) ” اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اس رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا ہوتا ہے ؟ “ بس یہی وہ نام تھا جس سے اہل عرب باوجود اہل زبان ہونے کے ناواقف تھے ۔ قرآن کریم ہی نے آخر انہیں روشناس کرایا۔ $ زبور میں داؤ دعلیہ السلام یوں مدح و ستائش کرتے ہیں : ” مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں بسے ہیں وہ سدا ستائش کریں گے مبارک وہ انسان جس میں قوت تجھ سے ہے ۔ ان کے دل میں تیری راہیں وہ بکا کی وادی میں گزر کرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے ۔ پہلی برسات اسے برکتوں سے ڈھانپ لیتی ۔ “ (زبور 84 : 4 ، 5 ، 6) ان آیات سے حسب ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں : (ا) یہ خدا کا ایک گھر ہے ۔ وہاں کے باشندے مبارک ہیں اور وہ ہمیشہ خدا کی تقدیس اور بزرگی بیان کرتے رہیں گے۔ (ب) ان لوگوں کی قوت و شوکت کا سبب خود اللہ تعالیٰ ہوگا۔ (ج) بکا ایک ایسا نام ہے جو معرفہ معلوم ہوتا ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ (د) وادی بکا میں سے گزرتے وقت ایک کنواں بنائیں گے۔ اب ذرا مزید غور کرو بات بالکل صاف ہوجائے گی کہ بسنے والوں سے مراد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے۔ جس وادی کا نام بکا زبور میں ہے اس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ ، پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ وہی ہے جو بکا میں ہے۔ کنواں وہی ہے جس کو آب زمزم کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے جد اعلیٰ ہیں ان شاندار قوموں کے پدر بزرگوار کی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا تینوں قوموں کا اتحاد نسبی وجسمانی کی یاد دلا کر اتحاد روحانی کے لئے دعوت دینا اور متحد بن جانے کا پیغام سنا دیتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے اس کی پرستش کرتے ہیں اور یہ پرانی بت پرستی اب تک ان میں قائم ہے ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ عبادت کرنے کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے اولاً جس چیز کی پر ستش کی جائے اس کی عظمت سے دل بھر پور ہو اس کے جلال وکبریائی سے جسم انسانی پر رو نگٹے کھڑے ہوتے ہوں اور یکسر توجہ بن کر اس کے حضور میں کھڑا ہو۔ ثانیاً اس کی حمد و ستائش کے گیت زبان سے گائے جائیں اور تیسرے یہ کہ اپنی آرزو بر آنے کی اس سے درخواست ہو لیکن ان میں سے کوئی بات بھی توجہ الی ال قبلہ سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ نماز کے تمام اجزاء میں خدائے قدوس کی طرف توجہ ہوتی ہے اس کی پاکیزگی بیان کی جاتی ہے اور اس کے آگے دست سوال دراز ہوتا ہے۔ مسلمان تو ایک طرف ، خود مشرکین بھی اس گھر کو نہیں پوجتے تھے بلکہ وہ ان بتوں کی پرستش کرتے تھے جو اس کے اندر رکھے گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان بتوں کو پاش پاش کر کے ایک اللہ کی عبادت کے لئے اس کو خاص کردیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا بھی بت پرستی کی بقایا میں سے ہے ، اس اعتراض کا جواب حضرت عمر ؓ کی زبان سے سن لینا چاہیے۔ انک حجر لا تضر ولا تنفع ، تو ایک پتھر ہے کسی کے نفع و نقصان سے تمہیں کوئی سروکار نہیں۔ پھر یہ پتھر صرف اس لئے ہے کہ طواف کی ابتداء اور انتہا معلوم کرنے کا کام دے۔ ہمیں زبور میں اس کے متعلق حسب ذیل الفاظ ملتے ہیں : ” وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہوگیا ۔ یہ خداوند سے ہوا جو ہماری نظروں میں عجب ہے۔ “ (زبور 18 و 22 ، 23) دانیال میں ہے کہ : ” جیسا کہ تو نے دیکھا کہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ اس کو پہاڑ سے کاٹ نکالے آپ سے آپ نکلا۔ “ (دانیال 2 : 52) انجیل میں انگوری باغ کے ٹھیکیداروں کی تمثیل میں یوں فرمایا کہ : ” انہوں نے اس سے کہا ان بڑے آدمیوں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکیدا رباغبانوں کو دے گا جو موسم پر اس کو پھل دیں۔ یسوع نے ان سے کہا تم نے کتاب مقدس کبھی نہیں پڑھا جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہ کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے ۔ اسلئے تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔ “ (متی 21 : 41 : 44) پس حجراسود وہی نشان ہے جس کا ذکر کتاب مقدس کی ان آیات میں آیا ہے ۔ قبلہ کی بحث نے دراصل اس بات کو واضح کردیا کہ ابراہیمی دعا نبی امّی (a) کے لئے تھی یہودیوں نے اپنے قوائے عملیہ کو بیکار کردیا۔ دعوۃ و تبلیغ کے فرض کو چھوڑ بیٹھے کتاب الٰہی میں تحریف کے مرتکب ہوئے اس لئے اب خود بخود زمین و آسمان سے ندا بلند ہونے لگی کہ دعوت ابراہیم کا مصداق ظاہر ہو کیونکہ دنیا تباہی و بربادی کے گڑھے میں جا رہی ہے۔ چھ صدی تک یہ زمین الہام الٰہی سے محروم رہی تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے ایک جدید قومیت کی بنیاد ڈالنے کے لئے وہ تعلیم دی جس کا تذکرہ آئندہ آیات میں آتا ہے۔
Top