Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
” اے ہمارے رب ! اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو ، وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے ، کتاب و حکمت اور عقل کی باتوں کی تعلیم دے جو ان کی اصلاح کر دے ، یقینا تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی ہے اور سب پر غالب ہے “
رسول عربی ﷺ کے حق میں دعائے مخصوص : 240: سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کی دعا ابھی جاری ہے جیسا کہ اوپر معلوم ہوچکا کہ امت مسلمہ سے مراد اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہی میں ہے اب ” مِّنْهُمْ “ کی قید نے مزید وضاحت کردی کہ اس سے مراد نسل اسماعیل (علیہ السلام) ہی ہے۔ لفظ ھم کا مرجع امت مسلمہ کو بھی سمجھا گیا ہے اور ذریۃ کو بھی اور ماحصل دونوں کا ایک ہی ہے یعنی نسل اسماعیل ، اور یہ بات تاریخ سے اپنی جگہ ثابت ہے کہ نسل اسماعیل قوم عرب ہی میں رہ گئی اسلئے لازمی تھا کہ یہ پیغمبر عرب ہی میں پیدا ہو ۔ پھر ” رَسُوْلًا “ جو صیغہ واحد اور پھر اعراب کی تنوین گویا اشارہ قریب بلکہ بالکل ہی قریب پہنچ گیا کہ وہ رسول اللہ ایک ہی ہوگا متعدد نہ ہونگے۔ یہود کا دعوی ہے اور نصاری بھی انہی کا ساتھ دیتے ہیں کہ نبوت و رسالت تو بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص تھی یہ نیا پیغمبر بنی اسماعیل میں کیسے پیدا ہوگیا ؟ لیکن ان کی اپنی ہی کتاب تو رات باوجود تحریفات کے اب تک شہادت دیتی ہے کہ اس نبی سے مراد بنی اسماعیل ہی میں سے نبی کو ہونا ہے کیونکہ ایک جگہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہتے ہیں۔ ” خدا وند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھرنا۔ “ (استثناء 18 : 15) قطع نظر اس کے کہ بنی اسرائیل میں تو ایک نبی نہیں اللہ جانے کتنے ہی انبیاء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد پیدا ہوتے رہے خود ” تیرے بھائیوں ہی میں سے “ کی تصریح بتا رہی ہے کہ مراد بنی اسرائیل نہیں بلکہ ان کے بھائی یعنی ہم جدبنی اسماعیل ہیں اگر خبر بنی اسرائیل میں نبی کی دینا ہوتی تو بجائے ” تیرے ہی بھائیوں میں سے “ کے عبارت ” تجھ ہی میں سے “ ہوتی۔ یہ الفاظ تو صرف مخاطین کی وحشت دور کرنے اور ان میں جذبہ انس و محبت پیدا کرنے کے لیے ہے کہ اے ہم قومو ! جب وہ نبی آئے تو اس کی اطاعت کرنا وہ بھی تمہارا غیر نہیں تمہارے ہی بھائیوں میں سے ہوگا پھر تورات میں بھی بعینہٖ یہ مضمون براہ راست اللہ تعالیٰ کی جانب سے ادا کیا گیا ہے چناچہ لکھا ہے کہ : ” خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا میں ان کے لئے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ “ (استثناء 18 : 18) ٹھہریں اور غور کریں کہ کیا کہا جا رہا ہے ” اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا “ لفظی کلام الٰہی ہونے کا مصداق بجز قرآن کریم کے ساری آسمانی کتابوں میں اور ہے ہی کون ؟ لفظی کلام الٰہی ہونے کا دعویٰ کسی دوسری کتاب کا ہے ؟ اچھا اس کو بھی رہنے دیں اور دیکھیں کہ کہا گیا : ” تجھ سا “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا سا۔ مثیل موسیٰ ہونے کا مصداق تاریخ کی دنیا میں بجز محمد رسول اللہ ﷺ کے اور کون ہے ؟ کیا اس کا کوئی جواب ہے ؟ مطلق نہیں۔ پھر یہی پیشگوئی موسیٰ نبی کی زبان سے نکلی ہوئی نصاریٰ کی انجیل میں بھی موجود ہے ، اس کو کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ۔ چناچہ انجیل میں ہے کہ : ” موسیٰ نے کہا کہ خداوند خدا تمہارے بھائیوں سے تمہارے میں سے تمہارے لئے مجھ سا نبی پیدا کرے گا جو کچھ وہ تم سے کہے گا تم اس کی سننا۔ “ (اعمال 3 : 22) منصب رسالت پر فائز ہونے والے رسول کے فرائض : 241: سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کی دعا کا اختتام ان الفاظ پر ہورہا ہے کہ : ” اے ہمارے رب ! ان بنی اسماعیل میں ایک رسول بھیج جو حسب ذیل فرائض انجام دے : (ا) تیری آیات ان کو پڑھ کر سنائے تاکہ لوگ ان کا مفہوم و مطلب سمجھ لیں اور جو لوگ عربی نہ جانتے ہوں وہ ترجمہ کے ذریعہ واقفیت بہم پہنچائیں۔ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ ۔ (ب) تلاوت کے بعد جس قدر شکوک و شبہات پیدا ہوں ان کو دور کرنا کیونکہ جب تک اعتراضات کو دور نہ کیا جائے گا قانون کی طرف توجہ نہ ہوگی اور یہ کتاب دینے ہی سے ممکن ہے ۔ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ ۔ (ج) تعلیم حکمت ، کچھ لوگوں نے حکمت سے مراد نبی کریم ﷺ کی سنت لی ہے اور اس کی تائید میں مقدام کی روایت پیش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تین بار نہایت زور دے کر فرمایا : (الا وانی اوتیت ال کتاب و مثلہ) خبردار ! میں کتاب اللہ کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا ہوں۔ بلاشبہ حکمت سے مراد سنت صحیہ ہے لیکن قرآن کریم کی تصریحات نے اس سنت رسول ﷺ میں مزید وسعت پیدا کردی ہے جس سے مقام سنت اور حقیقت سنت کا تعین بھی کردیا گیا ہے کہ حکمت سے مراد علم اور دانائی کی باتیں ہیں اور ظاہر ہے کہ علم اور دانائی میں پیغمبر و رسول سے کون بڑھ سکتا ہے ؟ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا ہے : وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا 1ؕ (یوسف 22 : 12) ” پھر جب ایسا ہوا کہ یوسف اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے کارفرمائی کی قوت اور علم کی فراوانی بخش دی “ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت ارشاد فرمایا کہ ” وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ “ (آل عمران 3 : 48) اللہ نے اس کو کتاب و حکمت کا علم سکھایا۔ “ اور لوط (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد فرمایا اور کہا : وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا (الانبیاء 21 : 74) اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے احکام حق دینے کا منصب لور نبوت کا علم عطا فرمایا۔ “ اور زیر نظر سورة بقرہ میں حکمت کو خیر کثیر سے تعبیر کیا چناچہ ارشاد ہوا کہ : وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا 1ؕ(البقرہ 2 : 269) وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے اور جس کسی کو حکمت مل گئی تو یقین جانو اس نے بڑی ہی بھلائی پالی۔ “ اس طرح کی صدہا آیات کریمات بتاتی ہیں کہ حکمت سے مراد علم اور دانائی کی باتیں ہیں۔ بلاشبہ ہر نبی کے دور میں نبی سے بڑھ کر کوئی علم و حکمت جاننے والا نہیں ہوتا لیکن اللہ کے قانون کے مطابق نبوت کا معاملہ تو ختم ہوگیا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا تاہم علم و دانائی کا باب بند نہیں ہوا اور نہ ہی قیامت تک ہوگا۔ ہاں ! حکمت و دانائی کی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن تک صرف ارباب فہم و فراست ہی کی دسترس ہو سکتی ہے اور قرآن کریم کے علوم قیامت تک کھلے رہیں گے ان پر کوئی شخص قدغن (Bane) نہیں لگا سکتا جو سمجھ لیا گیا وہ بس ہے اور اب مزید قرآن کریم سے کچھ نہیں سیکھاجا سکتا۔ جو پیغمبر اسلام نے بیان فرمایا وہ بھی حکمت و دانائی سے باہر نہ تھا ، نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ اس سے واضح ہوگیا کہ جوں جوں زمانہ ترقی کرے گا اور نئے نئے علوم کھلتے جائیں گے وہ سب قرآن کریم کی تصدیق کریں گے وہ کبھی قرآن کریم سے متصادم نہ ہوں گے اور نہ ہی قرآن کریم ان سے متصادم (Contrudiction) ہوگا دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کو ایسے کلیہ پر حل کرنا کہ دنیا کے تمام مذاہب دلیل کے ساتھ اس کا انکار نہ کرسکیں اور اس کی عالمگیر دعوت کے آگے اپنی گردنیں خم کردیں۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ : قلت لما لک ما الحکمۃ ؟ قال المعرفتہ بالدین والفقہ فیہ والا تباع لہ ، میں نے امام مالک سے دریافت کیا کہ حکمت کسے کہتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ دین کی معرفت ، اس میں درس و فہم اور اس کے اتباع کا نام حکمت ہے اور احکام دین کا معلوم کرنا بھی حکمت ہے حق و باطل میں تمیز کرنا اور حقائق اشیاء کی معرفت بھی اسی قبیل سے ہیں۔ “ (د) انسان کی سعادت و نیک بختی کے لئے تعلیم محض بیکار ہے جب تک اس کے زندہ نمونے بھی انسانوں کے سامنے دکھائی نہ دیں۔ انسانی طبیعت منفعل اور اثر پذیر واقع ہوئی ہے ۔ محض تعلیم کی سماعت وہ اثر نہیں پیدا کرسکتی جو انسانی نمونہ عمل کا کرتا ہے۔ پس نبی گویا اس نمونہ کو پیش کرتا ہے اور اپنی صحبت وہم نشینی سے لوگوں کو پاک و مز ّکی بناتا ہے اور جب نبوت ختم ہوچکی علمائے حق پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ جہاں تک اس کو نباہ رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے متعلق ارشاد فرمایا کہ : انا دعوۃ ابی ابراہیم ، کہ میں اپنے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی نتیجہ میں نبی بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔ مختصر یہ کہ انجام کار یہ دعائیں قبول ہو کر رہیں۔ اس رسول عربی نے آیات تلاوت بھی کیں اور نہ صرف عرب کے لوگوں کو پاک بنایا بلکہ وہ تو دوسروں کے پاک ہونے کا ذریعہ بنے ۔ جن کو آپ نے تعلیم دی وہی دنیا کے رہبر اور معلم بن گئے اور قصیرو کسریٰ کے خزانوں کی چابیاں ان کے ہاتھ آگئیں۔ یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے بچے۔ کھیلنے جاتے تھے ایوان گہہ کسریٰ میں شکار
Top