Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمتیں یاد کرو جن سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا اور میں نے تمہیں اقوام عالم میں برگزیدگی عطا کی تھی
اجمال اور تفصیل ِاجمال کے بعد دوبارہ اجمال کی حکمت : 228: آیت نمبر 122 اس سے پہلے آیت 40 ، اور آیت نمبر 47 میں دو بار ذکر کی جا چکی ہے۔ اور تیسری بار پھر ذکر کی ہے اور اس طرح آیت 123 بھی اس سے پہلے آیت 48 میں بیان کی جا چکی ہے۔ ان دونوں آیات کی تفصیل کے لئے حاشیہ نمبر 88 تا 91 اور 101 تا 103 نمبر ملاحظہ ہوں۔ آیت 40 اور 47 میں جو اجمال تھا اس کی تفصیل آیت 48 سے 121 تک کی گئی اور بنی اسرائیل کے متعلق جن خاص خاص مضامین کا بیان کرنا مقصود تھا وہ پورا ہوا۔ پھر اس تفصیل کے بعد مجمل طور پر دوبارہ ان کے انعامات الٰہی کو ذکر کیا جاتا ہے۔ محاورات میں یہ طرز بلیغ بھی اعلیٰ درجہ کا سمجھا جاتا ہے کہ مفصل اور مطول بات کرنے سے پہلے ایک مجمل عنوان سے اس کی تقریر کردی جائے۔ جس کا قدر مشترک تمام تفاصیل کے سمجھنے میں معین و مددگار ہو اور آخر میں بطور خلاصہ اور نتیجہ تفصیل اس مجمل عنوان کا پھر اعادہ کردیا جائے کہ تکبر بڑی مضر خصلت ہے۔ اس میں ایک ضرر یہ ، دوسرایہ ، تیسرا یہ ، اسی طرح آٹھ دس یا دس بیس مضر تیں گنوا کر پھر آخر میں کہہ دیا جائے کہ غرض تکبر بڑی ہی مضر خصلت ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ انسان دراصل مجموعہ اضداد ہے۔ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو یقیناً کوئی نہ کوئی خوبی بھی اس میں ضرور ہوگی اور یہ بات من حیث الافراد بھی ہے اور من حیث الجماعت بھی۔ جہاں ان کو الزامی جواب دیئے گئے وہاں اب تحقیقی اعتبار سے بھی گفتگو کی جاتی ہے اس طرح سے ان کی قومی دیانت ، خاندانی بزرگی اور احتساب اعمال کو پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ بولنے سے پرہیز کریں اور صحیح جواب دیں۔
Top