Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 110
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَاَقِیْمُوْا الصَّلَاةَ : اور تم نماز قائم کرو وَاٰتُوْا الزَّکَاةَ : اور دیتے رہوتم زکوۃ وَمَا : اور جو تُقَدِّمُوْا : آگے بھیجو گے لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے مِنْ خَيْرٍ : بھلائی تَجِدُوْهُ : تم اسے پالو گے عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللہ : اللہ بِمَا : جو کچھ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور نماز قائم کرو ، زکوٰۃ ادا کرو ، جو کچھ بھی تم اپنے لیے نیکی کی پونجی پہلے سے اکٹھی کرلو گے اللہ کے پاس اس کے نتائج وثمرات موجود پاؤ گے تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے
ارکانِ اسلام کے اندر ہی غلبہ اسلام ہے ارکان کو سمجھ کر ادا کرنے کی عادت بنالو : 207: نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ ادا کرنا اور صالح اعمال بجا لانا ہی ایسے اعمال ہیں جن کا نتیجہ غلبہ اسلام ہے پس اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر نماز و زکوٰۃ کی مشق کرو اور یقین جانو کہ یہ محنت کبھی ضائع جانے والی نہیں بشرطیکہ تم نماز قائم کرو ، ٹکریں نہ مارو ، تم زکوٰۃ ادا کرو ، تاوان نہ سمجھو۔ نیک اعمال کرو اس لئے نہیں کہ تم سے نیکی کی گئی ہے بلکہ اس لئے کہ تمہارے اندر صرف نیکی ہی نیکی ہے ، اور تمہارے اندر کی برائی اپنی جگہ خالی کرگئی ہے جس میں تم نے نیکی بھر لی ہے اور برائی کو باہر پھینک دیا ہے اور اب برائی کے لئے تمہارے اندر کوئی جگہ ہی خالی نہیں ابھی وقت ہے جس قدر مشقت برداشت کرو گے میدان جنگ میں اتنا ہی فائدہ ہوگا تم میں جوش و ولولہ عزم ثبات قدم اور استقلال و استقامت کے جذبات حقہ پیدا ہوں گے اور ایثار و قربانی کی بنا پر کفار و مخالفین کے مقابلہ میں کامیاب ہوجاؤ گے کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ میں یہی اخلاق کام آتے ہیں۔ تعداد اور سامان حرب کی کثرت کچھ بھی اس کے مقابلہ میں مفید نہیں ہوتی۔ دیکھو قرآن کریم کو کھولو اور پڑھو : كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ 1ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ 00249 (البقرہ 2 : 249) ” بار ہا ایسا ہوا کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔ “ اللہ تمہارا ایک ایک کام نہایت ہی گہری نظر سے دیکھ رہا ہے اس کی مصلحت چاہتی ہے کہ ابھی جہاد کا حکم نافذ کرنے میں تاخیر ہو۔ قرآن کریم نے صدہا مقامات پر نماز کو مسلمانوں کا اولین فرض قرار دیا چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ 0043 (البقرہ 2 : 32) ” نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ ۔ “ ایک جگہ فرمایا : حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى 1ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ 00238 (البقرہ 2 : 238) ” اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو اور خصوصاً اپنی نماز کی جو محاسن صلوٰۃ کی جامع ہو۔ “ ایک جگہ حکم ہوا : اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا 00103 (النسا 4 : 103) ” نماز ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ0031 (الروم 30 : 31) ” نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ ۔ “ ایک جگہ فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ 1ؕ (البقرہ 2 : 153) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ! صبر اور نماز سے مدد لو۔ “ ایک جگہ فرمایا : وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاؕ008 (المزمل 73 : 8) ” اپنے رب کا ذکر کرو اور سب کی طرف سے آنکھیں بند کر کے صرف اسی کے ہوجاؤ ۔ “ ایک جگہ فرمایا گیا : وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ 0014 (طہ 20 : 14) ” اور میری ہی یاد کے لئے نماز قائم کر۔ “ ایک جگہ فرمایا : الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ002 (المؤمنون 23 : 2) ” جو لوگ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع رکھتے ہیں۔ “ ایک جگہ فرمایا : وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ009 (المؤمنون 23 : 9) ” وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ “ ؂ ایک جگہ فرمایا : رِجَالٌ 1ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ (النور 24 : 37) ” ایسے لوگ جنہیں کوئی دھندا نماز کے اہتمام سے غافل نہیں کرتا اور نہ سوداگری کا کاروبار۔ “ ایک جگہ فرمایا : كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ 0017 وَ بِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۠0018 (الذاریات 51 : 17 ، 18) ” وہ لوگ رات کو کم ہی سویا کرتے تھے اور بوقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔ “ یہ چند آیات بطور اشارہ درج کی ہیں ان کی تشریح ان کے مقام پر آئے گی۔ علاوہ ازیں کثرت سے آیات مل سکتی ہیں جن میں نماز کی تاکید کی گئی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے اس تاکید کو اس طرح بیان فرمایا ، آپ ﷺ کے الفاظ یہ ہیں : عن ابن مسعود قال سالت النبی۔ ای الا عمال احب الی اللہ تعالیٰ قال الصلوٰۃ لوقتھا۔ ” ابن مسعود کہتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اعمال انسانی میں سے کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے َآپ ﷺ نے فرمایا نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔ “ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ : ” بین العبد و بین الکفر ترک الصلٰوۃ “. ” بندہ اور کفر میں فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کردینا ہے۔ “ ایک حدیث میں ارشاد ہوا : مروا اولادکم بالصلوٰۃ وھوم ابناء سبع سنین اوضر بوھم علیھا وھم ابناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع۔ سات سال عمر کی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو ، دس سال کے ہونے کے باوجود نماز ادا نہ کریں تو ان کو سزا دو اور اپنے پاس مت سونے دو ۔ عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ : کان اصحاب رسول اللہ۔ ایرون شیئا من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ ۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ صرف ترک صلوٰۃ ہی کو کفر سے تعبیر کرتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے گورنروں کو حسب ذیل حکم بھجوایا : ان اھم امورکم عندی اصلوٰۃ من حفظھا و حافظ علیھا حفظ دینہ ومن ضیعھا فھو لما سواھا اضیع۔ ” تمہارے جس قدر اعمال و امور ملکی ہیں ان میں میرے نزدیک اہم اور اعظم ترین نماز ہے جس نے اس کی نگرانی کی اس نے اپنے دین کو بچالیا اور جس نے اس معمولی مشقت کو برداشت نہ کیا اس سے اب کیا توقع ہوسکتی ہے اور کسی بڑے ملکی کام میں اس پر اعتماد نہیں ہوسکتا۔ “ اسی طرح زکوٰۃ کے لئے بھی قرآن کریم میں مختلف آیات نازل کی گئیں۔ مؤمنین کی شان میں یہ بیان اسی طرح فرمایا گیا : وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ004 (المؤمنون 23 : 4) جو لوگ زکوٰۃ ادا کرنے میں سرگرم ہیں۔ ایک جگہ انبیاء کو حکم ہوا : وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِ 1ۚ وَ کَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَۚۙ0073 (الانبیاء 21 : 73) گروہ انبیاء کو ہم نے نیک کردار بنایا تھا ہم نے انہیں انسانوں کی پیشوائی دی تھی۔ ہمارے حکم کے مطابق وہ راہ دکھاتے تھے ہم نے ان پر وحی بھیجی کہ ہر طرح کے بھلائی کے کام سرانجام دیں ، نیز نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ ادا کریں اور وہ سب ہماری بندگی میں لگے رہتے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاء کرام کے مقابلہ میں صغر سنی 26 ، 28 سال کی عمر ہی میں نبوت سے نوازا اور ان سے اعلان کرا دیا کہ : وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا 2۪ۖ0031 (مریم 19 : 31) ” اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک کہ میں زندہ ہوں ، یہی میرا شعار ہو۔ “ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے اصول اساسی میں نماز کا یہ مقام تھا فرمایا : وَ کَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ 1۪ (مریم 19 : 55) ” وہ اپنے سب لوگوں کو گھر والے ہوں یا جاننے والے سب کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتا تھا۔ “ قرآن کریم میں جہاں کہیں زکوٰۃ کا لفظ آتا ہے وہاں ہر جگہ اس سے اصطلاحی زکوٰۃ مراد نہیں بلکہ زیادہ جگہوں پر اس کا مفہوم وسیع ہے یعنی اللہ کے نام پر خرچ کرنا اور فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا خصوصاً مکی آیات کریمات میں تو اصطلاحی زکوٰۃ مراد لی ہی نہیں جاسکتی۔ کیونکہ اصطلاحی زکوٰۃ کا قانون مدینہ طیبہ میں آ کر مرتب ہوا تھا اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بناتے وقت یہ وصیت فرمائی تھی : ان اللہ قد فرض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاء ھم فترد علی فقرائھم ۔ اللہ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے کہ ان کے دولت مندوں سے لے کر ان سے فقراء مساکین میں تقسیم کیا جائے۔ اور تاریخ کا یہ اہم فیصلہ سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل تھا جو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے مانعین زکوٰۃ کے متعلق فرمایا اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں سے باقاعدہ جنگ کی اور فرمایا : واللہ لا قاتلن من فرق بین الصلوٰۃ والزکوٰۃ فان الزکوٰۃ حق المال واللہ لو منعونی عناقا کانوا یورونھا الٰی رسول اللہ۔ لقاتلھم علٰی منعھا۔ ” اللہ کی قسم جو شخص نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں اسکے ساتھ جنگ کرونگا اسلئے کہ یہ مال کا حق ہے ، واللہ اگر یہ بکری کا ایک بچہ بھی مجھے نہ دیں گے جبکہ یہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے۔ تو ان کے نہ دینے پر ان سے ضرور لڑوں گا۔ نماز اور زکوٰۃ دونوں کو مسلمانوں پر فرض کیا گیا اور یہ وہ وقت تھا جب کہ جہاد کے لئے ابھی ایک آیت بھی نازل نہ ہوئی تھی یہ ترتیب نزولی خود اس امر کی شاہد ہے کہ شریعت کی نظر میں نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج بالکل شروع یعنی ابتدائی دور سے فرض ہیں اور جوں جوں اسلام ترقی کرتا گیا ان کی اہمیت بڑھتی گئی اور ان کی اصطلاحی صورت اگرچہ بعد میں متعین ہوئی جو اس کی ایک اعلیٰ ترین تعلیم اور انتہائی اسلامی ڈگری تسلیم کی گئی اور جس کا نزول ایک مدت کے بعد ہوا پھر اسی طرح ان اعمال میں پختگی آجانے کے بعد اور ان کی اصطلاحی صورت مکمل ہوجانے کے بعد اسلام کے سب سے بہتر عمل کی طرف رغبت دلائی جانے لگی چناچہ ارشاد فرمایا کہ : اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا کَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ 004 (الصف 61 : 4) ” اللہ ان ہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس استقلال سے صف بستہ لڑتے ہیں گویا وہ ایک دیوار ہیں جس کے اندر سیسہ پگھلا کر بھر دیا گیا ہے۔ “ صحابہ کرام ؓ جو اعمال اسلامی جن کا ذکر اوپر گزر چکا خوب پابند تھے اور اس حکم کے متلاشی تھے کہ اب انہیں وہ کام بتایا جائے جو احب الاعمال الی اللہ ہو یعنی سب اعمال میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو چناچہ سورة الصف میں ترغیب دلائی گئی تھی اور سورة توبہ میں صاف صاف کہہ دیا کہ : اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ؕ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ 1ؕ (التوبہ 9 : 19) ” کیا تم لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ حاجیوں کے لیے سبیل لگا دینا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس درجہ کا کام ہے جیسا اس شخص کا کام جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ “ اندازہ کیجیے کہ قریش مکہ کو بیت اللہ کی مجاوری اور حاجیوں کے کاروبار کے منصرم ہونے کا بڑا غرور تھا ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یاد رکھو جب ایک جماعت اعتقاد و عمل کی حقیقت سے محروم ہوجاتی ہے تو اس طرح کے رسوم و مظاہر کو ہر طرح کی بزرگی وسعادت کا ذریعہ سمجھنے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے آج کل بھی مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ کسی بزرگ کی سجادہ نشینی ، کسی مزار کی مجاوری ، کسی زیارت گاہ کا متولی ہونا جو اثرو رسوخ رکھتا ہے وہ بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر مؤمن و متقی کو بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایک صالح و متقی انسان کو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ایک فاسق و فاجر ، مجاور یا متولی درگاہ کی ہزاروں آدم قدم بوسی کریں گے۔ یہاں اس گمراہی کا ازالہ کیا ہے فرمایا جا رہا ہے کہ اصل نیکی یہ نہیں ہے کہ حاجیوں کو پانی پلانے کی سبیل لگا دی جائے یا بیت اللہ میں روشنی کردی اصل نیکی تو اس کی نیکی ہے جو ایمان لایا اور جس نے اعمال حسنہ انجام دیئے اور اللہ کی راہ میں جان جیسی متاع عزیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ سورئہ توبہ کی ان آیات نے واضح کردیا کہ اللہ کے نزدیک بزرگی و فضیلت کا معیار کیا ہے ؟ فرمایا سب سے بڑا درجہ انہی کا ہے جنہوں نے سچائی کی راہ میں ہر طرح کی قربانیاں کیں اور ایمان وعمل کی آزمائش میں پورے اترے۔ تمہارے گھڑے ہوئے تقدس و بزرگی کے مناصب اور رواجی بڑائیاں اللہ کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ آج کل مسلمانوں کی مذہبی ذہنیت کس درجہ اسلام سے دور ہوگئی ہے جاہلیت عرب کی طرح وہ بھی رواجی نیکیوں کو حقیقی اسلامی نیکیوں پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ اگر ایک فاسق و فاجر امیر محرم میں سبیل لگا دیتا ہے یا ربیع الاول میں دھوم دھام سے مولود کی مجلس کرا دیتا ہے یا کسی مسجد اور درگاہ میں بجلی کی روشنی کرا دیتا ہے تو تمام مسلمان اسکی تعریف کا غلغلہ مچا دیتے ہیں اور کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ایمان و عمل اور ایثار فی سبیل اللہ کا کیا حال ہے یاد رکھنا چاہئے کہ رواجی نیکیاں اللہ کے نزدیک نیکیاں نہیں ہیں بلکہ اللہ کے نزدیک نیکی کا معیار صرف ایمان و عمل اور ایمان و عمل کی راہ میں ایثار یعنی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ نماز جو اَب تک جہاد اکبر سمجھی جاتی تھی قرآن کریم کی نظر میں جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلہ میں اپنے ابتدائی مقام کی طرف لوٹا دی گئی اور اس میں قصر کرنے کی صورت اختیار کرنے کا حکم نازل ہوگیا۔ قصر تین صورتوں میں ممکن تھی اور تینوں ہی میں اس کو قصر کردیا گیا یعنی قصر جماعت ، قصر رکعات اور قصر اوقات۔ پہلی صورت یعنی قصر جماعت کو اس صورت یعنی نساء نے صاف کردیا اور فرمایا گیا کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! جب تم مسلمانوں میں موجود ہو اور جنگ ہو رہی ہو اور تم ان کے لئے نماز قائم کرو تو چاہئے کہ فوج کا ایک حصہ مقتدی ہو کر تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے اور چاہئے کہ اپنے ہتھیار لئے رہے پھر جب وہ سجدہ کرچکے تو پیچھے ہٹ جائے اور دوسرا حصہ جو نماز میں شریک نہ تھا تمہارے ساتھ شریک ہوجائے اور چاہئے کہ پوری طرح ہوشیاری رکھے اور اپنے ہتھیار بھی پہنے رکھے۔ “ (النساء 4 : 102) دوسری صورت یعنی قصر رکعات کے متعلق یہ حکم ہوا کہ چار کی جگہ سفر میں دو ہی پڑھ لیا کرو۔ ” اور جب تم سفر میں نکلو اور تمہیں اندیشہ ہو کر کافر تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہے اگر نماز میں سے کچھ کم کر دو یعنی قصر کرو ، بلاشبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں وہ جب موقع پائیں گے تم پر حملہ کردیں گے۔ “ یعنی سفر کی حالت میں قصر کرنے اور جنگ کی حالت میں خاص طریقہ پر نماز ادا کرنے کا حکم ہے جسے ” صلوٰۃ خوف “ کہتے ہیں۔ نماز کی قصر کا حکم جنگ ہی کی وجہ سے دیا گیا تھا لیکن پھر ہر طرح کے سفر کے لئے عام ہوگیا۔ سنت رسول اللہ ﷺ اور تعامل سے معلوم ہوچکا ہے کہ قصر سے مقصود چار کی جگہ دو رکعت پڑھنا ہے۔ اگر نماز چار رکعت سے کم کی ہے تو اس میں قصر نہیں۔ تیسری صورت یعنی قصر اوقات کا مسئلہ تو نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ جمع صوری ہو سکتی ہے ، اور عند الضرورۃ ” جمع بین الصلوٰتین “ یعنی ظہر و عصر و مغرب و عشاء کو اکٹھا کر کے بھی پڑھا جاسکتا ہے یعنی ” ظہرین “ اور ” عشائین “ کے نام سے بھی جمع کیا جاسکتا ہے۔ تمام دن سفر کرتے کرتے ایک دن شخص دوپہر کو ضرور قیام کرے گا پس ظہر و عصر کو ملا کر پڑھ لے۔ رات کو کسی نہ کسی جگہ آرام کرے گا اس وقت مغرب و عشاء ادا کرلے بلکہ عزوئہ خندق میں آپ ﷺ نے چار نمازیں ایک ہی وقت میں دا کیں۔ جہاد کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حرس لیلۃ فی سبیل اللہ افضل من الف لیلۃ یقام لیلھا و یصام نھارھا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک رات کی چوکیداری ہزار شب کی ایسی عبادت سے بہتر ہے کہ تمام راتوں میں قیام ہو اور دن کو روزہ ہو ، ایک حدیث میں ارشاد ہوا کہ : رباط یوم فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیھا ، اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک روز چوکیداری کرنا دنیا اور اس کے تمام سامانوں سے بہتر ہے۔ حقیقت تو یہی تھی جو اوپر بیان کی گئی مگر بدبختانہ ہم نے جہاد فی سبیل اللہ کو بالکل فراموش کردیا اور اس سے بھی زیادہ بدبختی یہ ہوئی کہ اب جہاد جہاد نہ رہا بلکہ بازی گروں کا تماشا بنا دیا گیا۔ ایک ہی ملک کے باشندے مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو کر الگ الگ قیادتوں میں بٹ گئے اور یہ تفریق اسلام کی نہیں بلکہ کفر کی تفریق تھی اس لئے کہ اسلام نے تفریق کو کفر قرار دیا تھا۔ پھر ہر قائد نے اپنی مرضی کے مطابق جہاد کے لشکر تیار کرنا شروع کردیئے اور ہر قائد نے رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات اور قرآن کریم کی ان ہدایات کو اپنے گروہی جہاد کے لئے استعمال کیا۔ جس نے اپنے ملک اور ممالک غیر سے روپیہ اکٹھا کر کے خوب گل شرے اڑائے اور جہاد جیسے اہم رکن اسلامی کی خوب تضحیک کی۔ افسوس کہ پہلے ان مذہبی اجارہ داروں نے نماز ، روزہ اور زکوٰۃ جیسے اہم ارکان اسلامی کی تصویروں کو بگاڑا اور اب جہاد جیسی اہم عبادت کو پیٹ کا دھندا بنا لیا۔ نماز اس لئے ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کیا گئی تھی کہ جنگی خدمت تمام مسلمانوں پر بیک وقت لازم ہو۔ بیک وقت ایک لشکر جرار تیار ہو اور ان کی اندرونی گروہی تقسیم بالکل نابود ہو کر رہ جائے۔ جس طرح ان سب کا اللہ ایک ہے کتاب ایک ہے ضروری ہے کہ ان کا امام بھی ایک ہو۔ اس کو امیر کہیں ، امیر المؤمنین کے نام سے یاد کریں خلیفۃ اللہ کے لقب سے پکاریں۔ بہر حال وہ ایک اور صرف ایک ہو۔ تاکہ یہ سب مل کر ایک ہوجائیں اور ایک جسم و جان کی طرح ہو کر میدان جنگ میں اتریں۔ جب تک ایسا تھا جہاد تھا۔ جب سے ایسا نہ رہا جہاد نہ رہا۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا جہاد نہیں کہلا سکتا۔ زکوٰۃ کا منشا یہ تھا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ہو کہ جب کبھی خلافت اسلامی کو روپیہ کی ضرورت ہو تو ہر مسلمان اپنی تمام جائیداد خلافت کی نذر کر دے اور ایک کوڑی بھی اپنے پاس نہ رکھے۔ یاد رکھو ًبات خلافت اسلامی کی ہو رہی ہے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے اماموں اور پیشوائوں کی نہیں۔ ان پیشہ ور دکانداروں کی نہیں۔ ان فتنہ پرداز مفتیوں اور پیروں کی نہیں ، ان بازی گر قاضیوں اور پیٹ کے اسیروں کی نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مال طلب کرتے ہیں۔ ابوبکر ؓ کے اسوئہ حسنہ کو دیکھو جس نے اللہ کی راہ میں تمام گھر بار لٹا دیا۔ رسول اللہ ﷺ دریافت کرتے ہیں کہ اے ابوبکر ؓ بال بچوں کے لئے کیا رکھا ؟ جواب ملتا ہے : ابقیت لھم اللہ ورسولہ ، ان کے لئے اللہ اور اس کا رسول (a) بس ہے ۔ کسی نے سچ کہا ہے : آنکس کہ ترا بخواست جاں راچہ کند ؟ فرزند و عیال و خانماں راچہ کند ؟ دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخش ؟ دیوانہ تو ہر دو جہاں راچہ کند ؟
Top